رانچی کے بزرگ عالم دین صوفی جمالی صاحب کی شخصیت اور ان کی خدمات (ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی)


رانچی شہر میں کئی ایسے علماء گزرے ہیں جو اپنی علمی اور تقریری صلاحیت ، بزرگی ، اخلاص و للہیت ، اخلاق و کردار اور عوامی مقبولیت کی وجہ کر آج بھی یاد کئے جاتے ہیں ، ان کی یادوں کے نقوش آج بھی پرانے لوگوں کے دل و دماغ میں محفوظ ہیں ، ایسے ہی پرانے لوگوں کے ذریعے جس شخصیت کی یادوں کو اپنی تحریر میں سمیٹ کر تازہ کرنا چاہتا ہوں تاکہ موجوہ اور آئیندہ نسلیں بھی ان کی شخصیت اور ان کی خدمات کو یاد رکھیں ، اس صوفئ باصفا عظیم بزرگ شخصیت کا نام مولانا محمد یوسف عرف صوفی جمالی رحمۃاللہ علیہ یے جو بنیادی طور پر بھاگلپور بہار کے رہنے والے تھے ، مولانا صوفی جمالی صاحب رانچی کب تشریف لائے اس کی صحیح تاریخ مجھے تلاش کرنے کے باوجود نہیں ملی لیکن بعض واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ تقسیم ملک 1947 سے قبل رانچی تشریف لا چکے تھے ، صوفی جمالی صاحب کا اصلی نام محمد یوسف تھا اور جمالی ان کا تخلص تھا اور صوفی صاحب سے مشہور تھے ، آپ کی سادگی و بزرگی اور عالمانہ شان کی وجہ کر عوام نے اپ کا اصلی نام نہ لے کر صوفی صاحب کے نام سے آپ کو مخاطب کرنا شروع کردیا جو اتنا مشہور و مقبول ہوا کہ صوفی صاحب آپ کے نام کا حصہ ہوگیا اور آپ صوفی صاحب کے نام سے مشہور ہوگئے حتی کہ لوگوں کو بعد میں آپ کا اصلی نام بھی یاد نہیں رہا ، آپ کی سادگی اور بزرگی سے متاثر ہوکر ادریسیہ برادری نے آپ کے ساتھ اپنی عقیدے و محبت کے اظہار کے طور پر اپنی ایک پنچایت کا نام ہی صوفی پنجایت رکھ دیا جو آج بھی صوفی پنچایت کے نام سے موجود ہے ، صوفی جمالی صاحب اردو کے ایک اچھے اور قادر الکلام شاعر بھی تھے ، مشاعروں میں اپنا کلام سنایا کرتے تھے ، آواز بھی بہت اچھی تھی ، جب ترنم کے ساتھ اپنا کلام سناتے تھے تو سامعین مسحور ہو جاتے تھے ، ہر طرف سے داد و تحسین ملنے لگتی تھی اور ” دوبارہ ارشاد ہو ، دوبارہ ارشاد ہو” کی آوازیں بلند ہونے لگتی تھیں ،ایسا ہی رانچی شہر کا ایک واقعہ 1957 کا ہے جب اردو کی حمایت میں ایک جلوس رانچی کے مین روڈ میں نکلا تھا جس میں چھرے بازی کا ایک واقعہ پیش آ گیا تھا اور ایک شخص شدید طور پر زخمی ہو گیا تھا جس سے ماحول میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی ، اس کے چند دنوں کے بعد ہی اردو کی مخالف میں فرقہ پرستوں کی جانب سے ردِعمل کے طور پر ایک اور جلوس نکلا گیا اور ڈیلی مارکیٹ میں گھس کر غیر سماجی عناصر شرارت اور ہنگامہ کرتے ہوئے ڈیلی مارکیٹ میں داخل ہوگئے اور ڈیلی مارکیٹ میں لوٹ پاٹ مچاکر چلے گئے ، کسی طرح حالات کو کنٹر ول کیا گیا ، ماحول کو پُرامن بنانے کی غرض سے شہر کے پرامن ذمےدار شہریوں کی جانب سے ڈیلی مارکیٹ کے اندر ہی ایک مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں شہر کے دوسرے شعراء کے علاوہ مولانا صوفی جمالی صاحب بھی شریک تھے ، راعین مسجد کے امام و خطیب مولانا غلام مصطفی صاحب بھی موجود تھے ،وہ بھی ایک اچھے شاعر تھے، صوفی صاحب نے ترنم کے ساتھ ایک غزل پڑھا تھا جس کا پہلا مصرع تھا کہ ” کل ایک جلوس نکلا تھا پھل لوٹتا ہوا ” صوفی جمالی صاحب کے اس شعر کو لوگوں نے اتنا پسند کیا کہ وہ پورے مشاعرے میں چھا گئے ، لوگ کہتے ہیں اپنی خوبصورت اور دمدار آواز سے اپنا کلام سنا کر انہوں نے ” مشاعرہ لوٹ لیا ” کا محاورہ اپنے حق میں کر لیا تھا ، صوفی جمالی صاحب عربی ، فارسی ، اردو ، ہندی ، انگریزی اور بنگلہ زبان پر مکمل دسترس رکھتے تھے ، ایک عالم ہونے کی حیثیت سے عربی ، فارسی اور اردو میں اچھی صلاحیت کا ہونا یہ کوئی تعجب اور حیرت کی بات نہیں تھی ، حیرت و تعجب اور قابل رشک بات تو یہ تھی کہ اپنی خداد داد صلاحیت اور اپنی محنت سے انھوں نے انگریزی اور بنگلہ زبان پر بھی کافی اچھی دسترس حاصل کرلی تھی ، انگریزی اخبار تو وہ اس تیزی اور روانی کے ساتھ پڑھتے تھے کہ سامنے والا دنگ رہ جاتا ہے کہ ایک صوفی نما مولوی اور انگریزی میں اتنی اچھی مہارت اور اتنی اچھی انگریزی ؟ ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے ڈورنڈہ کالج رانچی کے افتتاحی جلسہ میں اور کانکے کے ایک خاص جلسہ میں انہوں نے ایک گھنٹہ پوری تقریر انگریزی میں کر ڈالی جسے سن کر لوگ حیرت میں پڑ گئے ، اسی طرح صوفی جمالی صاحب کو بنگہ زبان میں بھی کافی دسترس حاصل تھی اور کافی مہارت تھی ، لوگ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ بنگالی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بنگال سے حواری مسجد میں جمعہ کا خطاب سننے کے لئے آگئ تو انہوں نے بنگالی مسلمانوں کے آنے کی پیشگی اطلاع اور کسی کی فرمائش کے بغیر پوری تقریر بنگلہ زبان میں کرڈالی ، لوگ صوفی صاحب کی اتنی شاندار اور بنگلہ زبان میں فصیح و بلیغ بیان سن کر حیرت میں پڑ گئے اور دنگ رہ گئے ، اتنی جامع صلاحیتوں کے مالک تھے صوفی جمالی صاحب ، ان کی علمی صلاحیت کا اندازہ ان کی تقریروں اور ان کی علمی گفتگو سے ہوتا تھا ، مختلف علوم کے جامع تھے صوفی جمالی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، وہ شروع سے تا حیات حواری مسجد کربلا چوک رانچی کے امام و خطیب رہے ، رانچی میں ان کی سادگی اور بزرگی کا کوئی جواب نہیں تھا ، گورا رنگ ، صاف نورانی چہرہ ، درمیانی قد ، کرتہ شلوار میں ملبوس سائیکل لئے ہمیشہ مسکراتے ہوئے نظر آتے تھے صوفی جمالی صاحب ، کرتا میں داڑھی کے نیچے اور دامن میں پان کے پیک گرجانے کا داغ ان کی شناخت اور پہچان تھی ، وہ سرکاری قاضی تو نہیں تھے اور نہ ہی اس زمانے میں آج کی طرح سرکاری قاضی کا رواج تھا لیکن پورے شہر کا نکاح صوفی جمالی صاحب ہی پڑھایا کرتے تھے ،لوگ اپنے لڑکے اور لڑکیوں کا نکاح صوفی جمالی صاحب سے پڑھوانے میں فخر و امتیاز محسوس کرتے تھے ، دونوں جیب میں چھوہارا بھرا رہتا تھا ،راستے میں جو بھی ملتا مُسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ دو تین چھوہارا ضرور پکڑا دیتے تھے ، حواری مسجد میں آپ کی تقریر بڑی عالمانہ اور صوفیانہ انداز میں ہوتی تھی ، اصلاح معاشرہ پر بہت زور دیتے تھے ، آج رانچی کا جو علمی اور دینی ماحول ہے یہ انہیں بزرگوں کی محنت و کاوش کا نتیجہ ہے ، مین روڈ رتن ٹاکیز کے بغل میں کونکا روڈ کے کونے میں چائے کے دو مشہور و معروف ٹھیلے لگتے تھے ، ایک شریف ٹھیلہ اور دوسرا منان ٹھیلہ ، صوفی جمالی صاحب اکثر و پیشتر منان ٹھیلہ میں چائے پیتے اور وہیں کچھ دیر بیٹھتے ، لوگ ان سے وہیں ملتے ، ملاقات کرتے اور مسائل پوچھتے جس کا صوفی صاحب برجستہ اطمینان بخش جواب دیتے ، آپ کی علمی صلاحیت و قابلیت اور تقریر کرنے کا انداز اور آپ کی بزرگی کا یہ عالم تھا کہ آزادی کے بعد جب اندرا گاندھی کی دعوت پر سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خان دہلی ائے تو انہوں اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں رانچی کے صوفی جمالی صاحب سے ملنا چاہتا ہوں ، خان عبد الغفار خان دہلی سے جب رانچی آئے تو کربلا چوک حواری مسجد کے پاس ایک جلسہ کا اہتمام کیا گیا جس میں خان عبد الغفار خان اور صوفی جمالی صاحب کی تقریر ہوئی ، مغرب کی نماز حواری مسجد میں خان عبد الغفار خان صاحب نے صوفی جمالی صاحب کے پیچھے پڑھی ، صوفی جمالی صاحب سے مل کر خان عبد الغفار خان بہت خوش ہوئے اور ان کی سادگی و بزرگی اور ان کی علمی صلاحیت و قابلیت سے بہت متاثر ہوئے ، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صوفی جمالی صاحب کتنے بڑے متبحر عالم دین اور کتنے بڑے صوفئ باصفا بزرگ تھے کہ سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خان آپ سے ذاتی طور پر متعارف تھے اور آپ کی علمی صلاحیت اور آپ صوفیانہ مقام سے بخوبی واقف تھے تبھی تو آپ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، ہند پیڑھی رانچی کے مبارک خان صاحب صوفی جمالی صاحب کی شخصیت اور ان کی بزرگی سے اتنے متاثر ہوئے اور ان سے اتنی عقیدت و محبت تھی کہ انہوں نے ہند پیڑھی کے ” بر محلہ بڑکا باڑی” سے مشہور بڑی مسجد گلی میں اپنی پانچ کٹھہ زمین صوفی صاحب کو ہدیہ کردیا ، اپنے نانیہال بڑی مسجد گلی میں رہنے کی وجہ سے صوفی صاحب کی یادوں کی دھندلی سی تصویر میرے ذہن میں بھی ہے ، لوگوں کے تعاون سے ہی صوفی صاحب کے لئے اس زمین پر مکان کی تعمیر ہوئی ، اس سے پہلے آپ لاہ فیکٹری روڈ ہند پیڑھی میں ایک کرایہ کے مکان میں مع اہل و عیال رہتے تھے ، یہ تھا اس دور کے صاحب حیثیت و صاحب ثروت مقتدیوں کا اپنے امام و خطیب کے ساتھ عقیدت و محبت ، اور ان کے لئے ایثار و قربانی کا جذبہ ، کیا آج کسی امیر ترین اور صاحب جائیداد مقتدی سے یہ امید کی جا سکتی ہے وہ اپنے امام و خطیب یا مؤذن کو کٹھہ دو کٹھہ زمیں یا مکان وقف کردے یا ان کے لئے کوئی مکان تعمیر کرادے ، آج تو مسجدیں عالیشان اور پرشکوہ تعمیر ہو رہی ہیں لیکن اسی مسجد میں امام و مؤذن کے حجرے کی حالت اور ان کی تنخواہ مقتدیوں اور خصوصاً کمیٹیوں کی اپنے امام و مؤذن کے تئیں عقیدت و احترام کو ظاہر کرتی ہے ، ایک کہاوت مشہور ہے کہ ایک سخت دل کو رولانے اور اس کی آنکھوں سے آنسو گرانے کی شرط لگی ، ایک سے بڑھ ایک رلانے والے ائے اور انہوں نے اس سخت اور کٹھور دل آدمی کے کان میں غم و الم کے رلادینے واقعات سنائے مگر وہ شخص نہیں رویا ،اخیر میں ایک شخص نے دھیرے سے اس کے کان میں کچھ کہا تو وہ شخت دل شخص زاروقطار پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ، لوگوں نے کان میں کچھ کہنے والے شخص سے پوچھا کہ اتنے غم و الم کی باتیں اور واقعات سننے کے باوجود نہ رونے والے سخت دل شخص کے کان میں آخر تو نے کیا کہدیا کہ وہ ڑاروقطار رونے لگا ،اس شخص نے کہا کہ میں نے اس کے کان میں اپنے محلہ کے امام و خطیب اور مؤذن کی تنخواہ بتادی جسے سن کر وہ شخص زاروقطار رونے لگا اور اس شخص کو رلانے کی شرط پوری ہوگئی ، یہ ایک لطیفہ ہو سکتا ہے لیکن آج ہمارے ائمہ و موذنین اور مدارس و مکاتب کے مدرسین کا یہی حال ہے ، صوفی جمالی صاحب ساری زندگی جناب مبارک کی وقف کی ہوئی زمین اور مکان میں رہے ان کے انتقال کے بعد ان کی اولاد اسی مکان میں ہیں ، صوفی جمالی صاحب نے اپنے دور میں جو دینی اور فلاحی کام کئے ان کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ، ایسے لوگ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ایک ادارہ کی حیثیت رکھتے تھے ، صوفی جمالی صاحب کے دور میں بھی معاصر علماء تھے لیکن انہوں نے کبھی ایک دوسرے کے خلاف کوئی سازش نہیں کی اور نہ ہی کسی کی کمی اور کوتاہی کو عوام کے سامنے رائی کا پہاڑ بناکر پیش کیا اور نہ ہی جھوٹے فتویٰ بازی کے سہارے کسی کو زیر کرنے کی کوشش کی ، صوفی جمالی صاحب نے اپنی پوری زندگی اخلاص و للہیت کے ساتھ امامت و خطابت دین کی خدمت میں گزار دی ، غالباً 1978میں ان کا انتقال ہوا ان کے آخری دیدار کے لئے پورا شہر امنڈ پڑا ، رانچی میں پہلی بار ان کے جنازے کو کاندھا دینے کے لئے ڈولا کے چاروں پائے میں بانس کی بلی باندھنی پڑی ،ان سے پہلے کسی کے جنازے میں اتنی بھیڑ نہیں دیکھی گئی ،راتو میں آپ کی تدفین عمل میں ائی ، راتو روڈ قبرستان میں پہاڑی مندر کی طرف سے داخل ہونے والی پرانی نماز گاہ کے پاس آپ کی قبر ہے ،
اللہ تعالیٰ صوفی جمالی صاحب کی مغفرت فرمائے اور آپ کے درجے بلند فرمائے آمین ثم آمین
