Saturday, July 27, 2024
Dhanbad News

امارت شرعیہ کے مولانا سہیل ندوی بھی چل بسے: از-آفتاب ندوی دھنباد

 

 بات  ندوہ کی اور نوے کی دہائی کی  ھے ، زمانہ  مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی اور ندوہ کے نامور مہتمم مولانا محب اللہ صاحب لاری , ڈاکٹر عبد اللہ عباس صاحب ندوی ،مولانا  معین اللہ صاحب  ندوی ، مولانا سید رابع صاحب  حسنی کا ھے    ، اساتذہ میں مولانا سید عبد الغفارصاحب  نگرامی ، مولانا ابو العرفان خاں ندوی  ، مولانا محبوب الرحمن صاحب  ازہری ، مولانا حبیب الرحمن صاحب سلطانپوری ،مولانا سید واضح رشید صاحب ندوی،شیخ التفسیر مولانا   مولانا برھان الدین   سنبھلی ،شیخ الحدیث مولاناضیاء الحسن  ندوی ، صدرشعبۂ افتاء مفتی ظہور صاحب ندوی  ، مولانا ناصر علی   ندوی ، مولانا سید نور الحسن صاحب  ، مولانا عبد النور  صاحب ازھری  ، مولانا نذر الحفیظ صاحب  ازہری ، مولانا شفیق الرحمان  ندوی ، مولانا شھباز صاحب اصلاحی ، مولانا عارف صاحب  سنبھلی  ،مولانا برجیس قاسمی ندوی ،، اللہ ان سب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء کرے ، ،،مولانا سعید الاعظمی صاحب ندوی ، مولانا شمس الحق صاحب  ندوی ، اور مولانا زکریا صاحب  سنبھلی – اللہ صحت وعافیت کے ساتھ انکے سایۂ عاطفت کو ہمارے سروں پر قائم رکھے –   جیسے باکمال اساتذہ مسند درس وافادہ کو وقار  بخش  رہے تھے ،،چمن میں تخت  پر جس دم شہ گل کا تجمل تھا ،،ھزاروں بلبلیں تھیں باغ میں  ،اک شور تھا ، غل تھا –
مجلس شوری میں ملک کی نامور ہستیاں تھیں ، مولانا حبیب الرحمن اعظمی ، مولانا سعید احمد اکبر آبادی ، قاضی اطہر مبارکپوری ، مولانا صبغۃ اللہ بخاری ،سید صباح الدین عبد الرحمن ،‌حکیم زمان حسینی ، شاہ عون احمد قادری ، مولانا عبد الرؤف جھنڈا نگری ، قاری صدیق احمد باندوی ، مولانا ابو اللیث اصلاحی ، مولانا منت اللہ رحمانی ، قاضی سجاد صاحب جیسے اہل وعلم وفضل کو شوری کے موقع پر دیکھنے ا ور بعض کو  سننے کا موقع ملتا ،،
 مدرسہ عالیہ فرقانیہ لکھنؤ سے تجوید و قرات کا کورس مکمل کرنے کے  بعد ندوہ کے درجۂ سوم عربی میں میرا داخلہ ہوا ، یہ 1981کی بات ھے ، اطہر ہاسٹل تیار ہوچکا تھا ، معھد کی عمارت بھی بنی ہوئی تھی   ، سلیمانیہ ، شبلی اور  رحمانیہ  دور اول  کے ہاسٹل ہیں ، درس گاہ کی عمارت بھی  جو فن تعمیر کا شاہکار ندوہ کے ابتدائی دنوں کی یادگار ھے ، طلبہ کی تعداد اسوقت دوہزار سے زیادہ نہیں ھوگی ، حفظ کے طلبہ مسجد میں پڑھتے تھے ،‌شعبۂ حفظ کے سربراہ حافظ حشمت اللہ صاحب تھے ، حفظ کے طلبہ میں انکا بڑا رعب تھا ، حفظ کے تمام  طلبہ فجر سے پہلے بھی  مسجد میں قرآن یاد کرتے تھے ، پرسکون ماحول میں تلاوت قرآن سے پورا کیمپس  پاکیزگی ،تقدس اور نورانیت کے ملکوتی شامیانہ میں ڈھکا ہوا محسوس ہوتا ، اس وقت ملیشیا ،تھائلینڈ ، انڈونیشیا ، بنگلہ دیش اور افریقی ممالک  کے طلبہ کی معتدبہ تعداد رہتی تھی طلبہ کی تعداد کے کم ہونے کی وجہ سے اوپر کے درجوں میں سیکشن نہیں ھوتے تھے ، پرائمری کا شعبہ معہد کے نام سے جانا جاتا تھا ، جمعرات کو عربی کے پروگرام درجوں میں اور اردو کے پروگرام  جمعیہ الاصلاح کے جمالیہ ھال اور سلیمانیہ میں اساتذۂ دار العلوم  کی نگرانی میں جوش وخروش سے منعقد ہوتے تھے ، عربی  اور  اردو میں مضمون نگاری ا ور  خطابت کے انعامی مقابلے بھی بڑی اہمیت سے ھو ا کرتے تھے ، بزم جوھر کے تحت انگریزی کے پروگرام بھی ھونے لگے تھے ، اکثر مدارس کی طرح ندوہ میں بھی ناشتہ کا نظم طلبہ کو  خود کرنا پڑتا تھا ، بڑی تعداد ناشتہ خود بناتی تھی ، باقی طلبہ کینٹین میں ناشتہ کرتے تھے ، ایک روپیہ میں طلبہ (پانچ پوڑی اور ایک کپ چائے) ناشتہ کرلیتے تھے ، نگرانی کا نظام مستحکم تھا ، مولانا ضیاء الحسن صاحب ندوی ، مفتی ظہور صاحب ندوی ، مولانا حبیب الرحمن صاحب سلطانپوری اور  مولانا عارف صاحب سنبھلی جیسے سینیر اساتذہ نگرانی کے فرائض انجام دیتے تھے ، ندوہ سے باھر جانے کیلیے اجازت لینا ضروری تھا ،‌ھر طالبعلم کا کھانا ناشتہ دان میں کمرہ پہنچانے کا نظام اسوقت بھی تھا ، ملازمین کمروں سے   ناشتہ دان لے کر  اسے دھوکر کھانا بھرکر کمروں میں پہنچاتے تھے ، یہ نظام آج بھی قائم  ھے ،    عام کھانے کی فی صرف ساٹھ روپے اور اسپیشل کھانے کی فیس ایک سو بیس روپے تھی ، اسپیشل کھانے میں روز خصی کا قورمہ، لمبے دانے کا چاول اور چپاتی آتی تھی ،  یہی فیس فراغت  کے بہت بعد تک رہی ، لازم تھا کہ ھر طالبعلم تخت کا اپنے لئے انتظام کرے ، فرش پر کسی کو سونے کی اجازت نہیں تھی ، اسوقت پنکھوں اوربیڈ کا نظم دارا العلوم کی طرف سے نہیں ہوتا تھا ،‌بہت سے طلبہ گرمی کے موسم کے لئے شہر سے کرایہ پر پنکھا لاتے تھے ،‌کیمپس کے اندر کرایہ پر سائیکل ملتی تھی ، اس زمانہ میں کسی استاد کے پاس ٹو ویلر بھی نہیں تھی ، ،
ثانویہ رابعہ پاس کرکے 1982 میں میں ثانویہ خامسہ عربی چہارم میں پہنچا ،   سھیل اسی کلاس میں داخل ہوئے ، وہ دیوبند سے آئے تھے ،‌امارت شرعیہ کے ناظم اعلی مولانا سید نظام الدین صاحب رح کا صاحب الفقہ المیسر مولانا شفیق الرحمن ندوی رح کے نام سفارشی خط لے کر وہ آئے تھے ، سھیل کا اثر ورسوخ رکھنے والے چمپارن کے ایک خوشحال  خاندان سے تعلق تھا،‌  ،‌لیکن کبھی انکے رویہ  یا زبان سے اسکا اظہا ر نہیں ھوا ، اخیر تک وہ  ایک  محنتی و شریف طالب علم  رھے ،  بڑھائی کے شوقین اور آگے بڑھنے کے جذبہ سے سرشار طلبہ جس طرح کلاس میں آگے بیٹھنے کیلیے کلاس جلدی پہنچتے ہیں ،کلاس کے کھلتے ہی سب سے پہلے  داخل ہونے کیلیے دوسروں کو    ڈھکیل کر اگلی نشست  پر قبضہ کرتے ہیں اسی طرح سہیل بھی کرتے تھے  ،  دوسری سرگرمیوں میں بھی سہیل  بڑھ چڑھکر حصہ لیتے تھے ، یہانتک کہ  فضیلت کے سال فراغت میں طلبہ نے انہیں جمعیہ الطلبہ کا ناظم منتخب کیا ، اور راقم کو نائب صدر ، جبکہ جمعیۃ الاصلاح کا صدر کوئی استاد ہی ھوتا ھے  ،‌درجہ میں پانچ سال 1982سے 1986 تک میرا انکا  ساتھ رھا ، 86میں ہم لوگوں کو عالمیت کی سند ملی ، اس سال  عالمیت کے سال فراغت عالیہ رابعہ میں  ہماری تعداد صرف 68ءیا 67تھی ،‌ اور دس سے بھی  کم لوگ فرسٹ ڈویژن سے پاس ھوئے تھے ، سہیل  ان میں سے ایک تھے ، انصار لکھیم پوری ، ابو رضاء چاٹگامی ، عرفان گوپاموی ، عبد القدوس پالنپوری ، قرآن بھاگلپوری ،کمال رائے بریلوی ، نذیر اکبرآبادی ، عبد الحکیم فاضلی ،امین بستوی ، ولی اختر مرحوم  ، اور مرحوم سہیل وغیرہ کا     درجہ کے ممتاز طلبہ میں شمار ہوتا تھا،،
آج فارغ ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہوتی ھے ، اسی طرح فرسٹ ڈویژن  والوں کا تناسب بھی بہت بڑھ گیا ھے ،اسکے بعد سھیل نے 1987میں فضیلت  میں داخلہ  لیا ،‌اور 1988میں فضیلت کی انہیں سند ملی ، ایک سال وقفہ کے بعد 88میں جب میں  فضیلت اول میں داخل ھوا تو سھیل میرے سینیر بن چکے تھے ، لیکن جمعیہ الاصلاح میں ہم لو گ ساتھ ھوگئے ، وہ ناظم اور میں نائب صدر ، ناظم جمعیۃ الاصلاح کی اس زمانہ میں اہمیت ہوتی تھی ، سینیر طلبہ کا جونیر طلبہ  لحاظ کرتے تھے ، جمعیۃ الاصلاح کے بیشتر  اہم پروگرام حضرت مولانا علی میاں ندوی رح کی صدارت میں منعقد ہوتے تھے ، ناظم الاصلاح اور  بزم خطابت اور بزم سلیمانی  برائے مضمون  نگاری  کے ذمہ داران پروگراموں میں حضرت مولانا کے پہلو میں بیٹھتے تھے ، ایک مرتبہ 89 میں جب میں الاصلاح کا ناظم تھا اور  حضرت مولانا رح کی صدارت میں کوئی پروگرام ھورھا تھا ، میں ہی پروگرام  چلا رہا تھا ، اور حضرت رح کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا ع ہوا ھے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا ،،، وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ھے ،، تلاوت یا نظم کیلئے  ،،،تشریف لائیں ،، کہکر میں نے  طالب علم کو دعوت دی تو حضرت رح نے جب میں ڈائس چھوڑ کر  کرسی پر انکے پہلو میں بیٹھ گیا تو فرمایا کہ چھوٹے کیلیے ،، تشریف لائیں ،، نہ کہا کریں ، 
ندوہ میں سہیل کا مولانا شفیق الرحمن صاحب رح سے خصوصی ربط رھا ،سھیل ندوہ سے فراغت کے بعد ہی امارت شرعیہ سے وابستہ ھوگئے ،اپنے حسن کارکردگی ،  حسن اخلاق اور امارت شرعیہ کی فکر و اہداف سے مکمل ھم آہنگی کی وجہ سے تھوڑے ہی عرصہ میں انہوں نے   ذمہ داروں کا  اعتماد حاصل کر لیا ، مردم شناس اور جوھر کے پارکھوں نے  بڑی بڑی ذمہ داریاں انکے کاندھوں پر ڈالیں ، سہیل نے تمام کاموں کو احسن طریقہ پر انجام دے کر بزرگوں کی دعائیں لیں ، امارت کے پانچ امیروں کا انہیں زمانہ ملا ،نائب ناظم کے علاوہ  امارت  کے تین انتہائی اہم شعبوں  : دار العلوم امارت شرعیہ ،مولانا سجاد  ہاسپٹل  اور ٹیکنیکل ایجو کیشن کے وہ ذمہ دار تھے ، تمام لوگ جانتے تھے کہ مولانا سہیل کسی بھی مشکل مہم کو سر کرنے کی  ہمت رکھتے ہیں ،‌سھیل حافظ قرآن بھی  تھے ، تراویح میں سا لہا سال قرآن سنایا ، صلاحیت  پختہ تھی ، بولتے بھی اچھا تھے ، لکھنے کی بھی صلاحیت  تھی ، باغ وبہار شخصیت کے مالک تھے ، انکی صحبت میں کوئی اکتا تا نہیں تھا ، چٹکلوں اور لطیفوں کا بڑا ذخیرہ تھا انکے پاس ، امارت  کے   ،،کرم فرماؤں ،،  کیلئے انکے پاس ھر طرح کے ہتھیار تھے ، وہ ضابطہ کے مطابق ریٹائر ہوچکے تھے ، لیکن وہ حسب معمول ذمہ داریوں کو انجام دے رہے تھے یہانتک کہ یونیفارم سول کوڈ کے خلاف بیداری مہم کے ایک سفر کے دوران  میں اڈیشہ کٹک سے قریب کسی جگہ  25/جولائی 2023 مطابق 6/محرم 1445ھجری بروز منگل  ظہر کی سنت ادا کرتے ہوئے حالت سجدہ میں روح پرواز کرگئ ، انا للہ وانا الیہ رجعون ،
یہاں سجدہ وہاں سجدہ کئے جاتا تھا دیوانہ ،  ہوا لب ریز سجدہ میں تری ہستی کا پیمانہ ،،، سہیل آسمان غیرت ملت وہ دیوانہ ،،،لئے جام شریعت دربدر پھرتا تھا دیوانہ ، یہاں سجدہ وہاں سجدہ کئے جاتا تھا دیوانہ ،،
( کلاس فیلو عرفان گوپاموی )
اپنے سے عمر میں بڑے لو گوں کو دیکھ کر محسوس نہیں  ہوتا تھا کہ  ملک الموت ہم سے  بھی قریب ھے، سہیل! تم نے خواب غفلت سے جگا دیا ، اس سے پہلے بھی درجہ کے کئ ساتھی اس سفر  پر جاچکے ہیں جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا ھے ، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ولی اختر ندوی کورونا کا شکار ھوگئے  ، لکھنؤ کے ارشد ، سھیل ،اور  عمران دنیائے فانی سے چلے گئے ،،کمر باندھے ھوئے چلنے کو سب یار بیٹھے ہیں ،،بہت آگے گئےباقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں ،، 
اللہ مولانا سہیل کو کر وٹ کروٹ جنت نصیب کرے ، انکے نیک کاموں کو قبول کرے ، خطا ؤں سے درگزر کرتے ہوئے جنت میں اعلی مقام دے ، اہلیہ ،اولاد اور دو سرے متعلقین کو صبر جمیل سے نوازے ،
آفتاب عالم ندوی دھنباد -جھارکھنڈ ،واٹس اپ نمبر8002300339

Leave a Response