وقف امینڈمینٹ بل مسلمانوں کو ان کی جائیدادوں سے محروم کرنے، وقف کرنے کے حق کو محدود کرنے اور مرکزی حکومت کو تمام کنٹرول دینے کے لیے لایا جا رہا ہے: حضرت امیر شریعت
اربا، رانچی میں عظیم الشان تحفظ اوقاف کانفرنس، متعدد سیاسی پارٹیوں کے نمائندگان کی شرکت
رانچی 03؍ اکتوبر (پریس ریلیز)
آج یہاں عبد الرزاق انصاری ہینڈ لوم کامپلیکس، اربا میں عبد الرزاق انصاری ایجوکیشنل ایند کلچرل سینٹر کے زیر اہتمام عظیم الشان تحفظ اوقاف کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس اجلاس میں بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ کے امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کے علاوہ جے۔ پی۔ سی۔ کے ممبران میں ایم پی ڈاکٹر سید ناصر حسین، ایم پی عمران مسعود، ایم پی جناب مولانا محب اللہ ندوی کے علاوہ منت رحمانی شامل تھے۔ انواراحمد انصاری، قاضی محمد انظار عالم قاسمی، مولانا مفتی انور قاسمی، مولانا تہذیب الحسن رضوی، جناب فہد رحمانی نے شرکت کی۔
اس موقعہ پر حضرت امیر شریعت نے اپنے تفصیلی خطاب میں پرزینٹیشن کے ذریعہ بہت ہی واضح انداز میں وقف، وقف کی شرعی حیثیت، واقف کے منشاء پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ حکومت یہ چاہتی ہے کہ ہم مسلمانوں سے ہماری مساجد، قبرستانیں، اور ہماری دیگر عبادت گاہوں یا مدارس و خانقاہوں کو اس بل کے ذریعہ سینٹرل گورنمنٹ کو دیدیا جائے۔ انھوں نے کہا اس بل کے مضمرات کے تفصیلی نقصانات کو سمجھنے کے لیے کم از کم 5 سے 6 گھنٹے کی ضرورت ہے، لیکن مختصر وقت میں اتنا سمجھ لیجیے کہ یہ بل وقف کو ختم کرنے کے کام کرے گا، اس بل کے ذریعہ حکومت اپنی ناپاک عزائم کو ہم پر تھوپنا چاہتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج کل یہ بھرم پھیلایا جا رہاہے کہ 1947 میں جو مسلمان پاکستان چلے گئے تھے، حکومت نے ان کی زمینوں کو وقف میں دیدیاگیا جو کہ سراسر جھوٹ ہے۔ پاکستان جانے والے مسلمانوں کی زمینیں تین طرح کی تھیں، ایک وہ جو انھوں نے بیچ دی، حکومت نے اس بیچنے کو تسلیم کیا۔ دوسری وہ زمینیں جو اُن کے باپ داد نے وقف کی تھی اور وہ لوگ اس کے متولی تھے۔ تیسری وہ زمینیں جو انھوں نے نا رجسٹری کی تھی، نا اُن کے باپ دادا نے وقف کیا تھا، بلکہ یوں ہی چھوڑ دیا، اس زمین کو حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ دوسری قسم کی زمینیوں کے چوں کہ وہ مالک نہیں تھے، اور 1947 سے قبل ہی وقف کردہ زمینیں تھیں، اس لیے اس پر مسلمانوں نے حکومت کے سامنے احتجاج کیا اور حکومت نے کم وبیش 5 سے 6 سال کے بعد جن کی تحقیق ہو سکی بس اُنھیں زمینوں کو واپس کیا۔ تو یہ کہنا کہ پاکستان جانے والے مسلمانوں کی ساری زمینیں وقف بورڈ کو دے دیدی گئیں بالکل ہی غلط ہے۔ اسی طرح یہ بھرم بھی پھیلانا کہ مسلمان جس زمین پر ہاتھ رکھ دے وہ وقف ہو جاتی ہے یہ بالکل حقیقت کے کے خلاف بات ہے اور شریعت بھی اس کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ حضرت امیر شریعت نے اپنے تفصیلی خطاب میں بتایا کہ یہ بل آرٹیکل 25 میں دیے گیے مذہبی آزادی، آرٹیکل 26 میں دیے گئے مذہبی امور کے انتظام کرنے کی آزادی، آرٹیکل 300 اے۔ میں دیے گئے مال وجائیداد کے حق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ بل سپریم کورٹ کے دیے گئے فیصلے کے خلاف، روایات کے خلاف، وقف سے متعلق اسلامی مزاج کے خلاف ہے۔
حضرت امیر شریعت کے علاوہ ممبر پارلیمنٹ عمران مسعود نے کہا کہ یہ بل مسلمانوں کے علاوہ دیگر طبقات کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ آج وقف بل کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانا بنایا جارہا ہے، کل یہ آگ آپ کے گھروں تک بھی پہنچے گی۔ حکومت جھارکھنڈ کے کابینی وزیر ڈاکٹر رامیشور اُراؤں نے اپنے خطاب میں کہا کہ حضرت امیر شریعت کے بیان سے مجھے آج وقف کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوا، آج کے کانفرنس میں نا آنے سے میں وقف سے متعلق اتنی اہمی تفصیلی معلومات سے میں محروم رہ جاتا۔ انھوں نے حضرت امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانی علیہ الرحمۃ سے اپنے رشتوں کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ بھاجپا 400 سیٹیں اسی لیے چاہ رہی تھیں کہ وہ سنودھان بدل دے۔ لوگوں نے بھاجپا کو قانون کی بڑائی دکھاتے ہوئے بھاجپا کو چھوٹا کردیا ہے۔ چوںکہ بھاجپا سازش ہی کرتی رہتی ہے، اس لیے اگر چہ اس کو 400 سیٹیںنہیں ملی ہیں، لیکن پھر بھی اس نے چھوٹی سازش کرنا نہیں چھوڑا۔ وقف ایکٹ میں ترمیم بھی اس کی انھیں چھوٹی سازشوں میں سے ایک ہے۔ کانگریس آئی کے قومی صدر جناب ملکا ارجن کھڑگے کے صلاح کار اور جی پی سی کے ممبر و راجیہ سبھا ممبر جناب سید ناصر حسین صاحب نے کہا کہ مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب نے بہت تفصیل سے آپ کو سمجھایا ، یہ صحیح ہے کہ ہماری عبادت گاہوں اور عبادت سے جُڑی ساری چیزیں ختم ہو جائیں گی۔ انھوں کیشو مہتو کملیش صاحب کو خصوصی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ حج کمیٹی کی تشکیل اور اس سے متعلق دستور سازی کی جائے اور اس کو منظور کرایا جائے۔ جن لوگوں کی موب لنچنگ ہوئی ہے انھیں دس دنوں کے اندر معاوضہ دینے کا بھی انتظام کیا جائے۔ اس کے علاوہ منظور احمد انصاری صاحب نے اپنے خطاب میں کانگریس کو اس بات پر متوجہ کرایا کہ ہمارے معاملات پر ریاستی حکومت بالخصوص کانگریس پارٹی توجہ دے۔ ہم جب اپنے علاقوں میں جاتے ہیں تو لوگ ہم سے کاموں کے بارے میں پوچھتے ہیں، ایسا نا ہو کہ ہمارے نوجوان بھٹک جائیں اور ادھر اُدھر منتشر ہو جائیں۔ انھوں نے حضرت امیر شریعت سے رانچی میں بھی رحمانی 30 کو کھولنے کا مطالبہ کیا، تاکہ جھارکھنڈ کے زیادہ سے زیادہ بچے اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ رام پور یوپی سے ممبر پارلیمنٹ اور جے پی سی کے ممبر جناب مولانا محب اللہ ندوی کہا کہ مسلمانوں کو وقف بل کے خلاف مجتمع رہنے کی ضرورت ہے اور کسی بھی بہکاوے سے خود کو بچانے کی ضرورت ہے۔ ان کے علاوہ مقررین میں جناب جھارکھنڈ حکومت کے وزیر جناب ڈاکٹر عرفان انصاری صاحب، سابق ایم پی و سابق مرکزی وزیر جناب سبودھ کانت سہائے، سابق وزیر تعلیم حکومت جھارکھنڈ جناب بندھو ترکی ودیگر بھی شریک رہے۔
اجلاس میں درج ذیل تجاویز پاس ہوئیں اور سب لوگوں نے ہاتھوں کو اٹھا کر ان تجاویز کی تائید کی۔
1: ہم NDA الائنس میں سیکولر پارٹیز خاص طور پر JDU اور TDP سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بل کو عوامی طور پر مسترد کریں اور پارلیمنٹ میں اس کی پروسیڈنگ رکوادیں۔
2: ہم معزز چیف منسٹر جھاڑکھنڈ، جناب ہیمنت سورین صاحب، اور جھارکھنڈ وقف بورڈ کے چیئرمین، جناب سرفراز صاحب، سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تلنگانہ حکومت کی طرح اس بل کو مکمل طور پر مسترد کرنے کے لئے ایک ریزولیوشن پاس کریں اور مرکزی حکومت کو بھیجیں۔
3: ہم مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (JPC) سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے قومی فرائض کو یاد رکھیں اور انصاف، برابری، اور بھائی چارے کے مفاد میں اس بل کو مکمل طور پر مسترد کردیں۔
4: ہم عزم کرتے ہیں کہ ہم اپنے خاندانوں اور قوم میں وقف اور آئینی حقوق کی بیداری کی مہم چلاتے رہیں گے۔
مذکورہ بالا تجاویز اور وقف ترمیمی بل کے خلاف تفصیلی میمورنڈم حضرت امیر شریعت کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے وزیر اعلیٰ جھارکھنڈ جناب ہیمنت سورین صاحب سے ملاقات کرکے ان کے سپرد کیا اور اُن سے تلنگانہ اور کرناٹک کے طرز پر جھارکھنڈ اسمبلی میں بھی وقف ترمیمی بل کو مسترد کرنے کی گذارش کی۔ جناب انوار احمد انصاری اور ان کے رفقاءکی قیادت میں اس کامیاب تحفظ اوقاف کانفرنس کا اختتام حضرت امیر شریعت کی دعاؤں پر ہوا۔