Saturday, July 27, 2024
Ranchi News

کسے خبر کہ کل کون سی ہوا چل جائے

 

رانچی: تحریر ۔ شریف احسن مظہری 
رابطہ :9608066086
شہر کے ہنگامے سے دور ، اس پُر فضا مقام پر اور دار العلوم کے اس احاطے میں جس کے بارے میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ ’’مجھے اس مقام سے روحانیت کی بومحسوس ہو تی ہے ۔‘‘ خوش نصیبی کی اسی سرزمین میں ہم آپ سبھی حضرات کا تہ دل سے استقبال کرتے ہیں، خیر مقدم کرتے ہیں اور آپ کے سروں پر عقید و محبت کے پھول نچھاور کرتے ہیں، خصوصی طور پر حضرت مولانا سید بلال عبد الحیٔ حسنی ندوی ناظم دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ورود بامسعود پر ہم جس قدر کیف و سرور ، مسرت و شادمانی ، فخر و انبساط کی کیفیات سے سرشار ہیں۔ انہیں الفاظ کے قالب میں ڈھالنا بڑا مشکل اور دشوار امرہے۔ ہم ان احساسات و کیفیات کی وسعت کو الفاظ کی تنگنائی میں سمونے سے عاجز و قاصر ہیں اور شاید ایسا ممکن بھی نہیں، ان حالات میں ہماری بے زبانی ہی زبان ہے اور زبان حال ہی سب کچھ بیاں کردینے کے لیے کافی ہے۔ ہم اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ دار العلوم ندوۃ العلماء کے منصب نظامت سے سرفراز ہونے کے بعد ہی جھارکھنڈ کے اس دور دراز علاقے میں قدم رنجہ فرماکر حضرت نے رانچی اور خصوصی طور پر حلقۂ اسلام نگر کے لوگوں پر بڑاکرم فرمایا ہے ، مجلس علما ء جھارکھنڈ آپ کے اس ورود بامسعود کو تاریخ کا ایک حسین لمحہ تصور کرتی ہے ، جسے کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا، بلاشبہ دا ر العلوم ، اسلام نگر ، رانچی کی تاریخ میں یہ لمحہ ایک روشن باب بن کر ہمیشہ چمکتا اور دمکتا رہے گا۔ 
ہم سوامی لکچھمی شنکر اچاریہ جی اور پنڈت اجئے مشرا جی کے ممنون و مشکور ہیں کہ انہوں نے اپنا قیمتی وقت اس اجلاس کے لیے فارغ کیا اور سفر کی زحمت گوارا کی بلاشبہ آپ حضرات بھارت کے برادرانہ روایت کے امین ہیں، ہم آپ حضرات کا بھر پور استقبال کرتے ہیں ۔ آپ حضرات کی تشریف آوری سے امن و انسانیت کے لیے کام کررہے اس علاقے کے لوگوں کو کافی حوصلہ ملے گا، مجلس مولانا آفتاب عالم ندوی اور ضیاء الہدیٰ اصلاحی کے بھی بے حد ممنون ومشکور ہے جن کی کوششوں سے آج کا یہ اجلاس ممکن ہوپایا اور باشندگان حلقہ اسلام نگر کو یہ تاریخی لمحہ میسر ہو سکا۔ 
مہمانانِ گرامی ! 
آج کا یہ اجلاس مرکزی مجلس علماء جھارکھنڈ اور پیام انسانیت کے اشتراک سے منعقد ہورہا ہے ، یہ حسن اتفاق ہے کہ ان دونوں تنظیموں کے بانی ایک ہی شخصیت مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ 
بات 1988ء کی ہے، اپنے رانچی دورے کے موقع پر بمقام ’’سونس ‘‘ ایک اجلاس کو جس میں علماء کی بڑی تعداد موجود تھی، علاقے میں علماء کی اس بڑی تعداد کو دیکھ کر مفکر اسلام نے خوشی کااظہار فرمایا، اور حاضرین کے سامنے علماء کی ایک تنظیم کے قیام کی تجویز پیش کی جس کی تائید اسٹیج میں تشریف فرما حضرت مولانا عبد الکریم باریکھ ؒ نے بھی کی، چنانچہ علماء نے اس تجویز پر فوری عمل کا فیصلہ لیااور اجلاس ختم ہو تے ہی حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ، حضرت مولانا عبد الکریم پاریکھؒ ، مولانا احمد علی قاسمیؒ، حضرت مولانا قاری علیم الدین قاسمیؒ اور سیکڑوں علماء کی موجودگی میں مجلس علماء چھوٹا ناگپور کے نام سے ایک تنظیم کاقیام عمل میں آیا۔ ریاست جھارکھنڈ کے وجود میں آنے کے بعد باقاعدہ ریزولیشن کے ذریعہ اسے مجلس علماء جھارکھنڈ سے موسوم کیاگیا، لیکن اب بھی اس کا دائرہ چھوٹا ناگپور سے باہر ریاست کے دیگر دور، دراز علاقوں تک پہنچ نہیںپایا تھا ، جب 2014میں مولانا آفتاب عالم ندوی، ڈائرکٹر جامعہ ام سلمہ دھنباد اس کے صدر منتخب ہوئے تو سکریٹری ضیاء الہدیٰ اصلاحی کے ساتھ مل کر سوسائٹی ایکٹ سے مجلس علماء جھارکھنڈ کا رجسٹریشن کرایااور مجلس کے پیغام کو سنتھال پرگنہ اور ریاست کے دیگر علاقوں تک پہنچایا ۔ راقم الحروف (شریف احسن مظہری ) بھی جنرل سکریٹری کی حیثیت سے انگلی کٹا کر مرتبۂ شہادت حاصل کرنے کی خاطر مولانا آفتاب عالم ندوی کے ساتھ لگا رہا، لیکن بد قسمتی سے مولانا آفتاب عالم ندوی نے اپنی ذاتی مصروفیات اور اکیڈمک ذمہ داریوں کی وجہ سے کچھ عرصہ بعد جب عہدۂ صدارت سے استعفیٰ دے دیا تو مجلس سے پہلے مرکزی کالاحقہ لگا کر کچھ علماء نے اس کی سابقہ پالیسیوں کے ساتھ مجلس کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ، حال میں ہوئے انتخاب میں مولانا صابر حسین مظاہری عہدۂ صدارت سے سرفراز ہوئے جب کہ مفتی طلحہ ندوی جنرل سکریٹری کے لیے منتخب قرار دیئے گئے ، اس وقت یہ دونوں حضرات اپنی ٹیم کے ساتھ مجلس کو اس کے بانئین کے خوابوں کی تعبیر کی شکل میں آگے بڑھا میں کوشاں و سرگرم عمل ہیں۔ 
حضرات! 
امن و انسانیت کی بات سرزمین رانچی میں ہو اور امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کا ذکر نہ ہو تو ناانصافی کی بات ہو گی، یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مولانا ابو الکلام آزاد اس علاقے میں امن و انسانیت کے پہلے داعی و مبلغ ہیں، اپنے چار سالہ عہدِ نظربندی میں مولانا نے جامع مسجد رانچی کے محراب و ممبر سے اپنے سحر انگیز خطابات کے ذریعہ امن و انسانیت یکجہتی ویگانگت کے پیغام کو کچھ اس انداز میں پیش کیا کہ اس کے صداکے دلنواز سے غیر مسلم برادران وطن بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور مولانا کی تقریر سننے کے لیے خود بخود مسجد کے اندر داخل ہونے لگے ، جب ان کی تعداد بڑھنے لگی تو مولانا نے مسجد سے متصل جالی دار دیوار کے ساتھ ایک ہال کی تعمیر کرادی جہاں برادران وطن جمعہ کی تقریر سننے کے لیے جمع ہو تے اور تقریر ختم ہوتے ہی خاموشی کے ساتھ باہر نکل جاتے (یہ ہال تا حال موجود تھا )۔
شاید یہ ہندوستان کی واحد مسجد رہی ہو جہاں غیر مسلم جمعہ کی تقریر سننے کے لیے حاضر ہوتے ہوں، مولانا کی اس کرشمائی شخصیت کا اثر تھاکہ جب انھوں نے مدرسہ اسلامیہ رانچی کی تعمیر کاکام شروع کیا تو مسلمانوں سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر ہندو برادران نے مالی و اخلاقی تعاون پیش کیا جن میں کچھ کے نام آج بھی مدرسے کی پرانی عمارت میں نوشتہ دیوار ہے اور مولانا کے پیغام امن و انسانیت کا ہی اثر تھا کہ جب 1946-47میں پورا شمالی و وسط بہار فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جل رہا تھا تو ایسے ہلاکت خیز حالات میں بھی جنوبی بہار کا یہ علاقہ امن و آشتی ، قومی یکجہتی اور بھائی چارے کی بہترین مثال پیش کررہا تھا۔
صدر محترم 
ریاست جھارکھنڈ تہذیبی ، ثقافتی ، لسانی و جغرافیائی اعتبار سے ملک کی دیگر ریاستوں سے قدر مختلف ہے، یہ ہزاروں سال سے ہندوستان کے قدیم باشندے آدیباسی قبائل کا مسکن رہا ہے، کوہ بیاباں پر مشتمل اس حسین وادی میں صدیوں سے امن و سکون اور پیارو محبت کی بانسری کی سریلی آواز کانوں میں رس گھولتی رہی ہے اور صدیوں تک اس کی پہاڑیاں ’’کولہا جولہا بھائی بھائی ‘‘ کے نعروں سے گونجتی رہی ہے جس کی بازگشت شاید آج بھی کہیں کہیں سنائے دے، سادگی ، انکساری ، امن پسندی ، وفا شعاری اور احسان سناشی یہاں کے آدیباسی قبائل کی طبیعت کا خاصہ رہا ہے ، بدقسمتی سے وقت و حالات نے ان کے سوچ میں بھی منفی اثر ڈالا ہے لیکن آج بھی ان کی اکثریت بھائی چارے، امن و شانتی اور پیار و محبت کی دیرینہ روایت کو باقی رکھنا چاہتی ہے ، اب بھی موقع غنیمت ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ جھارکھنڈ کا ہر امن پسند شہری ، سماجی تنظیمیں ، ملی ادارے اور تمام مذاہب کے پیشوان مذاہب جھارکھنڈ کی دھرتی کو منافرت اور فرقہ پرستی کی مسموم ہوائوں سے محفوظ رکھنے کے لیے مشترکہ کوشش کریں، ورنہ خطرہ ہے کہ نہ جانے کب جھارکھنڈ بھی پورے طور پر زہریلی ہوائوں کے لپیٹ میں نہ آجائے ۔ 
کسے خبر کہ کل کون سی ہوا چل جائے 
کہ خاک و خوں میں ہے لتھڑی ہوئی بہارابھی 
آخرمیں ہم ان تمام ہندو، مسلم، سکھ ، عیسائی اور سرنا رہنمائوں کا بھرپور استقبال اور دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے پیام انسانیت اور مرکزی مجلس علماء جھارکھنڈ کے اس اجلاس کی تائید کی بلکہ مانوتا کے سندیش کو وقت کی اہم آواز سمجھ کر ہر طرح تعاون پیش کیا۔ 
ہم عہد کرتے ہیں کہ مرکزی مجلس علماء جھارکھنڈ امن و انسانیت کے لیے کی گئی ہر کوشش کے ساتھ صف اول میں کھڑی رہے گی ، خواہ یہ کوشش کسی بھی تنظیم، ادارہ یا شخصیت کی جانب سے کی جائے ، ہم اپنے ملک ، ریاست اور انسانیت کے تحفظ کی خاطر ہر طرح کی قربانی پیش کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہیںگے۔ 
ہمیں پوری امید ہے کہ پیام انسانیت کے عالی مقام قومی جنرل سکریٹری ، ناظم دار العلوم ندو ۃ العلماء لکھنؤ ، حضرت مولانا عبد الحیٔ حسنی ندوی، مرکزی مجلس علماء جھارکھنڈ کی سرپرستی قبول فرمائیںگے اور اسلاف کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے ہر طرح سے ہماری رہنمائی فرمائیںگے اور اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازتے رہیںگے ۔

Leave a Response