رانچی کے علماء ثلاثہ کی دینی و معاشرتی خدمات ( مولانا ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی 7004951343 )


رانچی کے علماء ثلاثہ حضرت مولانا قاری علیم الدین قاسمی اور حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری اور حضرت مولانا محمد اختر حسین مظاہری صاحبان کو ان کی ہمہ جہت دینی و معاشرتی خدمات کے لئے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے ،قاری علیم الدین قاسمی صاحب 31/ جنوری 2018 اور میرے والد مولانا صدیق مظاہری صاحب 03/ اکتوبو2019 کو حضرات مولانا محمد اختر حسین مظاہری صاحب کو تنہا چھوڑ کر اس دار فانی سے کوچ کر گئے ، اب حالت یہ ہے کہ دونوں کی غیر موجودگی کے احساس نے مولانا محمد اختر حسین مظاہری صاحب کو وقت سے پہلے بوڑھا، ضعیف اور کمزور کردیا جس کی وجہ کر مولانا بیمار بیمار سے رہنے لگے ہیں اور اب تو پہلے کی طرح مولانا کا چلنا پھرنا بھی بند ہوگیا ہے ،اللہ تعالیٰ مولانا محمد اختر حسین مظاہری صاحب کو صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ عطاء فرمائے اور ہمارے سروں پر ان کا سایہ تادیر قائم رکھے آمین،
رانچی کے ان علماء ثلاثہ میں سب سے سینئر تو حضرت مولانا قاری علیم الدین قاسمی صاحب تھے ان کے بعد میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب ،اس کے بعد حضرت مولانا محمد اختر حسین مظاہری صاحب ،ان تینوں حضرات کی اپنی ایک جوڑی تھی ایک جماعت تھی ،کہیں جاتے تینوں ساتھ جاتے،
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں حضرات کی دینی و سماجی خدمات کا مختصر خاکہ ترتیب وار قارئیں کے سامنے آ جائے ،
(1) حضرت مولانا قاری علیم الدین قاسمی صاحب ! قاری علیم الدین قاسمی صاحب بنیادی طور پر راتو تھانہ کے قصبہ بانا پیڑھی ضلع رانچی کے رہنے والے تھے ، مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ایک بیباک ، نڈر اور حق کی راہ میں بلا خوف و خطر اور کسی کی لعنت ملامت کی پرواہ کئے بغیر کھڑے ہو جانے والے اور باطل کے سامنے مظبوطی کے ساتھ ڈٹ جانے والے عالم دیں تھے ، ہند پیڑھی رانچی میں شادی ہوجانے کے بعد شہر ہی میں مستقل طور پر آباد ہوگئے جہاں انہیں اپنی دینی و معاشرتی خدمات کی بنیاد پر بے پناہ شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی ،اپنے ابتدائی زمانے میں ہند پیڑھی رانچی کی چھوٹی مسجد میں چند سال امامت و خطابت کرنے کے بعد مدینہ مسجد ہند پیڑھی کے فاونڈر امام و خطیب بحال کئے گئے اور اپنی زندگی کے آخری لمحات تک مدینہ مسجد کی امامت و خطابت سے وابستہ رہے،قاری علیم الدین قاسمی صاحب کی اس دینی خدمات کی وراثت کا حق ان کے چھوٹے لڑکے جناب مولانا قاری انصار اللہ قاسمی صاحب بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں ،مدینہ مسجد کی موجودہ وسیع و عریض عمارت کی تعمیر میں قاری علیم الدین قاسمی صاحب کی بڑی قربانی رہی ہے ، قاری صاحب نے اپنی پوری زندگی مدینہ مسجد کی تعمیر وترقی میں لگادی ، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ صبح کی نماز کے بعد قاری صاحب ہند پیڑھی کے ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے اور ہر ایک سے بڑی بے تکلفی کے ساتھ مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ وصول کرتے اور لوگ خوش دلی سے دے بھی دیتے ،چونکہ مسجد کی آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں تھا سوائے عوامی چندہ کے جو قاری صاحب کو ہی کرنا پڑتا تھا ، علماء جانتے ہیں کہ سب سے مشکل ترین اور نفس کو مارنے والا کام مسجد یا مدرسہ کا چندہ کرنا ہے ،اس لئے جب کبھی کہیں مسجد یا مدرسہ کے چندہ کا اعلان ہو تو ہمیں خوش دلی کے ساتھ مساجد اور مدارس میں چندہ دینا چاہئے بشرطیکہ وہ امارت شرعیہ کے علاوہ علاوہ دوسرے معتبر ذرائع سے بھی تصدیق شدہ ہوں، قاری صاحب بتایا کرتے تھے کہ ہم لوگوں نے جب دیوبند سے فراغت کے بعد اپنے علاقے میں دعوت و تبلیغ اور دوسرے اصلاحی کام کرنا شروع کیا تو بڑی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ پورے علاقے میں شرکت و بدعت اور باپ دادا کی رسمیں جڑیں پکڑی ہوئی تھیں،جہالت کا اندھیرا چھایا ہوا تھا ،ایسی حالت اور ایسے ماحول میں ہم لوگوں نے گاؤں گاؤں کا دورہ کیا ،لوگوں کو دینی تعلیم حاصل کرنے اور شرک و بدعت اور بیہودہ رسم و رواج سے دور رہنے کی تلقین کی اور باطل جماعتوں اور تحریکوں کے مقابلے میں سینہ سپر ہو کر کھڑے ہوجاتے تھے ،قاری صاحب پوری زندگی مدینہ مسجد کے منبر و محراب اور دینی جلسوں کے توسط سے کسی کی لعنت و ملامت اور مخالفت کی پرواہ کئے بغیر ہمیشہ شرک و بدعت کی شناعت و قباحت اور اس کے برے انجام سے عوام کو متنبہ کرتے رہے ،قاری صاحب کی ذات ہی نے مختلف جلسوں اور پروگراموں میں ملک کے مایہ ناز اور بڑے بڑے علماء کرام اور بزرگان دین کو دعوت دے کر بلایا اور ان عظیم ہستیوں سے رانچی والوں کو روشناس کرایا اور ان سے ملاقات اور ان کی زیارت کا شرف حاصل ہوا کیونکہ ان سارے بزرگ علماء کرام کا قیام مدینہ مسجد میں ہی ہوا کرتا تھا جس سے شہر والے بآسانی شرف ملاقات حاصل کرلیا کرتے تھے ، اس معاملے میں اب شہر میں ایسا کوئی عالم دین نہیں ہے جو قاری علیم الدین قاسمی صاحب کی جگہ لے سکے ،قاری صاحب اکابر علماء دیوبند کے نقش قدم پر چلنے والے اور ان کے منہج سے انحراف کسی بھی طرح پسند نہیں کرتے تھے لیکن آج آپسی بغض و عناد اور حسد و جلن اور دوسرے کو نیچا دکھانے اور گرانے میں دیوبندیت کو نقصان پہنچا میں فخر محسوس کر رہے ہیں، قاری صاحب امارت شرعیہ بہار بنگال اڑیسہ و جھارکھنڈ کے بے دام غلام تھے ،امارت شرعیہ اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ہر پروگرام کو زمین پر اتارنے اور اس کے مشن کو عوام تک پہنچانے میں اپنی پوری قوت صرف کردیتےتھے ،امارت شرعیہ کی شوری کی نشست میں اپنی شرکت کو ہر حال میں لازمی اور ضروری سمجھتے تھے ، ان کی سادہ لوحی اور امارت شرعیہ کے تئیں ان کی خود سپردگی کا عالم تو یہ تھا کہ سعودیہ میں برسوں سے مقیم رانچی کے ڈاکٹر نازی صاحب نے اپنی والدہ کے ایصال ثواب کیلئے مدینہ مسجد کی سامنے والی ” مدرسہ گلی” میں دو کھٹہ زمین ہند پیڑھی کے بچوں کی دینی تعلیم کی خاطر معیاری دینی مکتب یا مدرسہ چلانے کے لئے قاری صاحب کو دیا تھا ،قاری صاحب نے اس زمین میں کافی تگ ودو کے اور برسوں کی محنت و کوشش کے بعد قاری صدیق حسن باندوی علیہ الرحمہ کی نسبت سے ” مدرسہ صدیقیہ” کے نام سے بنیاد بھی رکھا اور پلینتھ تک کام بھی کروایا لیکن ایک دن ڈاکٹر نازی صاحب نے کسی کے بہکاوے میں آکر قاری صاحب سے کہا کہ قاری صاحب وہ زمین اب آپ امارت شرعیہ کو دے دیں ، امارت شرعیہ کا نام سنتے ہی قاری صاحب نے بلا کسی چوں چراں کے اپنوں کے سمجھانے کے باوجود مذکورہ زمین امارت شرعیہ کے حوالے کردیا ،امارت شرعیہ نے اس حوالگی کو اپنے لئے کسی مال غنیمت کی طرح قبول کرتے ہوئے فورآ رجسٹری کرالی ،آج وہاں امارت شرعیہ نے دو یا تین منزلہ عمارت کھڑی کردی گو کہ تعلیم کا معیار محض رسمی اور خانہ پری ہے، برسوں اس زمین پر ایک معیاری مکتب یا مدرسہ نہ چلانے کا جو الزام قاری علیم الدین قاسمی صاحب پر قائم تھا وہ الزام امارت شرعیہ کے سپرد کئے جانے کے بعد اب بھی قائم ہے، جھارکھنڈ بننے سے قبل اور بعد میں بھی قاری صاحب ایک عرصے تک مجلس علماء جھارکھنڈ (چھوٹا ناگپور) کے صدر رہے ،اس پلیٹ فارم سے بھی آپ نے گاؤں گاؤں کا دورہ کیا اور اصلاح معاشرہ کے میدان میں گراں قدر خدمات اور کارنامے انجام دئے ، قاری صاحب نے اپنی تمام بیٹیوں کا نکاح غیر عالم کے بجائے برسر روزگار عالم دیں سے کرایا اور تمام لڑکوں کو دینی تعلیم دلایا لیکن قاری صاحب کی دلی خواہش پر ان کے دو ہی لڑکے مولانا رضوان قاسمی اور مولانا قاری انصار اللہ قاسمی ہی کھرے اترے،آپ کے مکاں کا باہری کمرہ جو سادگی اور فقیری کا نمونہ تھا بڑی بڑی دینی و دنیاوی، سیاسی و غیر سیاسی شخصیتوں اور ہر خاص و عام کے لئے ہمیشہ کھلا رہتا تھا ، قاری صاحب اکثر و پیشتر نماز پڑھانے کے بعد اپنے کمرے یا مسجد کے صحن میں قرآن کی بکثرت تلاوت کرتے ہوئے نظر آتے تھے ، قاری علیم الدین قاسمی صاحب ایک ایسی شخصیت کا نام تھا جن کے بوڑھے ،جوان اور ان کے ہم عمر سب دوست کی طرح تھے ، لوگ ان سے خوب ہنسی مذاق کیا کرتے تھے اور بھی لوگوں سے خوب مذاق کیا کرتے تھے ،نہ لوگ ان کے مذاق کا برا مانتے تھے اور نہ وہ لوگوں کے مذاق کا برا مانتے تھے ، بہت خوش مزاج ، مزاح پسند ،ملنسار ،خوش اخلاق ،مہمان نواز ،صاحب علم و فضل کے مالک تھے قاری قاسمی صاحب ،میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب بتاتے تھے کہ اپنی جوانی کے دنوں میں قاری صاحب جب نماز میں یا جلسوں میں قرآن کی تلاوت کرتے تھے تو لوگ قاری صاحب کی تلاوت قرآن کو بڑے ذوق و شوق کے ساتھ سنتے تھے ،اپنی دلسوز قرآت سے وہ ایک سماں باندھ دیتے تھے ایک گوہرِ نایاب تھے قاری علیم الدین قاسمی صاحب ،انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے چھوٹے لڑکے مولانا قاری انصار اللہ قاسمی صاحب کو اپنی جگہ امامت و خطابت اور منبر و محراب کی ذمداریوں کو بحسن وخوبی نبھانے کا سلیقہ سکھادیا تھا جس کی بنیاد پر مدینہ مسجد کی امامت و خطابت اور منبر و محراب کی ذمداری جناب مولانا قاری انصار اللہ قاسمی صاحب بڑی حسن و خوبی کے ساتھ نبھا رہے ہیں اور قاری صاحب کی دینی و سماجی خدمات کی وراثت کو حتی الامکان جاری رکھے ہوئے ہیں ، (جاری)
