حاجی محمد اسلم صاحب مرحوم کی نمایاں شخصیت اور ان کی خدمات ( ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی )


رانچی شہر میں چند مرد مجاھد ایسے گزرے ہیں جن کی قد و قامت ، شکل و صورت ، رعب دار اور دمدار آواز ، مردانہ چال ڈھال اور بیباک و بے خوف انداز سے ہی ان کی شخصیت کا رعب جھلکتا تھا ، آزاد بستی پتھل کدوا اور گدری چوک رانچی کے رہنے والے ایسی ہی ایک نمایاں شخصیت کا نام حاجی محمد اسلم صاحب مرحوم تھا ، حاجی محمد اسلم صاحب اپنی جوانی کے دنوں سے ہی سماجی اور فلاحی کاموں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے ، خاندانی طور پر دینی مزاج رکھتے تھے ، ان کا پورا گھرانہ دعوت و تبلیغ سے جڑا ہوا تھا اس لئے علماء و برزرگان دین کی بڑی خدمت اور عزت کیا کرتے تھے ، مہمان نوازی میں تو ان کا کوئی جواب نہیں تھا ، اپنے ساتھیوں کا بڑا خیال رکھتے تھے ، مسلمانوں پر ہو رہے ظلم و ستم اور نا انصافی کے خلاف فورآ کھڑے ہوجاتے تھے خواہ وہ ظلم و ستم اور نا انصافی اپنوں کی طرف سے ہو یا غیروں کی طرف سے ہو، یہی ان کی شناخت اور پہچان تھی ، حق بات کے اظہار پر نہ کسی سے ڈرتے تھے اور نہ ہی کسی سے مرعوب ہوتے تھے اور نہ ہی کسی کی لعنت و ملامت کی پرواہ کرتے تھے ، کسی بھی معاملے میں مسلمانوں پر ہو رہے ظلم و ناانصافی کے خلاف اور مسلمانوں کی حمایت میں پولیس انتظامیہ کے اعلیٰ افسروں سے تو اس طرح گفتگو کرتے تھے جیسے کوئی مالک اپنے ملازم سے بات کرتا ہے ، علاقے میں غیر سماجی عناصر اور ان کی حرکتوں سے ان کو سخت نفرت تھی ، وہ مسلم معاشرے کو غنڈہ گردی سے پاک و صاف اور پُر امن دیکھنا چاہتے تھے ، حاجی اسلم صاحب مرحوم اور ان کے پورے گھرانے سے میری رفاقت اور دوستی تقریبا تیس سال پرانی ہے ، میں ان کی اور وہ میری بہت عزت و اکرام کرتے تھے ،جب میں 1990 میں آزاد بستی پتھل کدوا مسجد رانچی کا خطیب تھا تو اس وقت سے حاجی محمد اسلم صاحب مرحوم سے میری قربت بڑھی اور اتنی بڑھی کہ وہ بہت سارے مسائل اور بہت ساری باتوں میں میری رائے اور میرے مشورہ کو آخری سمجھتے تھے ، آزاد بستی پتھل کدوا کے مسلم اکثریتی علاقے میں کچھ غیر سماجی عناصر نے آتنک مچا رکھا تھا ، لوگوں میں اپنا ڈر اور خوف بٹھا کر ہفتہ وصولی کرتے تھے ، ان کی رضامندی اور ان کی مرضی کے بغیر نہ تو کوئی زمیں و جائیداد خرید سکتا تھا اور نہ ہی بیچ سکتا تھا ، ظلم و ستم کی انتہا ہوچکی تھی ، ان کے خلاف بولنے اور آواز اٹھانے کی ہمت کسی میں نہیں تھی، عوام تماشائی بنے ہوئے تھی ، جب تک کوئی بیباک اور بے خوف اور نڈر قائد کھڑا نہیں ہوتا اور آگے نہیں بڑھتا تنہا عوام خود سے کبھی کچھ نہیں کرتی ، ایسے میں مرد مجاھد حاجی محمد اسلم صاحب مرحوم جو رانچی شہر میں پھلوں کے ایک بہت بڑے کاروباری اور تاجر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں اور مجھ سے مشورہ کرتے ہیں کہ مولانا صاحب اب اس ظلم و ستم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا اور آواز بلند کرنی ہوگی ، عوام کو جگانا اور بیدار کرنا ہوگا اور یہ کام آپ کے تعاون کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ محلے کے خطیب و امام ہیں اور عوام آپ کی باتوں کو سنتی بھی ہے ، بس کیا تھا ؟ میں اور حاجی محمد اسلم صاحب مرحوم غیر سماجی عناصر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ، ہر جمعہ کے بیان میں غیر سماجی عناصر اور ان کے ظلم و بربریت کے خلاف آواز بلند کرنے اور آٹھ کھڑے ہونے کی قرآن و حدیث کی روشنی میں گفتگو ہونے لگی اور ترغیب دی جانے لگی تو علاقے کا ایک مظبوط اور نڈر شخص حاجی فضل الرحمان صاحب مرحوم بھی ساتھ ہوگئے ، اس طرح ہم دو سے تین ہوگئے اور تین سے دس اور دس بیس اور بیس سے سو ،
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
” لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا ,
والی بات حقیقت میں تبدیل ہوتی نظر آنے لگی اور
چھہ مہینے کے اندر حاجی محمد اسلم صاحب مرحوم کے ایمانی جوش اور ہمت نے لوگوں کے اندر غیر سماجی عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا جذبہ اور حوصلہ پیدا کردیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ حاجی محمد اسلم صاحب مرحوم اور حاجی فضل الرحمان مرحوم اور میری محنت و کوشش ، عوام کی حمایت ، پولیس انتظامیہ کے تعاون اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پورے علاقے سے غیر سماجی عناصر کا مکمل خاتمہ ہوگیا ، جس کے بعد پورے علاقے کے لوگوں نے اطمینان اور سکون کا سانس لیا اور بے حد خوشی محسوس کرنے لگے ، جس کا سب سے بڑا سہرا حاجی محمد اسلم صاحب کو جاتا ہے جنھوں نے اپنے بال بچوں اور کاروبار کے نقصان کی پرواہ کئے بغیر اتنے بڑے مہم کی قیادت کی اور ایسے خطرناک لوگوں سے پنگا لیا اور انھیں آخری انجام تک پہنچا کر ہی دم لیا ، پتھل کدوا مسجد رانچی کی خطابت کے دوران ہی شہر کی ایک بہت ہی مشہور و معروف مسجد ” اقراء مسجد” کی نام نہاد کمیٹی کے چند افراد کے ذریعے طاقت کے بل پر چلائے جارہے غلط نظام کو درست کرنے کا مسئلہ سامنے آ گیا تو اس وقت بھی حاجی محمد اسلم صاحب کی قیادت میں ایک مہم کا آغاز ہوا ، مسئلہ یہ تھا کہ مین روڈ پر لب سڑک مسلمانوں کی کوئی مسجد نہیں تھی ، مولانا شعیب رحمانی علیہ الرحمہ اور ان کے خاص دوست اور مشیر کار جناب حسین قاسم کچھی کی فکر کے نتیجے میں ایک زمین جہاں سردار چرن سنگھ کا ہوٹل ہوا کرتا تھا مسجد کے لئے بڑی محنت و مشقت کے بعد حاصل کرلی گئی ،اس مسجد کا نام مولانا شعیب رحمانی صاحب علیہ الرحمہ نے ” مسجد اقراء ” رکھا ، نماز پڑھنے کی حد تک مسجد کی تعمیر ہوئی اور کئی اختلافی مرحلوں سے گزرنے کے بعد نماز بھی شروع ہوگئی ، پہلی نماز جمعہ دہلی جامع مسجد کے شاہی امام عبد اللہ بخاری صاحب نے پڑھائی ، ایک دو سال کے اندر ایک بدعتی خود غرض اور مفاد پرست مولوی نے داؤ پیچ کرکے اقراء مسجد کی امامت و خطابت میں بحال ہوکر وہاں سے فرقہ پرستی اور مسلکی زھر گھولنا شروع کردیا جس سے کمیٹی کے ممبران ہی میں آپسی اختلاف ہوگیا اور مقتدیوں کی دو جماعت ہوگئی جس کا خاتمہ بہت ضروری تھا ، اس وقت بھی حاجی محمد اسلم ، میں ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی اور جناب حسین قاسم کچھی صاحب نے لوگوں کو متحد کرنا شروع کیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ مسلکی منافرت کے مرتکب امام کو معزول کر کے اقراء مسجد کا نظام اسی طرح قائم ہوگیا جیسا کہ اس کے فاؤنڈر ممبروں نے چاہا اور طئے کیا تھا ، 1996 میں جب اقراء مسجد کا میں خطیب ہوگیا تو ٹھیک اس کے دوسرے سال اقراء مسجد کی تحریک اور اس کی خطابت سے منسلک ہونے کی پاداش میں مجھ پر جان لیوا حملہ ہوا ، آس وقت بھی حاجی محمد اسلم صاحب سامنے آئے ، چونکہ غیر سماجی عناصر نے اپنے طور پر رات کے اندھیرے میں ایک جلسہ کے دوران مجھ پر جان لیوا حملہ کر کے مجھے مردہ سمجھ کر ایک نالا میں پھینک دیا تھا ، حاجی محمد اسلم صاحب پاگلوں کی طرح میری تلاش میں رات بھر گھومتے رہے ، آخرکار میں زخمی حالت میں پہلے انجمن اسلامیہ اسپتال پھر وہاں سے اپولو ہاسپیٹل اربا منتقل کیا گیا ، مجھ پر حملہ کرنے والوں کی گرفتاری کے مطالبے پر حاجی محمد اسلم صاحب مرحوم نے ایک دن کے لئے رانچی بند کروا دیا تھا ، یہ رعب اور جلوہ تھا حاجی محمد اسلم صاحب مرحوم کا, مسلمانوں کے درمیان آپسی اتحاد اور بھائی چارگی قائم کرنے کی خاطر گرفتار لوگوں کے خلاف مقدمہ میں نے واپس لے لیا تبھی ان گرفتار لوگوں کی رہائی ہوپائی ، رانچی میں کہیں بھی اور جب بھی فرقہ پرستوں کے ذریعے ماحول خراب کرنے کی اطلاع ملتی تو حاجی اسلم اپنے ساتھیوں کے ساتھ فورآ میدان میں اتر جاتے اور پولیس انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کے ساتھ رابطہ کرکے ماحول کو خراب ہونے سے حتی الامکان بچانے کی کوشش کرتے جس سے فرقہ پرستوں کے حوصلے پست ہوجاتے ، اخلاق و کردار کے اعتبار سے تو آپ شریفوں کے لئے بہت شریف اور بے حد نرم تھے لیکن غیر سماجی عناصر اور بدمعاشوں کے لئے آپ بہت سخت تھے ، زدگی کے آخری سالوں میں شوگر کی وجہ سے آپ بہت کمزور بیمار رہنے لگے تھے اور اسی بیماری میں 27/ جون 2015 کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ، آپ کے انتقال کی خبر جنگل کے آگ کی طرح پورے علاقے میں پھیل گئی ، جس نے بھی سنا حیرت میں پڑگیا ، آپ کا آخری دیدار کے لئے لوگوں کا تانتا لگ گیا ، آپ کے بھائیوں اور لڑکوں کی خواہش کے مطابق میں نے ہی نماز جنازہ پڑھائی ، آپ کے نماز جنازہ میں لوگوں کی بے انتہا بھیڑ تھی ڈولا کے چاروں پائے میں بانس کی لمبی بلی باندھی گئی تھی تاکہ جنازہ کو کندھا دینے کی سب کی خواہش پوری یو سکے ، راتو روڈ قبرستان میں آپ کو سپردِ خاک کیا گیا ، آپ کی وفات کے بعد پورا شہر غم میں ڈوب گیا کہ اب ایسا گوھر نایاب پھر کہاں سے آئے گا ؟ کون حاجی اسلم کی جگہ لے گا ؟ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں کی اولاد میں محمد صلاح الدین عرف سنجو سابق کونسلر کو وہی قومی و ملی جذبہ آور حوصلہ دے کر کھڑا کردیا ، حاجی محمد اسلم صاحب کے گزر جانے کے بعد رانچی شہر میں کئی ایسے مواقع اور حالات آئے جہاں محمد صلاح الدین عرف سنجو مسلمانوں کی حمایت میں بہادری اور دلیری کے ساتھ اس طرح کھڑے ہو گئے کہ لوگوں کو ان کے والد حاجی اسلم صاحب کی کمی کسی حد تک پوری ہوتی ہوئی نظر آنے لگی ، گاؤ کشی قانون کے نام پر مسلمانوں کو پریشان کئے جانے اور ان کے کاروبار کو نقصان پہنچانے کا معاملہ ہو یا 10/ جون 2022 کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھاجپا لیڈی نوپور شرما کی زبانی گستانی کئے جانے کے خلاف نکالے گئے جلوس میں پولیس کی گولی سے دو نوجوانوں کے شہید کئے جانے کا معاملہ ہو ہر جگہ حاجی اسلم صاحب کے لڑکے صلاح الدین عرف سنجو مضبوطی کے ساتھ اپنے والد حاجی اسلم کی طرح کھڑے نظر آئے جس سے لوگوں کو حاجی محمد اسلم صاحب کی کمی دھیرے دھیرے دور ہوتی نظر آرہی ہے ، ہمیں چاہئے کہ ایسے بہادر ، دلیر اور قومی و ملی جذبہ اور حوصلہ رکھنے والے نوجوان کے کاندھے کو مضبوط کریں ، اس کی حمایت میں اس کے ساتھ کھڑے رہیں تاکہ وہ ہماری لڑائی مضبوطی کے ساتھ لڑ سکیں ، اللہ تعالیٰ حاجی محمد اسلم صاحب مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کے گھر والوں کو ہر قسم کے شرور و فتن سے حفاظت فرمائے آمین ،
