مولانا جمیل اختر صاحب علیہ الرحمہ کی مثالی شخصیت اور ان کی خدمات ( ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی )


رانچی شہر اور مضافات کے چند علماء اور سیاسی و سماجی شخصیات جن کی دینی و دنیاوی اور سماجی و معاشرتی خدمات کے متعلق اپنے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق صاحب مظاری علیہ الرحمہ سے سن رکھا تھا کہ قوم و ملت کی فلاح و بہبودی کے لئے انھوں کیا اور اس کے لئے کتنی قربانیاں دیں اور بعد میں ان کے کارناموں اور اں کی قربانیوں کا لوگوں نے کیا بدلہ دیا ، ایسے اشخاص کی کارکردگی کی داستاں کو اپنے والد محترم کی زبانی سن کر میں نے ان کو اپنی ” یادداشت” میں لکھ رکھا ہے کہ کیسے کیسے نامور علماء اور سیاسی و سماجی رہنما پیدا ہوئے جنھوں نے اپنی پوری زندگی قوم و ملت کی فلاح و بہبودی میں لگادی ،اپنی اولاد کے لئے نہ تو مال و دولت کا ذخیرہ جمع کیا اور نہ ہی بدعنوان سیاسی لیڈروں کی طرح بے حساب زمین و جائیداد اکٹھا کیا ایسے ہی اشخاص میں ایک اہم اور نمایاں شخصیت حضرت مولانا سید جمیل اختر صاحب کی تھی ، لمبا قد گورا اور صاف بدن ، بڑی بڑی آنکھیں ، چوڑی پیشانی ،کھڑی ناک ، پرنور چہرہ جس سے سامنے والے پر آپ کی شخصیت کا رعب پڑتا تھا ، حضرت مولانا سید جمیل اختر ولد حافظ سید عبد الغنی صاحب سن 1922 عیسوی، بیلہ بھوساھی ، پات پور، ضلع ویشالی ، مظفر پور، بہار میں پیدا ہوئے ، آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے بزرگ صفت والد محترم جناب حافظ سید عبد الغنی صاحب سے حاصل کی اور بہار کے ہی مختلف تعلیمی اداروں سے علمی فیض حاصل کیا ، اپ کو مشہور و معروف اور مایہ ناز محدث حضرت مولانا قاری سید فخر الدین صاحب کا خصوصی شاگرد ہونے کا فخر و امتیاز بھی حاصل رہا ہے ،انھیں کے توسط سے مولانا جمیل اختر صاحب 1958 عیسوی میں مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی تشریف لائے اور مدرس کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دینے لگے ، غالباً ڈیڑھ دو سال کے اندر ہی جب آپ کے علم و فضل اور آپ کی تقریری صلاحیت کا علم ھند پیڑھی کے لوگوں کو ہوا تو انھوں نے 1960 میں بڑی مسجد ھند پیڑھی کی امامت و خطابت کے طور پر آپ کو اہل رانچی کے لئے ایک گوھر نایاب سمجھا جو بعد کے دنوں میں صحیح بھی ثابت ہوا ، مولانا جمیل اختر صاحب ایک بیباک ، نڈر ،قومی و ملی ہمدردی کے جوش سے لبریز ، مسلمانوں کے روشن مستقبل کے خواہاں ، حکومت و پولیس انتظامیہ کے ادنیٰ سے اعلیٰ افسروں سے انکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے اور کسی سے جلدی مرعوب نہ ہونے والے جوشیلے و ولولہ انگیز مقرر اور بے مثال خطیب تھے ، آپ 1960 میں رانچی کے مسلمانوں کے بے حد اسرار پر مدرسہ حسینیہ کڈرو کے مدرس کی ملازمت چھوڑ کر بڑی مسجد ہند پیڑھی رانچی کی امامت و خطابت کی ذمےداریوں سے منسلک ہوگئے ، یہاں آکر آپ نے دیکھا کہ پورے علاقے میں جہالت اور بے دینی عام ہے، آپ اندر سے بے چین و پریشان اور متفکر رہنے لگے، علاقے میں پھیلی ہوئی اس جہالت اور بے دینی کو دور کرنے کے لئے ایک طرف آپ نے 1962 میں بڑی مسجد سے بالکل متصل اس زمین پر دینی تعلیم عام کرنے کی غرض سے ” دارالقرآن” کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا جو آج بھی قائم ہے ، جہاں محلے کے لوگ اپنے گھروں کا کوڑا کرکٹ پھینکا کرتے تھے ، آج وہ مدرسہ بڑی مسجد کا ایک حصہ ہے ، دوسری طرف بے دینی کو دور کرنے اور عام مسلمانوں کو مسجد اور مسجد کے اعمال کلمہ اور نماز سے جوڑنے کے لئے دہلی کے نظام الدین مرکز سے مسلسل رابطہ قائم کرکے بڑی مسجد ہند پیڑھی میں دعوت و تبلیغ کا مرکز قائم کیا ، جس کا پہلا امیر جماعت ہونے کا فخر بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ، آج لوگ اس حقیقت کو بھولتے جارہے ہیں ، آپ کے ذریعے قائم کیا گیا مدرسہ “دارالقرآن ” اور بڑی مسجد میں دعوت و تبلیغ کے مرکز قائم ہوجانے سے دونوں کو بڑی شہرت و مقبولیت حاصل ہونے لگی ، لوگ اپنے بچّوں کو مدرسہ دارالقرآن میں تعلیم کے ذریعے جہالت کے اندھیرے کو دور کر رہے تھے اور بڑے بزرگ جنھیں کلمہ اور نماز پڑھنا نہیں آتا تھا وہ دعوت و تبلیغ کے مرکز ہند پیڑھی بڑی مسجد سے جڑ کر اور جماعتوں میں چلہ اور چار مہینہ لگا کر اپنے اعمال کی اصلاح کر رہے تھے ، مولانا جمیل اختر صاحب علیہ الرحمہ نے بڑی مسجد کی امامت و خطابت اور مدرسہ دارالقرآن کے اھتمام کی ذمےداریوں کو پوری امانت و دیانت کے ساتھ ادا کرکے کے رانچی کے مسلمانوں میں ایک انقلاب پیدا کردیا اور رانچی میں امامت و خطابت کے منصب کی ایک تاریخ رقم کردی ، آپ کا قائم کردہ وہ مدرسہ دارالقرآن جہاں سینکڑوں کی تعداد میں مقامی اور بیرونی طلباء علم دین سے سیراب اور فیضیاب ہورہے تھے جہاں مولانا قاری علیم الدین قاسمی صاحب ، مولانا الطاف حسین قاسمی صاحب اور میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب وغیرہ جیسے علماء کرام درس کیا کرتے تھے اور مدرس کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے تھے ، مدرسہ دارالقرآن کی کی شہرت و مقبولیت اور اس کے تعلیمی نظام اور اس کے معیار میں دن بدن ترقی ہو رہی تھی ، مولانا کی زندگی کا پورا وقت آنہیں دینی و معاشرتی خدمات میں صرف ہوتا تھآ، ہر وقت قوم و ملت کی فلاح و بہبودی کے لئے سرگرداں رہتے تھے، 1967عیسوی میں اردو زبان پر نکالے گئے ایک جلوس پر پتھراؤ کے نتیجے میں ہندو مسلم فساد برپا ہوگیا جسے پرانے لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں ، چاروں طرف مار کاٹ جاری تھا اور شہر کے کنارے مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو آگ لگائی جارہی تھی اور لوٹا جا رہا تھا ، ایسی خوفناک حالت اور ایسے کشیدہ ماحول میں اپر بازار میں واقع مدرسہ اسلامیہ رانچی کے بچوں کو فسادیوں کے چنگل بچاکر کون نکالے ،یہ ایک بڑا پیچیدہ مسئلہ تھا ،اچھے اچھوں کی حالت خراب تھی ، ایسے موقع پر اپنے انجام کی پرواہ کئے بغیر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر مولانا جمیل اختر صاحب میدان میں کود پڑے اور اپنی جان میں کھیل کر مدرسہ اسلامیہ کے پھنسے ہوئے بچوں کو وہاں سے نکالا ، اپ کی اس ہمت و شجاعت اور قومی و ملی جذبے و حوصلے کو دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے اور پورے علاقے میں حضرت مولانا جمیل اختر صاحب کو داد و تحسین سے نوازا جانے لگا اور ہر طرف آپ کی ہمت اور بہادری کے چرچے ہونے لگے ، رانچی کے مسلمانوں نے آپ کو آپنے سروں پر بٹھا لیا آپ جو کہتے لوگ ویسا ہی کرتے ، شہرت و مقبولیت کی یہی وہ گھڑی ہوتی ہے جب مسلم معاشرے میں چند حاسدین عبداللہ ابن سبا منافق کے کردار کے ساتھ شیطانی غرور ” انا خیر منہ ” (میں اس سے بہتر ہوں ) کا علم لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اپنے زھریلے اور ناپاک عزائم سے اختلاف و انتشار کا بیج بونا شروع کردیتے ہیں اور ماحول کو اتنا مکدر اور پراگندہ کردیتے ہیں کہ آدمی کنارہ کشی میں ہی اپنی خیر و عافیت سمجھنے لگ جاتا ہے اور منافقین و حاسدین اسی کو اپنی کامیابی سمجھ کر شیطانی جشن منانے لگ جاتے ہیں اور بعد میں پھر خود ہی اپنی ہیٹھ تھپتھپاتے رہتے ہیں ، یہی حال مولانا جمیل اختر صاحب کے ساتھ ہوا اور ان سے پہلے اور بعد کے علماء و ائمہ کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا ہے ، مولانا جمیل اختر صاحب ایک جید عالم و فاضل اور بیباک مقرر و خطیب کے ساتھ ساتھ ہومیوپیتھ کے ایک تجربہ کار ڈاکٹر بھی تھے، رانچی شہر کے مختلف محلوں اور علاقوں میں آپ کی ڈسپینسری تھی جس سے لوگ فیضیاب ہوتے تھے ، اس کے علاوہ مین روڈ رانچی میں واقع کتابوں کی مشہور و معروف دوکان تاج بک ڈپو کے ٹھیک سامنے مولانا ایک چھوثی سے کپڑے کی دوکان بھی تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کا مزاج کاروباری بھی تھا اور تجارت کے فن سے بھی بخوبی واقف تھے ، مولانا جمیل اختر صاحب کی دینی و معاشرتی کارکردگی کی بنیاد پر شہرت و مقبولیت اتنی بڑھ گئی تھی کہ سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خان کے ساتھ آپ نے بھی ملک کے کئی علاقوں کا دورہ کیا تھا ، خان عبد الغفار خان آپ کی شخصیت اور آپ کی باتوں اور آپ کے فکر سے بہت متاثر ہوئے تھے ، ذکر و اذکار اور قرآن کریم کی تلاوت کثرت سے کرتے تھے ، میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب سے آپ کے بہت گہرے تعلقات تھے ، زندگی کے آخری سالوں میں جب بھی کوئی تکلیف ہوتی تو آپ اپنے لڑکے اعجاز احمد جہاں آپ رہتے تھے کو کہتے تھے کہ مولانا صدیق مظاہری صاحب کو فون کر کے بلاؤ یا تم خود جاکر بلا لاؤ ،میرے والد محترم مولانا کے لڑکے اعجاز احمد کے ساتھ فورآ چلے جاتے اور گھٹنوں ان کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتے اور اگر کبھی اسپتال جانے کی ضرورت پڑتی تو میرے والد محترم کو ساتھ لے جاتے ، مولانا کی شخصیت اور ان کے کارناموں کی یہ ساری تفصیلات اپنی والد محترم سے سن کر ہی میں نے قلمبند کیا ہے ، اس ظرح کی بہت ساری یادیں اپنے والد محترم کے توسط سے رانچی کی مختلف شخصیات کے بارے میں محفوظ ہیں جس عام کرنے کا ایک سلسلہ میں نے شروع کیا ہے ، مولانا جمیل اختر صاحب کی وفات 9/ جنوری 2018 بروز منگل ٹھیک عشاء کی اذان کے وقت ہوئی ، آپ وفات کی خبر پورے شہر میں جنگل کی آگ طرح پھیل گئی ، آپ کی نماز جنازہ لوگوں کی بھیڑ کی وجہ کر ہرمو عیدگاہ اور تدفین راتو روڈ قبرستان میں ہوئی ، آپ کے چھہ لڑکے اور چار لڑکیاں ہیں ،ایک لڑکا اور ایک لڑکی کا انتقال مولانا کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا ، مولانا صبر و استقلال کے پہاڑ تھے ، آپ آخیر میں ساری زندگی اپنے ایک نہایت ہی فرمانبردار اور اطاعتِ گزار لڑکے محمد سید اعجاز احمد کے ساتھ لاہ فیکٹری روڈ آبو بکر مسجد کے نزدیک واقع مکان میں رہے ، زندگی کے آخری لمحات تک آپ کے لڑکے سید اعجاز احمد نے مولانا جمیل اختر صاحب کی بڑی خدمت کی ہے جو ایک اولاد کے لئے بڑی خوش نصیبی کی بات ہے ، اللہ تعالیٰ حضرت مولانا جمیل اختر صاحب علیہ الرحمہ کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے آمین اور ان کے آل اولاد کی ہر قسم کے شرور و فتن سے حفاظت فرمائے آمین
