چاک داماں پہ آنسو بہا رہا ہے یہ انجمن ترقی اردو جھارکھنڈ کا بورڈ ۔


رانچی ۔ پی آر ۔
اک یاد رہ گئی ہے مگر وہ بھی کم نہیں ،
اک درد رہ گیا ہے سو رکھنا سنبھال کر ۔
آج سے تقریبا پندرہ سال قبل کی بات ہے جب انجمن ترقی اردو ہند ، نئی دلی کے مرکزی دفتر کی جانب سے مرکزی سیکرٹری جناب اطہر فاروقی صاحب کے دستخط سے ہمیں ایک مکتوب موصول ہوا تھا جس کے مطابق موجودہ انجمن ترقی اردو جھارکھنڈ کو تحلیل کرتے ہوئے نئی کمیٹی تشکیل دینے کی غرض سے پروفیسر ڈاکٹر احمد سجاد صاحب کو صدر اور خاکسار نصیر افسر کو سیکریٹری کے عہدہ پر نامزد کیا گیا تھا ۔ اس تبدیلی کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ اس وقت کی کمیٹی کی کاکردگی سے مرکزی سیکرٹری کو اطمینان اور تشفی نہیں رہی ہوگی ۔ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ہم دونوں حضرات نے نہ تو کبھی اسوقت کی کمیٹی کی کوئی شکایت زبانی یا تحریری کی تھی اور نہ ہی کسی عہدہ کے لیے مرکزی دفتر سے رجوع کیا تھا ۔ شاید مرکزی دفتر ہم دونوں حضرات سے جھارکھنڈ میں اردو کے فروغ اور ترویج کے لیے کام لینا چاہتا ہوگا ۔ اس نامزدگی مکتوب کے مطابق ایک تنظیمی نشست اقرا مسجد رانچی کے سامنے ایک ہوٹل میں جھارکھنڈ کے تمام ضلعی صدور و سیکرٹری حضرات کو مدو کیا گیا تھا ۔ اس تنظیمی نشست کے بعد رانچی کے اردو اخباروں میں تنقیدی بیانات انے شروع ہو گئے ۔ تنقید کرنے والے حضرات کو شاید ایسا محسوس ہوا ہو کہ ہم دونوں حضرات کو کوئی بہت بڑا عہدہ یا اثاثہ مل گیا ہو ۔ تنقیدی بیانات سے ہم دونوں حضرات اس قدر نالاں ہوئے کہ پہلی فرصت میں ہم دونوں نے اپنا استفعی نامہ بذریعہ اسپیڈ پوسٹ مرکزی دفتر نئی دلی کو ارسال کر دیا اور چین و سکون کی سانس لیا ۔ اللہ پاک کے ہم دل سے شکر گزار ہوئے کہ بے لذت سرگرمیوں سے ہم بچ گئے ۔ یہ بتا دینا ضروری ہے کہ اس بورڈ سے قبل انجمن ترقی اردو جھارکھنڈ کے صدر دفتر رانچی میں کوئی بورڈ لگا ہوا کبھی نہیں دیکھا گیا تھا ۔
اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا چاک ،
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا ۔
