Saturday, October 5, 2024
Blog

اشک غم لے کےآخر کدھر جائیں ہم

بہ روز بدھ: ٢٤/ محرم الحرام ١٤٤٦ ہجری مطابق: ٣١/ جولائی ٢٠٢٤ عیسوی کی صبح تمام مسلمانان عالم نے یہ کرب ناک خبر سنی کہ دنیا کی طاغوتی طاقتوں کے خلاف ہر میدان میں سینہ سپر رہنے والے بے باک قائد؛ اسلام کے سچے جرنیل؛ صبر و استقامت کے پیکر مجسم رہنما؛ دوسروں کےآرام کی خاطر مصائب و آلام کا سامنا کرنے والے مرد مجاہد؛ حماس کے سیاسی سربراہ: شیخ اسماعیل ہانیہ ایران کی راجدھانی تہران میں پاسداران انقلاب کے مہمان خانے میں اپنے بیٹوں پوتوں سمیت اپنے خاندان کے 70 افراد کی شہادت کے بعد خود بھی جام شہادت نوش فرما گئے۔ انا لله وانا اليه راجعون.
ذرائع ابلاغ کی فراہمی کی وجہ سے ان کی شہادت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح دنیا بھر میں تیزی کے ساتھ پھیل گئی۔ اس خبرکوسننا تھا کہ مسلمانوں پر غم و الم کے بادل چھا گئے، یہ خبر تمام مسلمانوں کے لیے قیامت صغری سے کم نہیں تھی۔ ایسے وقت میں جب کہ فلسطین کا شہر غزہ، امریکہ کے لے پالک اور انسانیت کے دشمن اسرائیل کے ظلم وستم کا سامنا کر رہا ہے، اسرائیل نے ظلم و ستم کے تمام حدوں کو پار کر دیا ہے، شہر غزہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے، دوسری طرف نام نہاد مسلم حکمران اپنی عیاشی میں مست ہیں۔
ایسے خطرناک حالات میں شیخ اسماعیل ہانیہ کا وجود مسلمانوں کے لیے تسلی کا باعث تھا، وہ دوحہ میں مقیم ہونے کی وجہ سے غزہ کی ناکہ بندیوں کے دوران بھی سفر کی پابندیوں سے آزاد تھے؛ اس لیے تن تنہا جنگ بندی کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ پورے عالم اسلام کے محبوب اور ہردل عزیز تھے، وہ عزم و حوصلہ اور جرأت و بہادری کی علامت تھے، ان کے اندر مسلمانوں کے تئیں درد و کڑھن تھی۔
اس عظیم حادثے کے باوجود ان کے گھر میں نوحہ اور ماتم کی کوئی جگہ نہیں ہے، ان کے بیٹے نے والد کی شہادت کے بعد کہا کہ:
حق کے لیے عظیم لوگ قربان ہوا کرتے ہیں میں اپنے والد کو شہادت پر مبارکبادی پیش کرتا ہوں۔
جب 1948عیسوی میں فلسطین کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھوپا گیا، تو اسماعیل ہانیہ کے والد بھی بے گھر ہونے والے افراد میں شامل تھے۔ شیخ اسماعیل ہانیہ کی پیدائش 1962 عیسوی میں غزہ شہر کے مغرب میں ایک پناہ گزیں کیمپ میں ہوئی۔ 1987 عیسوی میں اسلامی یونیورسٹی سے ادب کی ڈگری حاصل کی، 1988 عیسوی میں حماس کے قیام کے وقت ایک نوجوان بانی کے رکن کی حیثیت سے شامل تھے،1997 عیسوی میں وہ حماس کے روحانی رہنما: شیخ احمد یاسین کے پرسنل سکریٹری بن گئے، اس قربت نے اسماعیل ہانیہ کی ذہنی تربیت کی، 2006 عیسوی میں فلسطین اتھارٹی کے وزیراعظم بنے، 2009 عیسوی میں غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کی، پھر 2017 عیسوی میں خالد مشعل کی جگہ ان کو حماس کا سربراہ بنایا گیا۔ اخیر تک وہ اس منصب پر قائم رہے۔
پچھلے دس مہینوں سے شیخ اسماعیل ہانیہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف سد سکندری بنے ہوئے تھے، ایک ہفتے قبل وہ نئے ایرانی صدر جناب مسعود کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے ایران کے دارالحکومت تہران پہنچے، وہیں ان کی قیام گاہ پہ منگل و بدھ کی درمیانی شب دو بجے ایک گائیڈ میزائل کے ذریعے انہیں شہید کر دیا گیا۔
نماز جنازہ ایرانی لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے پڑھائی، جس میں خواتین سمیت لاکھوں مسلمانوں نے شرکت کی،دوسری طرف ایشیا اور افریقہ سمیت اکثر مغربی ممالک میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔
جمعہ کے دن حق کے نشان اور اس خود غرضی کے دور میں دوسروں کی خاطر جینے والے اس مرد قلندر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں،اشکبار آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔

مر بھی جاؤں تو کیا لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے میرے ہونے کی گواہی دیں گے
اللہ تعالی ان کی شہادت کو قبول فرمائے اور امت مسلمہ کو ان کا نعم نعم البدل عطا فرمائے۔آمین۔

محمد حماد پہراوی
دورہ حدیث شریف دارالعلوم دیوبند
بہ روز بدھ:٣٠/ محرم الحرام١٤٤٦ ہجری- ٦/ اگست٢٠٢٤عیسوی

Leave a Response