عبدالسلام صاحب راعین کی شخصیت اور ان کی ہمہ جہت خدمات ( ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی)


معاشرے میں ہمیشہ چند لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بہت اعلی تعلیم یافتہ یا کسی بڑے ادارے یا تنظیم کے سربراہ یا عہدے دار تو نہیں ہوتے لیکن اپنی سماجی خدمات اور اپنے عمدہ اخلاق و کردار کی بنیاد پر لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ، ان کی وفات کے بعد بھی ان کے زندہ رہنے کا احساس ہوتا رہتا ہے ، ایسے ہی ایک زندہ دل ، حوصلہ مند اور ہردلعزیز شخصیت کا نام عبدالسلام راعین ہے جو بنیادی طور پر بنسی چوک ہند پیڑھی کے رہنے والے تھے ، عبدالسلام صاحب میرے بہت ہی خاص دوستوں میں سے تھے ، میرا ان سے ایک دلی رشتہ اور گہرا تعلق تھا ، عبدالسلام صاحب پھلوں کے تھوک تاجر تھے جن کی دوکان ہرمو پھل منڈی میں تھی اب وہ دوکان ان کی رہی یا نہیں رہی کہا نہیں جا سکتا ہے ، خوش مزاجی اور خوش کلامی ان کی طبیعت میں شامل تھی ، عبدالسلام صاحب اپنے بڑے بھائی عبد القیوم صاحب کی بہت عزت و احترام کیا کرتے تھے ، اگر میں نے کسی کو اپنے بڑے بھائی کو باپ سے بھی بڑھ عزت و اکرام کرتے ہوئے دیکھا ہے تو وہ عبدالسلام صاحب تھے جو اپنے اور اپنے بڑے بھائی کے گھر اور کاروبار کی تمام ذمےداریوں کو اپنے کاندھے پر اٹھائے رہتے تھے ، کوئی کام اپنے بڑے بھائی جناب عبد القیوم صاحب کی اجازت اور ان کی مرضی کے خلاف نہیں کرتے تھے ، اکثر و بیشتر ان کی زبان پر ہر کام اور ہر معاملے میں ” قیوم بھیا ، قیوم بھیا ” کی رٹ ہوتی تھی ، جس طرح اپنے بال بچوں کا خیال رکھتے اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر اپنے بڑے بھائی کے بال بچوں کا خیال رکھتے تھے ، جناب عبدالسلام صاحب کی اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ہر معاملے میں ادب و احترام دیکھ کر ہم دوستوں کو رشک ہوتا تھا کہ بھائی تو عبد السلام صاحب جیسا ، شہر رانچی اور مضافات میں عبدالسلام صاحب کی اصل پہچان ان کی سماجی خدمات اور ان کی خوش اخلاقی کی بنیاد پر تھی ، کسی کو مصیبت و پریشانی میں دیکھ کر عبدالسلام صاحب بے چین و پریشان ہو جاتے تھے ، اگر کوئی انہیں آدھی رات کو بھی اپنے کسی مسئلے میں یاد کرتا تو وہ آدھی رات کو اس کے لئے ہمیشہ کھڑے نظر آتے تھے ، میں خود ایک مرتبہ پیٹ کے درد اور تکلیف سے بہت پریشان تھا جیسے ہی ان کو معلوم ہوا فورآ میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب کے ساتھ عالم نرسنگ ہوم لے گئے ، وہاں ایڈمٹ کرایا اور آدھی رات تک ہاسپیٹل میں ہی رہے جب تک کہ مجھے آئی ، سی یو ، میں داخل نہیں کرا دیا گیا ، حق گوئی اور حق پرستی ان کے مزاج میں شامل تھی ، کسی کا ساتھ دیتے تو آخری دم تک ساتھ دیتے اور اگر کسی سے کسی بات پر ناراض ہوتے تو اپنی اس ناراضگی کو بعض مفاد پرست اور خود غرض عناصر کی طرح عداوت و دشمنی اور انتقامی جذبے میں نہیں بدلتے تھے بلکہ بعض دوستوں کے سمجھانے سے فورآ اپنی ناراضگی ختم کرکے اس شخص سے ایسا سلوک و برتاؤ کرتے تھے کہ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ سلام صاحب کچھ دن پہلے اس شخص سے ناراض تھے یا دونوں میں کسی بات کو لے کر ان بن یا دوری ہوگئی تھی ، اس کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ وہ منافقت اور چاپلوسی سے کوسوں دور رہتے تھے ، سلام صاحب کسی سے کسی بات پر یا کسی معاملے ناراض ہوتے تھے تو بہت دیر میں غصہ ہوتے تھے اور دوستوں کے سمجھانے بجھانے پر ان کا غصہ فورآ ٹھنڈا ہوجاتا تھا ،حدیث میں غصہ کرنے والوں کی چار قسمیں بتائی گئی ہیں جن میں سب سے بہتر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو کہا ہے جس کو غصہ دیر میں آتا ہو اور جلدی ٹھنڈا ہو جاتا ہو ، سلام صاحب ماشاءاللہ حدیث رسول کے مطابق دیر میں غصہ کرنے اور جلدی ٹھنڈا ہوجانے والے خوش نصیب لوگوں میں سے تھے ، سلام صاحب اپنی سماجی خدمات کے علاوہ حد درجہ مہمان نواز تھے ، اپنے دوست و احباب کی مہمان نوازی اور خاطر داری میں تو ان کا کوئی جواب ہی نہیں تھا ، اپنے دوست و احباب کو چھوٹی چھوٹی اور معمولی تقریب میں بھی کبھی فراموش نہیں کرتے تھے ، عید کے دن نماز پڑھنے کے بعد فون کر کے ایک ایک ساتھی کی خیر خیریت دریافت کرتے ، عید کی مبارکباد دیتے اور گھر آنے کی دعوت دیتے ، کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان کی دعوت کو ٹھکرا دے یا نظر انداز کردے ، کیوں کہ ان کی دعوت میں ایک عجیب قسم کا خلوص ہوتا تھا ، اگر کوئی کسی وجہ سے ان کی دعوت پر گھر نہیں پہنچتا تو پھر دوسرے دن جم کر اس کی خیریت لیتے تھے ، ہر سال بقرعید کے دوسرے دن قربانی کے گوشت کی مختلف قسم کے پکوان بنتے اور دوستوں کو ہر ایک چیز جم کر کھانے کی ترغیب دیتے ، سلام صاحب کی سماجی خدمات کا دائرہ بہت وسیع تھا ، شہر رانچی کی سب سے بڑی سماجی تنظیم انجمن اسلامیہ رانچی کے انتخاب میں ایک مرتبہ بہت سارے لوگوں نے سلام صاحب کو نائب صدر کے عہدے پر چناؤ لڑنے کے لئے کہا تاکہ انجمن اسلامیہ رانچی میں رہ کر بڑے پیمانے پر سماجی خدمات کو انجام دیا جا سکے ، وہ اس کے لئے تیار بھی ہوگئے لیکن جیسے ہی معلوم ہوا کہ نائب صدر کے عہدے کے لئے ان کے بہت ہی قریبی دوست اور ہمنوا جناب نظام الدین زبیری صاحب چناؤ لڑیں گے تو انھوں نے نائب صدر کے عہدے کے لئے چناؤ لرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ جناب نظام الدین زبیری صاحب مجھ سے ذیادہ قابل ، باصلاحیت اور اس عہدے کے لئے مجھ سے ذیادہ مناسب اور موزوں ہیں ،
لوگ سلام بھائی جیسے بے لوث سماجی خدمت کرنے والی شخصیت کو انجمن اسلامیہ رانچی کے کسی بھی عہدے میں دیکھنا چاہتے تھے تاکہ ایک بڑے ادارہ سے منسلک رہ کر سماج کے لئے بڑا کام کیا جاسکے ، لوگوں نے انھیں جوائنٹ سیکریٹری کے لئے چناؤ لڑکے کی گزارش کی ، لوگوں کے اخلاقی دباؤ کی وجہ کر وہ انجمن اسلامیہ رانچی کے جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے کا چناؤ لڑنے کے لئے تیار ہو گئے لیکن چند دنوں کے بعد معلوم ہوا کہ جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے کے لئے ان کے دوسرے قریبی دوست ڈورنڈہ کے جناب نوشاد صاحب چناؤ لڑنا چاہ رہے ہیں تو سلام صاحب نے دوست کا نام سنتے ہی جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے کے لئے بھی چناؤ لڑنے سے انکار کر دیا ، اپنے دوست و احباب اور اپنے چاہنے والوں کی بھاری حمایت کے باوجود سلام صاحب نے نائب صدر اور جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے کے لئے چناؤ لڑنے سے صرفِ اس لئے انکار کردیا کہ ان دونوں عہدے کے لئے سامنے ان کے بہت ہی قریبی دوست کھڑے تھے ، سلام صاحب نے دوست کی دوستی کی خاطر عہدے اور منصب کو قربان کردیا ، آج کل کے بعض مفاد پرست اور خود غرض عناصر کی طرح عہدے اور منصب کی خاطر دوست اور اس کی دوستی کو قربان نہیں کیا ، سلام بھائی جیسے لوگ سماج کے لئے آئیڈیل اور نمونہ ہیں ، اسی طرح جب پورے ملک میں سی ، اے اے ، اور این ، آر ، سی ، یعنی شہریت ترمیمی بل جیسے کالے قانون نافذ کئے جانے کی بات فرقہ پرست حکومت کی جانب سے کہی جانے لگی تو اس کالے قانون کے خلاف پورے بھارت میں احتجاج شروع ہوگیا ، بل کی مخالفت میں دہلی کے شاہین باغ میں زبردست تحریک شروع ہوئی جو کئی مہینوں تک چلتی رہی ، شاہین باغ دہلی کی اس تحریک کی چنگاری پورے ملک میں پھیل گئی ، رانچی میں بھی شہر کے چند درد مند حضرات نے دہلی کی شاہین باغ کے طرز پر اس کالے قانون کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا اور کڈرو حج ہاؤس کے سامنے شاہین باغ تحریک شروع کی گئی جس میں سب سے ذیادہ اور سب بڑا کردار جناب سلام صاحب نے ادا کیا ، بعض لوگوں نے تو اپنی فطرت کے مطابق اس تحریک پر بھی جم کر سیاست کی ، گرچہ وہ اپنی گندی سیاست میں کامیاب نہیں ہوئے ،
پوری تحریک کی عملی قیادت اپنے ساتھیوں کے ہمراہ صحیح معنوں میں جناب سلام صاحب نے کی ، شہر رانچی میں کوئی بھی سیاسی ، سماجی ، فلاحی ، مذہبی یا معاشرتی معاملہ ہوتا خاص کر جس کا تعلق مسلمانوں سے ہوتا تھا تو سلام صاحب جذباتی طور پر ہمیشہ سب سے آگے کھڑے نظر آتے اور اس کے لئے اپنے دوست و احباب کے حلقے کو بھی ساتھ کر لیتے تھے ، وہ زبانی جمع خرچ والے آدمی نہیں تھے ، جو بولتے تھے وہی کرتے تھے اور جو کرتے تھے وہی بولتے تھے ، جناب حاجی نثار صاحب کے دور صدارت میں انجمن اسلامیہ رانچی کی مجلس عاملہ کے رکن رہے تھے اور انجمن اسلامیہ رانچی کے کئی فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ، ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ حق بات کہنے اور حق کا ساتھ دینے میں وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہتے تھے اور کسی بھی طاقت سے مرعوب اور خوف زدہ نہیں ہوتے تھے ، ان کے اسی خلوص اور سادگی کا کئی لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا ، سلام صاحب جیسے حوصلہ مند اور بارعب شخصیت کا استعمال کئی لوگوں نے اپنی خود غرضی اور مفاد پرستی کے لئے بھی کیا جسے بعض اوقات سلام صاحب اپنی سادگی اور بھولا پن کی وجہ کر سمجھ نہیں پاتے تھے ، سلام صاحب کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا ، شہر رانچی کا کوئی محلہ اور کوئی علاقہ ایسا نہیں ہوگا جہاں سلام صاحب کے چاہنے والے نہ ہوں گے ، لیکن دوست و احباب کے وسیع حلقے میں میں ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی ، جناب زاھد صاحب ، جناب اختر صاحب ، جناب تنویر صاحب ، جناب شفیق صاحب ، جناب تنویر عرف تنو صاحب ، جناب جنید لڈن صاحب ، جناب نوشاد صاحب ، جناب مجاھد صاحب ، جناب محسن صاحب وغیرہ کا ایک خاص حلقہ تھا ، جو روزانہ مغرب نماز کے بعد ٹیکسی اسٹینڈ کے پاس جناب زاھد صاحب یا جناب اختر صاحب کی دوکان میں جمع ہوتا تھا یا پھر ٹیکسی اسٹینڈ کے نزدیک سراج چائے والے کی دوکان کے سامنے بیٹھ کر گھنٹوں دنیا بھر کی سیاسی ، سماجی اور مذہبی گفتگو کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہوتا جو عشاء کی اذان پر ختم ہوتا تھا ، اب سلام صاحب کی وفات کے بعد نہ وہ مجلس رہی اور نہ اس مجلس کا لطف رہا اور نہ اس مجلس کی طرح وہ باتیں رہیں ، بلکہ اب تو وہ مجلس ہی نہیں رہی ، انسانی تاریخ میں کرونا وائرس کی بیماری نے کتنوں کو اپنوں سے دور کر دیا تھا ، جس کو کرونا وائرس کی یہ بیماری لگ جاتی تھی اسے زندگی میں ہی اپنوں سے الگ کردیا جاتا تھا ، کرونا وائرس کی وجہ کر ہند پیڑھی رانچی کے پورے علاقے کی ناکہ بندی کردی گئی تھی ، باہر کا کوئی شخص نہ ہند پیڑھی کے اندر داخل ہوسکتا تھا اور نہ ہند پیڑھی کا کوئی شخص ہند پیڑھی سے باہر جا سکتا تھا ، کرونا وائرس کی اسی ناکہ بندی کے دوراں جناب سلام صاحب کا بھی انتقال عین نصف رمضان المبارک میں ہوگیا حالانکہ کہ نہ تو وہ بہت عمر دراز تھے اور نہ ہی بہت دونوں سے کسی بیماری میں مبتلا تھے ، جناب سلام صاحب کی موت کرونا وائرس کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی بلکہ ان کی موت ایک فطری موت تھی جس کی تصدیق ڈاکٹری جانچ اور پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی ہوگئی تھی ، جیسے ہی سلام صاحب کی موت کی خبر سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلی ، پورے علاقے میں ایک ہلچل سے مچ گئی کیوں کہ سلام صاحب جیسے صحت مند اور تندرست آدمی کی اچانک موت کی خبر سے کسی کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ سلام صاحب اچانک اس طرح پورے شہر کو اکیلا چھوڑ کر اس دار فانی سے کوچ کر گے ، حالانکہ موت کا ایک وقت متعین ہے ، معینہ وقت سے نہ ایک سیکنڈ پہلے موت ائے گی اور نہ ایک سیکنڈ بعد موت ائے گی ، ہند پیڑھی کے لوگ سلام صاحب کی موت کی خبر سن کر ناکہ بندی کے باوجود ان کے گھر کے پاس جمع ہونے لگے ، سب کے غمگین چہروں سے رنج و الم کے رلادینے والے آثار ظاہر ہورہے تھے ، کرونا وائرس کے دوران مرنے والوں کا جنازہ پولس انتظامیہ میڈیکل سے سیدھے قبرستان لے جاتی تھی اور گھر والوں کے چند افراد کو ہی جنازہ پڑھنے اور مٹی دینے کی اجازت ہوتی تھی لیکں سلام صاحب کی وفات اور ان کی نماز جنازہ کا معاملہ تو سب سے الگ تھا ، ان کے تمام چاہنے والوں کی خواہش اور کوشش تھی کہ ہر حال میں سلام صاحب کی نماز جنازہ پڑھنا ہے اور ان کی تجہیز و تکفین میں شامل ہونا ہے ، شہر کے کئی بااثر افراد کی کوششوں سے ہند پیڑھی کے چالیس
پچاس افراد کو قبرستان جانے کی اجازت دی گئی ، سلام صاحب کا جنازہ جب میڈیکل سے تو ان کا آخری دیدار کرنے کے لئے تمام پابندیوں کے باوجود لوگ ان کے گھر میں جمع ہونے لگے ، نماز تراویح کے بعد ان کے گھر کے سامنے ہی سڑک پر تین مرتبہ جنازے کی نماز ہوئی ، پہلی نماز جنازہ میں (ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی) نے پڑھائی ، ہزاروں لوگوں نے انتظامیہ کی پابندی کے باوجود نماز جنازہ پڑھی ، اس کے بعد جنازہ ڈورنڈہ قبرستان لے جایا گیا جہاں ہزاروں لوگوں کی بھیڑ پہلے سے موجود تھی ، ہند پیڑھی کے علاوہ دوسرے علاقے کھلے ہوئے تھے ، پولیس انتظامیہ نے صرف پورے ہند پیڑھی کو کرونٹائن کیا ہوا تھا ، ہند پیڑھی سے باہر کا علاقہ کرونٹائن نہیں تھا ، اس لئے ڈورنڈہ قبرستان میں کافی بھیڑ دیکھی گئی تھی جہاں سارے لوگوں نے نماز جنازہ پڑھنے کے بعد نم آنکھوں سے سلام صاحب کو مٹی دیا ، سلام بھائی کے چاہنے اور ان سے محبت کرنے والوں میں کوئی شخص ایسا نہ ہوگا جس نے انتظامیہ کی پرواہ کئے بغیر سلام صاحب کی نماز جنازہ نہ پڑھی ہو یا ان کی تجہیز و تکفین میں شامل نہ ہوا ہو لیکن چند بد نصیب ایسے بھی تھے جنھوں نے اپنی خود غرضی اور مفاد پرستی کے لئے سلام صاحب کی سادگی اور بھولا پن اور ان کی بہادری اور شجاعت کا استعمال بہت چالاکی سے اپنے حق میں کرتے رہے لیکن ان کی وفات پر نہ تو آخری دیدار کے لئے ان کے گھر ائے ، نہ ہی ان کی نماز جنازہ پڑھی اور نہ ہی ہند پیڑھی سے باہر ہونے کے باوجود ان کی تدفین میں شامل ہوئے ، کرونا وائرس کی بیماری کے وقت یہ کیفیت پیدا ہو گئی تھی کہ بہت سارے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اس دوران مرنے والوں کے قریب جائیں گے یا ان کی نماز جنازہ اور تجہیز و تکفین میں شامل ہوں گے تو ہم بھی مرجائیں گے ، شاید اسی وجہ کر کئی لوگ سلام صاحب سے رشتہ ، تعلق اور ہمدردی رکھنے کے باوجود مختلف حیلے و بہانے کی آڑ لے کر نہ تو ان کا آخری دیدار کیا ، نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی اور نہ ہی ڈورنڈہ قبرستان میں جاکر تین مٹھی مٹی ان کی قبر میں ڈالی ، اللہ تعالیٰ جناب سلام صاحب کی مغفرت فرمائے اور ان کے گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بیٹوں کو سلام صاحب کے نعم البدل کے طور پر کھڑا کردے آمین ثم آمین
