Saturday, July 27, 2024
Jharkhand News

لوگ چن لیں جس کی تحریریں حوالوں کےلیے

 

مولانا محمد ولی رحمانی کا اسلوب نگارش

لوگ چن لیں جس کی تحریریں حوالوں کےلیے

 🖊احمد بن نذر
 
بارہا اور جا بہ جا پڑھا،پتہ نہیں قول کس کا ہے،مگر ہے بہت مشہور سا کہ ”زندگی میں لکھنے کے قابل کچھ کر جائیے،یا پڑھنے کے لائق کچھ لکھ جائیے!“جانے اس پر کسی نے یا کس کس نے عمل کیا،لیکن میری نگاہِ نارسا کی حدود میں اگر اس قول پر پوری طرح مہر صداقت ثبت کرتی ہوئی کوئی شخصیت ہے تو وہ یقیناً مولانا محمد ولی رحمانی کی ذات گرامی ہے۔انہوں نے ایک ساتھ دونوں کام سر انجام دیئے،اور دونوں ہی میدان سر کرکے تمغۂ امتیاز اپنے نام کر لیا۔ان کے کارہائے نمایاں کی فہرست کے بارے میں کہیں تو ان ہی کی زبان اور ان ہی کے لہجے میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ: یہ فہرست بڑی ”لانبی“ ہے۔جس پر کافی کچھ لکھا گیا،اور آنے والے دنوں میں اور بھی بہت کچھ لکھا جاتا رہےگا۔

 

اس تحریر کے لکھنے والے قلم نے بھی ان کی نسبی نجابت،عالمانہ لیاقت،قائدانہ بصیرت،مدبرانہ سیاست،اور خادمانہ سیادت کا ذکر کرتے ہوئےچند سطور پر مشتمل مضمون بہ عنوان: ”کئی دماغوں کا ایک انساں:مولانا محمد ولی رحمانی“ لکھنے کی اپنی سی کوشش کی تھی،مگر مولانا کی پرکشش اور مقناطیسی شخصیت کا اثر تھا کہ ہندوستان بھر میں ہی نہیں،بلکہ دنیابھر میں جہاں جہاں آپ کے جاننے،ماننے اور چاہنے والے موجود ہیں؛شوق کی آنکھ سے پڑھا اور محبت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
 
آپ کی ہفت رنگ ہستی اور کثیرالجہات شخصیت کا تنوُّع مثالی ہی نہیں،فقید المثال بھی تھا۔آپ بہ یک وقت باوقار عالم،دوررس مفکر،دردمند قائد،باشعور مصلح،بے باک خطیب،سحرطراز ادیب،اور ان جیسے متعدد کمالات سے مزین و مرصع ایک دل نشین و دل آگین پیکر کے مالک تھے۔آپ کی تمام تر خوبیوں اور خصائص کا احاطہ یہاں ممکن ہے نہ مقصود،بلکہ رخشِ قلم کا رخ اس وقت آپ کے اُس اسلوبِ نگارش کی اُور ہے جس میں بہتے جھرنے کی سی شفافیت بھی ہے،اور امڈتے طوفان کی بلاخیزی بھی،اپنی ہی موج میں مدھم مدھم چلنے والی ندی کی سُبُک خَرامی بھی ہے،اور آسمان تخیُّل کی بلند پروازی بھی،ساحرانہ آوازے کی فن کاری بھی ہے،اور عالمانہ بینش کی فراوانی بھی،معلومات کا خزینہ بھی ہے اور افکارِ صالح کا گنجینہ بھی،اسلوب کی انفرادیت بھی ہے اور الفاظ کی مقناطیسیت بھی۔آپ نے جو بھی لکھا اُسے پڑھا نہیں،بار بار پڑھا گیا؛ آپ کی تحریر میں خواہ تاریخ کے خشک ترین صحرا کا ذکر ہو،یا قانون کی پرپیچ راہداریوں کا،فقہ کی تہ بہ تہ بھول بھلیّوں کا بیان ہو،یا حالات کے ستم ظریف دشتِ مُہیب کا تذکرہ ؛ آپ کا قلم الفاظ و معانی کو اک دوجے میں سموئے آفاقِ ادب پر اُس قوس قزح کو وجود بخشتا ہے جو اپنی بوقلمونی و رنگارنگی سے باذوق بصارتوں کو اپنی جانب نہ صرف متوجہ کرتا ہے،بلکہ لمحہ بھر کو ششدر کرکے عمر بھر کےلیے اپنا اسیرکر لیتا ہے۔

 
آپ الفاظ کو ”نثر“ کی طرح بکھیرتے نہیں ہیں،بلکہ ”نظم“ کی مانند نہایت سلیقہ مندی اور ہنروری سے چابُک دستی کے ساتھ ایک لڑی میں پروتے چلے جاتے ہیں؛الفاظ بھی وہ،کہ جن کےلیے لغات کے دفتر کھنگالنے پڑیں،نہ فرہنگ ہائے زبان کے بیابان میں آبلہ پائی کرنی پڑے،بلکہ مانوس الفاظ،سنی بلکہ بُنی ہوئی تراکیب،معلوم ضرب الامثال،مشہور اقوال کا آمیختہ عبارتیں؛جن میں ژولیدگی نہ کوئی الجھاؤ،بےربطگی نہ کھنچاؤ،مشکل پسندی نہ لسانی تناؤ،بلکہ آب زلال کی مانند راحت بخش،شیرِ مادر کی طرح مفید ترین،نسیمِ صبح کی مانند تازہ و جاں فزا،گلہائے رنگارنگ کی سی لطیف،اور غنچۂ نوشگفتہ کی کی طرح رعنا ہوا کرتی ہیں۔کہیں بوجھل پن کا احساس نہ تعب و تھکن کا گزر؛پڑھیے اور پڑھتے چلے جائیے! اک روانی جس سے ذہن و خیال کے بہاؤ کی سمت تبدیل ہو،اک رنگینی جو خلعتِ زیست کے نقش و نگار کا حصہ بن جائے،اک سِحر انگیزی جو پڑھنے والے کے حواس پر پوری طرح طاری ہو جائے،اک سرور جو قلب و نظر کو سامانِ آگہی عطا کرے،اک خوشبو جو مشامِ جاں اپنی عطر بیزیوں سے معنبر کر دے۔
 
آپ کی تحریری زندگی کی مدت،تحریکی زندگی سے بہت کم ہے؛مگر عدیم الفرصتی،ہجومِ کار اور انبوہِ مصروفیات میں سے بھی آپ قرطاس و قلم کےلیے وقت نکال لیا کرتے تھے۔آپ نے جو کچھ بھی لکھا،اسے قارئین کی طرف کبھی داد طلب نظروں سے نہیں دیکھنا پڑا،بلکہ اپنے لہجے کی ندرت،اسلوب کی یگانگت اور اندازِ تحریر کی مہارت نے خود کو اس طرح منوایا کہ پڑھنے والی نگاہیں بے ساختہ زبانِ حال سے کہہ اٹھیں:
جو بات کی،قسم سے لاجواب کی
آپ کی تحریریں افسردہ دلوں کے کےلیے طائرانِ خوش نوا کی چہک بھی ہیں،اور خرمنِ باطل کی فتنہ سامانیوں کے لیے برق ور رعد کی کڑک بھی،پژمردہ و خُفتہ ولولوں کےلیے ماءِ شافی و آبِ حیات بھی ہیں،اور منتشر اذہان کےلیےواسطۂ ارتکاز بھی۔
 
آپ کے مضامین کی تعداد تین سیکڑوں سے بھی متجاوز ہے،جن میں سیاسی،سماجی،شخصی،سوانحی،تاثراتی،دینی،قانونی،مذہبی،فکری،تعلیمی و ملی؛ہر رنگ اور ہر آہنگ کی تحریریں موجود ہیں،مگر ان سب میں قدر مشترک ہے ان کا فنکارانہ اسلوب؛جو محمد ولی رحمانی کے قلم کا حصہ بھی تھا اور اس کا خاصہ بھی۔لکھنے کے اس دھج کی نقل کی کبھی کوشش  بھی کی گئی تو بالآخر تھک ہار کے یہ کہنا پڑےگا کہ:
ہائے نہ ہوا پر نہ ہوا ”میر“ؔ کا انداز کا نصیب
 
آپ کے مضامین،مقالات،اداریے،افتتاحیے،مکاتیب،دعوت نامے،خطوط اور کتابوں کے تفصیلی تجزیے و جائزے کا موقع ہے،نہ ”ابوالکلامانہ“ روِش کی تقلید میں ”سونچنے“ اور ”لامبا“جیسے الفاظ کی درستگی و نادرستگی پر گفتگو کا کوئی محل۔سو مناسب یہی ہے کہ اسے اگلی فرصت کےلیے رکھ چھوڑا جائے اور اس اعتراف کے ساتھ رخصت لی جائے کہ مولانا محمد ولی رحمانی کا قلم بالیقین ایسا رواں،دواں،شستہ،شگفتہ،پرکشش اور دیدہ زیب ہے کہ بہ جا طور پر ابوالمجاہد زاہدؔ کی زبان میں یہی 
کہا جاناچاہئے:
لوگ چُن لیں جس کی تحریریں حوالوں کےلیے!
(ہفت روزہ نقیب کے خصوصی شمارے: “امیرشریعت سابع نمبر” کے لیے مولانا محمد شمشاد رحمانی کی تحریری فرمائش اور طلب پر لکھا گیا۔)

Leave a Response