All India NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand NewsRanchi News

جناب عثمان صاحب راعین کی شخصیت اور ان کی خدمات ( ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی)

Share the post

جس طرح کسی بھی معاشرے کی دینی اصلاح اور تعلیم و تربیت علماء کرام کی محنت و کاوش اور ان کی دینی فکر کا نتیجہ ہوتا ہے اسی طرح مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ یا عدم تحفظ یا پھر ان کے سیاسی استحصال کا ذمدار عام طور پر سیاسی رہنماؤں کی اچھی یا بری قائدانہ صلاحیت پر منحصر کرتا ہے ، ٹھیک اسی طرح مسلم معاشرے کی سماجی اصلاح اور اس کے اچھے یا برے نتائج کا ذمدار سماجی مصلح اور خدمت گار کو سمجھا جاتا ہے ، اگر کسی نے تنہا اپنی صلاحیت اور اپنی محنت و کاوش سے اپنے سماج اور معاشرے کے لئے کچھ کیا ہے جس کے اثرات بہت دور تک پہنچے ہیں تو لوگ صدیوں ایسے شخص اور اس کے فلاحی کاموں اور کارناموں اور ان کی ہمہ جہت سماجی خدمات کو صدیوں یاد رکھتے ہیں اور رکھنا بھی چاہئے کیونکہ اسلام میں ناشکری اور احسان فراموشی کو پسند نہیں کیا گیا ہے ، راعین برادری سے تعلق رکھنے والے ایسی ہی ایک شخصیت کا نام جناب عثمان صاحب ہے ، عثمان صاحب مرحوم بنیادی طور پر لیک روڈ رانچی کے رہنے والے تھے ، ان کی پیدائش غالباً 1885 میں ہوئی تھی،مولانا ابوالکلام آزاد 1916 میں جب رانچی آئے تو اس وقت عثمان صاحب کی عمر تقریباً تیس سال کی تھی ، انہوں نے مولانا آزاد کے چار سالہ نظر بندی کے دوران بارہا مولاںا آزاد کے پیچھے جامع مسجد اپر بازار رانچی میں جمعہ کی نماز پڑھا تھا اور ان کی تقریر سنی تھی ، لیک روڈ رانچی میں آپ کا وسیع و عریض مکان تھا اور اب بھی ہے ، جہاں اردو کے مشہور و معروف ادیب اور رانچی یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر جناب پروفیسر ش ، اختر صاحب ان کے بھائی جناب جابر حسین سابق اسپیکر بہار ودھان سبھا اور مشہور افسانہ نگار اختر پیامی جیسی عظیم ہستیوں نے پرورش پائی ہے اور عثمان صاحب کے لیک روڈ واقع مکان میں ہی رہ کر عثماں صاحب کی سرپرستی میں تعلیم حاصل کی ہے، اسی مکان میں رہتے ہوئے ان لوگوں نے اپنا علمی سفر جاری رکھا ہے ، بعد میں ش، اختر صاحب ، جابر حسین صاحب اور اختر پیامی صاحب کی جو علمی ترقی ہوئی آور علمی میدان میں جو نام اور مقام پیدا کیا اس میں عثمان صاحب کی سرپرستی اور نگرانی کا اعتراف ان لوگوں کو بھی تھا ، اس کے علاوہ عثماں صاحب کی ہی کوشش اور ترغیب سے راعین برادری کے اقبال خلیل ، آزاد علی ، عبد المتین اور ایوب وکیل صاحب وغیرہ جیسے نوجوانوں نے تعلیم حاصل کرکے رانچی شہر میں اپنا نام اور مقام پیدا کیا ، اقبال خلیل صاحب کافی عرصے تک راعین اسکول کے سکریٹری بھی رہے تھے ، ان سب کو آگے بڑھانے اور زندگی میں کچھ کر گزرنے کا حوصلہ اور جذبہ عثمان صاحب سے ہی ملا تھا ، اپنی علمی صلاحیتوں اور سماجی سرگرمیوں کی وجہ کر عثمان صاحب راعین برادری کے رہنماؤں اور سرپرستوں میں شمار کئے جاتے تھے ، پڑھے لکھے آدمی تھے ، علم دوست انسان تھے ، علم اور علماء سے خاص لگاؤ تھا ، سازشی ذہن و فکر سے کوسوں دور رہتے تھے ، خوشامد پسندی اور چاپلوسی کا بالکل مزاج نہیں تھا ، اپنی ذات سے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا ، اپنے اچھے اخلاق و کردار کی وجہ سے لوگوں میں بہت مقبول تھے ، ایک مدت تک راعین پنچایت کے صدر رہے ، پنچایت میں آپ کا بہت اثر و رسوخ تھا ، اپنے زمانے میں کافی مدت تک رانچی کے میونسپل کمشنر بھی رہ چکے تھے ، اس اعتبار سے بھی آپ کی سماجی خدمات ناقابل فراموش رہی ہیں ، آپ کا ایک وسیع و عریض مکان چرچ روڈ میں بھی تھا جہاں پہلے ” اندرا لاج “, چلا کرتا تھا لیکن آج وہاں رہائشی مکان کے ساتھ چرچ روڈ کی مشہور و معروف مارکیٹ” اندرا مارکیٹ ” قائم ہے جہاں آپ کے اکلوتے بیٹے محمد مصطفی صاحب جن کا انتقال 1966 میں ہوا تھا کے لڑکے اور آپ کے پوتے جناب فاروق صاحب مع اہل وعیال رہتے ہیں ، مصطفیٰ صاحب کے لڑکے اور عثمان صاحب کے پوتے جناب فاروق صاحب کا بھی کوئی جواب نہیں ہیں ، ان کے اندر بھی بے لوث سماجی خدمت کا جذبہ اپنے دادا عثمان صاحب کی طرح ہے ، وہ بھی اپنے دادا کی طرح چاپلوسی اور عیاری و مکاری کو پسند نہیں کرتے ہیں ، مولانا شعیب رحمانی صاحب علیہ الرحمہ کو رانچی لانے والے یہی عثمان صاحب تھے ، راعین پنچایت کے صدر کے علاوہ وہ رنگساز مسجد کے بھی صدر تھے ، انہوں نے ہی مولانا شعیب رحمانی صاحب کو راعین مسجد کی امامت و خطابت کے لئے امیر شریعت مولانا سید منت اللہ رحمانی صاحب کے توسط سے اٹکی سے رانچی آنے کی دعوت دی تھی ، امیر شریعت حضرت مولانا سید منت اللہ شاہ رحمانی صاحب سے عثمان صاحب کے بہت گہرے مراسم اور تعلقات تھے ، جب مولانا شعیب رحمانی صاحب عثمان صاحب کی خواہش پر رانچی تشریف لے آئے تو کچھ لوگوں نے عثماں صاحب سے کہا کہ چونکہ راعین مسجد میں پہلے سے مولانا غلام مصطفی صاحب امامت و خطابت کی ذمےداری کو بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں اس لئے مولانا غلام مصطفی صاحب کو ہٹا کر مولاںا شعیب رحمانی صاحب کو رکھنا مناسب نہیں ہے ، خواہ مخواہ اختلاف و انتشار کی کیفیت پیدا ہو جائے گی ، عثمان صاحب نے آج کے صدر و سکریٹری کی طرح گروپ بازی اور اس کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا بلکہ بہت ہی حکمت و دانائی کے ساتھ مولانا شعیب رحمانی صاحب کو رنگساز مسجد کا امام و خطیب بحال کر دیا ، آپ چونکہ رنگساز مسجد کے بااثر صدر تھے اس لئے کہیں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا ، رنگساز مسجد میں رہتے ہوئے مولاںا شعیب رحمانی صاحب کو جو شہرت و مقبولیت اور عروج حاصل ہوا اس کے پس پردہ عثمان صاحب کا بہت اہم کردار رہا تھآ ، مولانا شعیب رحمانی صاحب نے ایک زمانے تک عثمان صاحب راعین کے گھر میں ہی کر اپنی عصری تعلیم مکمل کی اور رانچی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے پروفیسر مقرر ہوئے ، عثمان صاحب سماجی طور پر بہت ہی انقلابی اور تحریکی آدمی تھے ،انہوں نے متحدہ بہار کے تمام راعیں برادری کے لوگوں کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کے لئے متحرک کیا ، آج راعین برادری کے اندر جو تعلیمی اور سماجی بیداری اور سرگرمی نظر آتی ہے اس کی بنیاد کی پہلی اینٹ جناب عثمان صاحب راعین ہیں ، اس کے علاوہ رانچی ، گیا ، پٹنہ اور بہار کے مختلف علاقوں میں کئی سماجی و فلاحی “کانفرنس” کرایا جسے آج بھی پرانے لوگ یاد کرتے ہیں ، رانچی اور آس پاس کے علاقوں میں جہاں کہیں کسی بھی قسم کا نورنامنٹ یا مقابلہ ہوتا تھا تو حوصلہ افزائی کے لئے میڈل ” عثمان صاحب” کے نام سے دیا جاتا تھا ، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جناب عثمان صاحب راعین اپنی سماجی و فلاحی کارکردگی کے باعث ایک ادارہ کی حیثیت رکھتے تھے ، اپنی سماجی اور فلاحی کاموں اور کارناموں کی وجہ کر وہ اپنی برادری کے علاوہ پورے علاقے میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ، جناب عثمان صاحب راعین کوئی سیاسی لیڈر نہیں تھے اور نہ ہی باضابطہ کسی سیاسی جماعت سے منسلک تھے لیکن اس کے باوجود آپ کی سیاسی گرفت اور پکڑ بہت مضبوط تھی ، وہ اس وقت کے بہار کے وزیر اعلیٰ ، کے ، بی ، سہائے کے بہت قریب تھے ، وزیر اعلیٰ سے براہ راست رابطہ رہتا تھا ، راعین اسکول کو سرکاری منظوری اور اقلیتی اسکول کا درجہ دلانے کی جب بات ائی تو جناب عثمان صاحب راعین نے اپنی زندگی میں لیک روڈ رانچی میں ٹھیک راعین اسکول کے سامنے ایک بہت بڑا ” تعلیمی کانفرنس” کرایا جس میں کئی سیاسی و سماجی رہنماؤں کے ساتھ انقلابی اخبار” سنگم” کے ایڈیٹر اور اس وقت کے وزیر تعلیم جناب غلام سرور صاحب تشریف لائے تھے ، اسی کانفرنس میں وزیر تعلیم جناب غلام سرور صاحب نے راعین اسکول کے سرکاری ہونے اور اس کو اقلیتی اسکول کا درجہ دئے جانے کا اعلان کیا تھا ، جس سرکاری کام کے لئے برسوں تگ ودو کرنا اور پسینہ بہانا پڑتا ہے، لاکھوں روپئے خرچ کرنے پڑتے ہیں ، اس کام کو جناب عثمان صاحب نے اپنے سماجی اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے ایک کانفرنس کے ذریعے کروالیا جو بہت بڑی بات ہے ، آج راعین اسکول اور راعین برادری کے اندر جو تعلیمی اور سماجی تبدیلی نظر آتی ہے اس کی بنیاد میں جناب عثمان صاحب راعین کی محنت و کاوش سے انکار کرنا بہت بڑی ناشکری اور احسان فراموشی ہوگی ، عثماں صاحب نے اپنی ساری زندگی سماجی اور فلاحی کاموں میں گزار دی اور آخیر میں وہی ہوا جو قدرت کا فیصلہ ہے جس سے فرار کسی کو بھی کسی حال میں نہیں ہوتا یعنی آپ 28/ رمضان المبارک 1980 کو 95 سال کی عمر میں اس دارفانی سے کوچ کر گئے ، آپ ایک مقبول عام شخصیت کے مالک تھے اس لئے آپ کے جنازے میں شرکت کرنے والوں کا ایک جم غفیر تھا ، راتو روڈ قبرستان میں آپ کی نماز جنازہ حضرت مولانا شعیب رحمانی صاحب نے پڑھائی اور وہیں آپ کو سپردِ خاک کیا گیا ، 45 سال گزرنے کے باوجود آج بھی لوگ آپ کو اور آپ کی ہمہ جہت خدمات کو یاد کرتے ہیں ، آللہ تعالیٰ مرحوم عثمان صاحب کی مغفرت فرمائے آمین ثم آمین

Leave a Response