Monday, October 7, 2024
Jharkhand News

صدقہ فطر کے وجوب کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری، سب دینے ہی والے ہوں گے تو لینے والے کون ہوں گے؟

 

صدقہ فطر کے وجوب کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری
سب دینے ہی والے ہوں گے تو لینے والے کون ہوں
گے؟

زکوۃ کا نصاب ہی صدقہ فطر کا نصاب

 مفتی محمد قمر عالم قاسمی خادم التدریس والافتاء مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی، قاضی شہر رانچی جھارکھنڈ سرکار 
خطیب حواری مسجد کربلا چوک رانچی 
زکات اور صدقۃ الفطر کے نصاب میں صرف دو معمولی فرق ہیں (١) ایک یہ کہ زکوۃ کے نصاب میں مال کا نامی یعنی سونا/چاندی/سامان تجارت/روپے پیسے متعینہ مقدار میں ہونا ضروری اور شرط ہے۔
(٢) دوسرے یہ کہ زکوۃ میں سال گذرنا شرط ہے،جب کہ صدقہ فطر کے وجوب کے لیے نہ تو مال کا نامی ہونا شرط ہے اور نہ ہی سال گزرنا بس یہ دو معمولی فرق کے سوا زکوۃ اور صدقہ فطر کے نصاب میں کوئی فرق نہیں ہے زکوۃ کا نصاب ہی صدقہ فطر کا نصاب ہے
 غیر صاحب نصاب( فقیر) پر صدقۃ الفطر واجب نہیں:
جو شخص غریب،فقیر،مسکین اور محتاج ہو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں ہے البتہ اگر کوئی فقیر صدقہ فطر دینا چاہے تو اس کے لئے بھی باعث اجر و ثواب ہے، صدقہ فطر کے وجوب کے لیے مالدار ہونا شرط ہے حضرت امام بخاری علیہ الرحمہ نے اسی نام سے بخاری شریف جلد نمبر 1 صفحہ 192 کتاب الزکوۃ میں باضابطہ ترجمۃ الباب قائم فرمایا ہے جس میں وضاحت ہے کہ صرف مالدار پر ہی صدقہ فطر واجب ہے امام بخاری علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں”باب لا صدقه الا عن ظهر غنى ومن تصدق وهو محتاج او اهله محتاج او عليه دين فالدين احق ان يقضى من الصدقة والعتق والهبة “الخ کہ صدقہ اسی کی طرف سے ہے جو مالدار ہو اور جو محتاج ہو کر خیرات کرے  یا اس کے بال بچے محتاج ہوں یا وہ قرض دار ہو تو ایسی خیرات درست (بہتر) نہیں اسی طرح اگر قرض دار ہو تو صدقہ اور آزادی پر قرض ادا کرنا مقدم ہوگا اور اس کا صدقہ اس پر پھیر دیا جائے گا اور اس کو یہ درست نہیں کی خیرات دے کر لوگوں کا پیسہ تباہ کرے۔اس کے بعد امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنی اس بات کی تائید میں حضرت ابوھریرہ اور حضرت حکیم بن حزام – رضی اللہ عنہما – روایتیں ذکر کی ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے “عن ابي هريره عن النبي صلى الله عليه وسلم قال خير الصدقة ما كان عن ظهر غنى وابدا بمن تعول”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمدہ خیرات وہی ہے جو مالدار کی طرف سے ہو اور پہلے ان لوگوں سے شروع کر جو تیری نگہبانی میں ہیں۔ اور حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی روایت ہے “عن حكيم بن حزام عن النبي صلى الله عليه وسلم قال اليد العليا خير من اليد السفلى وابدا بمن تعول وخير الصدقة ما كان عن ظهر غنى ومن يستعفف يعفه الله ومن يستغن يغنه الله”کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  اوپر یعنی دینے والا ہاتھ نیچے والے یعنی لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور پہلے اپنے بال بچوں عزیزوں کو دے عمدہ خیرات وہی ہے جو مالدار کی طرف سے ہو ،جو کوئی سوال کرنے سے بچنا چاہے اللہ اس کو بچائے گا  اور جو کوئی بے پرواہی کی دعا کرے گا اللہ اس کو بے پرواہ کر دے گا۔
قرآن کریم سورہ توبہ آیت 103 میں ہے کہ صدقہ اور خیرات مالداروں سے ہی لئے جائیں گے اسی طرح بخاری شریف جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 203 پر مشہور حدیث ہے “فان هم اطاعوالذالك فاخبرهم ان الله قد افترض عليهم صدقة توخذ من اغنيائهم وترد على فقرائهم”
ان روایات کی روشنی میں صاحب نصاب پر ہی صدقہ فطر واجب ہے، مالداروں سے لۓ جائیں گے اور غریبوں پر تقسیم کۓ جائیں۔ مالداروں کے ساتھ غریبوں پر بھی صدقات واجبہ کے وجوب کا قائل ہونا آیت کریمہ اور صحیح و مشہور حدیث کی صریح خلاف ورزی ہے۔ غیر صاحب نصاب پر بھی صدقہ فطر واجب کردیں تو پھر لےگا کون؟ سب تو دینے ہی والے ہوں گے لینے والا کون بندہ ہوگا؟
جس روایت کو فقیروں پر صدقہ فطر کے وجوب کے لئے دلیل بنایا جاتا ہے وہ روایت مضطرب ناقابل استدلال ہے اس لیے اس طرح کی روایت کو ترغیب پر محمول کیا جاتا ہے یعنی مالدار اور صاحب نصاب کے علاوہ فقیر بھی اگر صدقہ فطر ادا کرے تو بہت ہی بہتر اعلی درجے کی بات ہے چنانچہ ایک حدیث شریف میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مالدار بھی صدقہ فطر ادا کرے اور فقیر و غریب بھی صدقہ خیرات دے پھر ان دونوں کے بارے میں فرمایا”اما غنيكم فيزكيه الله واما فقيركم فيرد الله تعالى عليه اكثر مما اعطى”(ابوداؤد) کہ اللہ تعالی اس مالدار کو تو صدقہ فطر ادا کرنے کی وجہ سے پاکیزہ بنا دیتا ہے اور جو فقیر مالک نصاب نہ ہونے کے باوجود صدقہ فطر ادا کرے اس کو اس سے زیادہ ہے عنایت فرماتا ہے جتنا اس نے صدقہ فطر کے طور پر دیا ہے یہ بشارت اگرچہ مالدار کے لئے ہے مگر اس کو فقیر کے لیے اس لیے خاص فرمایا تا کہ اس کی ہمت افزائی ہو۔
جس طرح صدقہ فطر  مالدار صاحب نصاب مردوں پر واجب ہے اسی طرح مالدار صاحب نصاب عورتوں پر بھی واجب ہے البتہ مالدار عورتوں پر صرف اپنا صدقہ فطرادا کرنا واجب ہے اس پر بچوں کا شوہر کا یا والدین وغیرہ کا صدقہ فطر واجب نہیں ہے، جب کہ مالدار مردوں پر اپنی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے اگر بچہ مالدار ہے تو اسی کے مال سے ادا کرے۔
 صدقہ فطر رمضان المبارک میں بھی ادا کرنا درست ہے  اور عید الفطر کے دن عید کی نماز سے پہلے پہلے ادا کر دینا چاہیے یہ اعلی اور افضل درجے کی بات ہے اگر کسی نے عید کی نماز سے قبل ادا انہیں کیا تو عید کی نماز کے بعد ادا کرنا ہوگا البتہ ثواب میں کمی ہوگی اور عید کے دن سے زیادہ تاخیر کرنا خلاف سنت اور مکروہ ہے لیکن پھر بھی ادا کرنا ضروری ہوگا۔
صدقہ فطر کیوں؟
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوں کو فضول و لایعنی باتوں کے اثرات سے پاک صاف کرنے اور مسکینوں کے کھانے کا بندوبست کرنے کے لیے صدقہ فطر واجب قرار دیا”عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما قال فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاه الفطر طهرا للصيام من اللغو والرفث وطعمة للمساكين”(رواه ابوداود)
مذکورہ حدیث پاک میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کے دو فائدوں اور دو حکمتوں کی طرف اشارہ فرمایا ایک یہ کہ مسلمانوں کے جشن اور مسرت کے اس دن میں غریبوں مسکینوں کی بھی خوشی میں شرکت  شکم سیری اور آسودگی کے ساتھ ہو جائے دوسرے یہ کہ زبان کی بے احتیاطی و بے باکی سے روزے کے اندر جو کمی و کوتاہی واقع ہوگئی ہے اس کا بھی کفارہ اور فدیہ ہو جائے۔ ایک حدیث میں اللہ کے نبی صلی وسلم نے ارشاد فرمایا یا”صوم شهر رمضان معلق بين السماء والارض ولا يرفع الا بزكوة الفطر”(الترغیب والترہیب جلد نمبر ٢صفحہ ١٥٧) کہ رمضان المبارک کے روزے آسمان و زمین کے درمیان معلق(لٹکے)  رہتے ہیں جنھیں اللہ کی طرف بغیر صدقہ فطر کے  نہیں اٹھایا جاتا۔ اللہ تعالی ہمارے خیر و خیرات کرنے کو قبولیتِ سے نوازے آمین ۔

Leave a Response