All India NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand NewsRanchi News

حاجی عبدالرزاق انصاری قطرے سے گہر ہونے تک کا سفر

Share the post

محمد عارف انصاری
رابطہ :9572908382
E-mail:mdarifasari95722gmail.com

دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو زندگی میں عزت پاتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں عزت و عقیدت کے
ساتھ زندہ رہتے ہیں۔ حاجی عبدالرزاق انصاری ایسی ہی ایک شخصیت تھے، جنہوں نے بغیر کسی تفریقِ مذہب و ملت صرف خدمتِ خلق کو اپنی زندگی
کا مقصد بنایا۔ ان کی سچائی، سادگی، عاجزی، ایثار اور انسانیت کی خدمت ان کی شخصیت کی نمایاں خصوصیات تھیں، جو انہیں دوسروں سے ممتاز
کرتی ہیں۔ ایک شفیق استاد اور ماہر تعلیم و معیشت ہونے کے ساتھ ہی انہوں نے سماجی و سیاسی میدان میں بھی اہم خدمات انجام دیں۔ جدوجہد آزادی
میں حصہ لینے کے باعث انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں اور ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دیا۔ ان کی سیاست صاف ستھری اور بغیر
عصبیت کے تھی، اور ان کا مقصد ہمیشہ نبی ﷺ کی اس حدیث پر عمل تھا:’’تم میں بہترین وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو فائدہ پہنچائیں‘‘۔
عبدالرزاق انصاری کی ولادت 24 جنوری 1917 کو رانچی کے نزدیک واقع ’’اربا‘‘‘گاؤں میں ہوئی۔ والد کی غربت کے سبب بچپن میں
بکریاں چرائیں اور پھر اپنے آبائی پیشے میں کپڑا بْننا شروع کیا۔ تعلیم کا شوق بھی دل میں بیدار ہوا، جس کے باعث انہوں نے پرائمری اسکول میں
داخلہ لیا اور مڈل تک تعلیم مکمل کی۔ بعد ازاں ڈالٹن گنج سے تربیت حاصل کرکے استاد بن گئے اور اپنی اہلیہ بی بی نفیرالنسائ کو بھی پڑھایا۔ ان
کے لیے تعلیم دینا نہ صرف ذاتی مقصد تھا بلکہ لوگوں میں تعلیمی بیداری پیدا کرنے کے لیے انہوں نے پورے علاقے میں کوششیں کیں اور خواتین
کی تعلیم پر خصوصی زور دیا اور کئی تعلیمی ادارے قائم کیے۔انہوںنے اپنی ذاتی غربت اور محرومی کے تجربات کو قوت بنایا اور غریب بنکروں کی
حالت زار بہتر بنانے کے لیے 1949 میں ’’اِربا ہتھ کرگھا بنکر امداد باہمی سوسائٹی‘‘ کی بنیاد رکھی۔
جناب انصاری کی مخلصانہ کوششوں اور حکمت عملی سے بنکروں کو اپنے آبائی پیشے کی طرف واپس لایا گیا، جس کے نتیجے میں گھر
گھر ہتھ کرگھے چلنے لگے اور بنکروں کی زندگی میں خوشحالی آئی۔ یہ کاوش صرف اِربا تک محدود نہ رہی بلکہ قرب و جوار کے علاقوں میں بھی
انقلاب لائی، اور متعدد سوسائٹیوں کے قیام کا باعث بنی، جو آج بھی ان کی رہنمائی اور ویژن کا عملی ثبوت ہیں۔ ان کا یہ کارنامہ اس بات کا ثبوت
ہے کہ ایک فرد کی مخلصانہ محنت پورے خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ان کی قیادت اور محنت سے بنکروں کے لیے بازار کی فراہمی اور
سوسائٹیوں کو منظم کرنے کی راہیں ہموار ہوئیں۔ ’’بہار اسٹیٹ ہینڈلوم ویورس کوآپریٹیو یونین لمیٹڈ، پٹنہ‘‘کے قیام میں ان کا بڑا کردار تھا، اور بعد
میں انہوں نے ’’چھوٹا ناگپور ریجنل ہینڈلوم ویورس کوآپریٹیو یونین لمیٹڈ‘‘ قائم کیا جو آج بھی ان کی رہنمائی کی علامت ہے۔ ان کی کوششوں سے
کئی سوسائٹیاں تشکیل پائیں اور ان سوسائٹیوں نے معاشرتی و اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا ہمیشہ کہنا تھا، ’’اگر تمہاری آواز میں دم
اور کشش ہے تو پورا گاؤں تمہارے ساتھ چلے گا، اور منزل خود آجائے گی‘‘۔
مرحوم عبدالرزاق انصاری کی تعلیمی اور سماجی خدمات نے یہ ثابت کیا کہ عزم و ہمت کی بنیاد پر انسان مشکلات کے باوجود کامیابی کی
راہوں پر گامزن ہو سکتا ہے۔ ان کی قائدانہ صلاحیتوں نے نہ صرف مومن برادری بلکہ پورے خطے کو فائدہ پہنچایا۔ وہ غریبی اور مفلسی کے باوجود
بکریاں چرانے والے ایک معصوم بچے سے عظیم رہنما بنے، جنہوں نے اپنی محنت و لگن سے چھوٹا ناگپور کے غریبوں اور مظلوموں کی زندگی بدل
دی۔ ان کی بے لوث خدمت اور قائدانہ کردار نے نہ صرف علاقے میں بلکہ عالمی سطح پر ’’اِربا‘‘ کو ایک منفرد مقام دلایا۔ان کا خواب تھا کہ اِربا
میں ایک اسپتال قائم ہو جو غریب بنکروں کو جدید علاج کی سہولت فراہم کرے۔ اس کے لیے انہوں نے بہار کے گورنر سے درخواست کی تھی اور
1991ئ میں گورنر نے اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ اگرچہ یہ خواب ان کی زندگی میں مکمل نہ ہو سکا، لیکن ان کے بیٹوں نے اس خواب کو حقیقت
بنایا۔ ان کے بیٹوں سعید احمد انصاری، منظور احمد انصاری، افتخار عالم انصاری، اور انوار احمد انصاری نے اسپتال کی عمارتیں تعمیر کرائیں، جو آج
’’میدانتا عبدالرزاق انصاری میموریل ویورز ہاسپیٹل‘‘کے نام سے کام کر رہا ہے اور یہ عبدالرزاق انصاری کی عظمت کا زندہ نمونہ ہے۔
چھوٹا ناگپور جیسے پسماندہ علاقے میں علم کی روشنی پھیلانا حاجی عبدالرزاق انصاری کی انتھک محنت اور عزم کا نتیجہ تھا۔ انہوں نے
نہ صرف تعلیمی ادارے قائم کیے بلکہ علم و شعور کی ایسی فصل بوئی جس کی روشنی نسل در نسل پھیلتی چلی گئی۔ آزادی کے بعد، جب پنچایتی
راج کا آغاز ہوا، تو گاؤں کے لوگ انہیں اپنا مکھیا منتخب کر کے اس منصب پر فائز رہے۔ ان کی محنت اور قابلیت نے انہیں سرکاری و غیر
سرکاری اداروں میں اہم عہدوں پر پہنچایا اور دو بار بہار قانون ساز کونسل کے رکن منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ ان کی سادگی اور بے نفسی
نے انہیں پورے ملک میں ایک ممتاز شخصیت بنا دیا، جو ہمیشہ خدمت خلق کو اپنی کامیابیوں پر ترجیح دیتے تھے۔وہ مومن برادری اور بنکروں کے
سچے ہمدرد اور مخلص رہنما ئ تھے۔ مومن تحریک میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، انہوں نے تحریک کو استحکام اور مضبوطی عطا کرنے
میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہیں معروف ادبی شخصیت سہیل عظیم آبادی کے ذریعے عبدالقَیوم انصاری سے متعارف کرایا گیا، جو آل انڈیا مومن کانفرنس
کے صدر تھے۔ بر سر اقتدارکانگریس پارٹی نے ان کی محنت اور خلوص کا اعتراف کیا اورانہیں1958اور1985میںبہار قانون ساز کونسل کا رکن اور
ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا کے دور میں محکمہ سیاحت کے کابینی وزیر کے طور پر فائز کیا گیا۔
مومن تحریک کے اندرونی اختلافات، خصوصاً ضیائ الرحمان انصاری کی وفات کے بعد قیادت کے مسائل نے ایک نازک صورت حال پیدا
کر دی، لیکن حاجی عبدالرزاق انصاری کی دوراندیشی اور بے لوث قیادت نے ان چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے تحریک کی عظمت کو برقرار رکھا۔ ان
کی حکمت عملی اور اعلیٰ ظرفی کے باعث تحریک کے رہنما مولانا حبیب الرحمان نعمانی کی قیادت میں دوبارہ متحد ہو گئے، جو ان کی اخلاص
بھری قیادت اور تحریک سے گہری وابستگی کا واضح ثبوت ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اختلافات کو ختم کرنے اور تحریک کو یکجا رکھنے کی کوشش کی،
جس نے انہیں ایک متفقہ رہنما کے طور پر نمایاں کر دیا۔فرقہ واریت اور تعصب سے پاک قومی ہم آہنگی کے علمبردار ہونے کے ناطے، ان کی
عوامی قیادت نے انہیں ہر دلعزیز بنایا۔ ان کی شخصیت پنڈت نہرو، مولانا آزاد، محترمہ اندرا گاندھی اور مدر ٹریسا جیسی عظیم شخصیات کے قریب
رہی۔ مدر ٹریسا نے ان کے بارے میں کہا: ’’جس طرح اللہ تعالیٰ ہر مخلوق سے محبت کرتا ہے، اسی طرح ہمیں بھی ایک دوسرے سے محبت کرنی
چاہیے، جیسا کہ انہوں نے کیا۔‘‘ ان کی انسانیت نوازی اور بے لوث خدمات نے نہ صرف قومی بلکہ عالمی سطح پر بھی انہیں ایک عظیم شخصیت
کے طور پر تسلیم کرایا

Leave a Response