تنہا نہیں ہوں میں، شعری مجموعہ ) شاعر اعجاز انصاری
“تنہا نہیں ہوں میں ” ( شعری مجموعہ ) شاعر : اعجاز انصاری – – – – – – – – “اجمالی جائزہ “
اسلم چشتی ( پونے )
چیئرمین”صدا ٹوڈے” اُردو نیوز ویب پورٹل
Sadatodaynewsportal@gmail.com
sadatoday.com
09422006327
اعجاز انصاری عصری شعر و سُخن کی دُنیا میں اپنی الگ ایک پہچان رکھتے ہیں – بیک وقت یہ کامیاب ناظمِ مُشاعرہ بھی ہیں اور با کمال شاعر بھی – میں انھیں دونوں حیثیتوں سے جانتا بھی ہوں اور مانتا بھی ہوں – کئی میرے اپنوں کے یہ دوست بھی ہیں اور بُزرگ بھی ، اس لئے مُجھے ان کی شخصیت اور ان کی شاعری سے دلچسپی بھی ہے اور قربت بھی – اب جبکہ ان کا مجموعئہ کلام ” تنہا نہیں ہوں میں “
مجھ تک پہنچا تو میں نے ان کی شاعری کا بغور مُطالعہ کیا – میرے ذوقِ سُخن کو ان کے کلام سے تسکین پہنچی –
” تنہا نہیں ہوں میں ” 160 صفحات پر مُشتمل ہے اس میں غزلوں کے ساتھ ایک حمد ایک نعت اور کچھ نظموں کو بھی شامل کیا گیا ہے – اس کتاب کی شاعری کا انتخاب جانے مانے مُستند شاعر شہباز ندیم ضیائی نے اس ہُنر مندی سے کیا ہے کہ اعجاز انصاری کی تمام تر شعری صلاحیتوں کا رنگ اور آہنگ سمٹ آیا ہے – یہ انتخاب ایک معیار قائم کرتا ہے جس میں شاعری کی توانائی اُبھر کر آئی ہے –
اعجاز انصاری بحیثیت غزل گو شاعر ادبی حلقوں میں شہرت رکھتے ہیں – ان کی غزل اسٹیج سے سماعتوں کو بھی گدگداتی ہے اور قرطاس پر بصارتوں کو چھو کر قارئین کے دلوں میں بھی اُتر جاتی ہے – نت نئے انداز سے ان کی غزل گوئی نے مُشاعروں اور رسالوں کی دُنیا کو گرمائے رکھا – ان کے کئی اشعار سامعین اور قارئین کی یادوں میں محفوظ بھی ہیں اس مجموعہ میں شامل میری پسند کے کچھ اشعار مُلاحظہ فرمائیں –
کانٹوں کی فصل بونے سے پہلے یہ سوچ لے
اس راہ سے تجھے بھی گزرنا ضرور ہے
جب دوستوں کی سازشیں آئینہ ہو گئیں
میں نے بھی آستین میں خنجر چھُپا لیا
اس سے کہہ دو مری سانسوں میں ہے ، اس کی خوشبو
جس نے لکھّا مری تقدیر میں تنہا رہنا
طنز کرتا ہے وہ لفظوں کا سہارا لے کر
اور خنجر مرے سینے میں اُتر جاتے ہیں
پتھّر تلاش کرنے میں صدیاں گزار دیں
ہیروں کا کاروبار بھی کتنا عجیب ہے
غزل کو سنوارنے سجانے کی اعجاز انصاری کی کاوشوں کی داد دینا مُشاہیرِ ادب نے اپنا فرض سمجھا ، کچھ اقتباسات مُلاحظہ فرمائیں –
” اعجاز انصاری کی شاعری ہمیں دل کی دُنیا کی سیر بھی کراتی ہے اور ہمارے گرد و پیش کا آئینہ بھی ہمیں دکھاتی ہے – مُجھے اُمّید ہے کہ ان کے مجموعۂ کلام ” تنہا نہیں ہوں میں” کو قبولِ عام حاصل ہوگا اور شاعری کے قدر شناس اسے ہاتھوں ہاتھ لیں گے “
[ مخمور سعیدی ] فلیب
” ان کے خیالات پاکیزہ اور لہجہ پُر عزم ہے مُشاعرے میں پورے اعتماد سے پڑھتے ہیں اور سامعین سے داد وصول کر نے کے گُر بھی جانتے ہیں – ان کی ادائیگی کا انداز پُر لُطف ہوتا ہے – یہ بھی ہے کہ اس فنکار کی نیام میں کئی تلواریں ہیں جن میں سے ایک مُشاعرے کی نظامت بھی ہے “
[ ڈاکٹر مظفّر حنفی ] فلیپ 2
” ان کے یہاں مشاہدے کو احساس بنانے کا عمل جاری ہے – غزل کے لئے ذات و کائنات کا کرب مشترک بہت ضروری ہے – یہ احساس اعجاز انصاری کی شاعری میں نظر آ رہا ہے “
[ قیصر الجعفری ص 6 ]
” ان کی شاعری مظلوم انسانیت کی مخلصانہ خدمت اور ان کے روحانی زخموں کی بخیہ گری سے عبارت ہے “
[ پروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی ص 10 ]
ان مُشاہرِ ادب کے علاوہ احمد کمال پروازی ، ساحل سحری ، سید راشد حامدی نے اعجاز انصاری کی شاعری کے مُختلف پہلوؤں پر اظہارِ خیال کرکے انھیں داد سے نوازا ہے – ان آراء میں اعجاز انصاری کی وطن دوستی اور یکجہتی اور قوم سے ہمدردی کی باتیں بھی کی گئی ہیں جو کہیں کہیں ان کی غزلیہ شاعری میں بھی در آئی ہیں – لیکن ان کی نظموں میں ان کا فن اور بھی سلیقے سے بولتا ہے ایک نظم ہے ” جشنِ بہاراں ” جس کا آخری بند مُلاحظہ فرمائیں –
یقیناً جشنِ ِ آزادی ہے اک جشنِ بہاراں بھی
ہمارے ہی لئے ہیں جشنِ آزادی کی خوشیاں بھی
مگر اس صبح کے دامن پہ ہے خونِ شہیداں بھی
ہزاروں گوشئہ عیش و طرب ایجاد کر لینا
شہیدانِ وطن کو بھی مگر تم یاد کر لینا
ایک اور نظم ہے ” ایک ہو جاؤ وطن کی سالمیت کے لئے ” اس نظم کا دوسرا بند مُلاحظہ فرمائیں –
آؤ کچھ مِل بیٹھ کے سوچیں مُحبّت کے لئے
کوئی گنجائش نہ چھوڑی جائے نفرت کے لئے
پھر ارادے دُشمنوں کے ہو نہ پائیں کامیاب
ایک ہو جاؤ وطن کی سالمیت کے لئے
اعجاز انصاری کی نظمیہ شاعری پڑھ کر یا سُن کر ترقّی پسند شاعروں کی پابند نظمیں یاد آجاتی ہیں کہ جب وہ عوامی جلسوں اور مُشاعروں میں وہ نظمیں سُناتے تھے تو سامعین پوری توجہ اور دلچسپی سے سُنتے تھے اور نظم کے اختتام پر جلسہ گاہ یا ہال تالیوں سے گونج اُٹھتا تھا – اب تو خیر نہ وہ ماحول رہا نہ وہ جوش و خروش اور نہ ہی پابند نظمیں لکھنے کا رواج رہا – لیکن اعجاز انصاری جب کوئی پابند نظم کسی موضوع پر اسٹیج پر پڑھتے ہیں تو سامعین میں ہلچل مچ جاتی ہے اور نظم کے بیچ بیچ میں واہ واہ کی کچھ آوازیں اُبھرتی ہیں اور جب نظم ختم ہو جاتی ہے تو تالیوں کا شور بلند ہوتا ہے – گویا اعجاز انصاری نے پابند نظم کی روایت کو برقرار رکھا ہے –
” تنہا نہیں ہوں میں ” میں نظموں کے بس کچھ ہی نمونے ہیں – نا چیز کا خیال ہے کہ ان کی نظمیہ شاعری کا بھی انتخاب شایع ہونا چاہئے – غزل گوئی اور نظم گوئی میں یکساں مہارت رکھنے والے شاعر اعجاز انصاری کے ایک شعر پر میں اپنی گُفتگو ختم کرتا ہوں –
بیچ سکتا نہیں غربت میں حویلی اپنی
مجھ کو اجداد کی عظمت کا بھرم رکھنا ہے
Aslam Chishti flat no 404 shaan Riviera aprt 45 /2 wanowrie near jambhulkar garden pune 411040 maharashtra india aslamchishti01@gmail.com