اردو بیداری مہم کے تحت ترغیبی پروگرام کا انعقاد کیا گیا
آج مورخہ ۱۷ اکتوبر کو آزاد ہائی اسکول, کربلا چوک ،رانچی میں اردو بیداری مہم کے تحت ترغیبی پروگرام کا انعقاد کیا گیا ۔ ترغیبی پروگرام کی صدارت ماہتاب انصاری نے کی۔
آن دی اسپاٹ مضمون نویسی کے مقابلے میں *محمد معاذ انصاری ،محمد فیضان ہاشمی اور محمد شاد بالترتیب اول،دوم اور سوم آۓ۔ انہیں انجمن ترقی اردو جھارکھنڈ کی جانب سے شیریں خان ، ہیڈ مسٹریس آزاد ہائی اسکول،جمیل اصغر، سابق ریجنل ڈائریکٹر اور سمیع اللہ اصدقی، سابق ہیڈ ماسٹر اسماعلیہ اسکول اور ایم زیڈ خان ،مرکزی نمائندہ ،انجمن نے انعامات سے نواز کر طلباء کی حوصلہ افزائی کی اور مختلف موضوعات پر لکھی اردو کتابیں بچوں کے درمیان تقسیم کی گئیں تاکہ اپنی مادری زبان کے فروغ میں بچے اپنا مثبت رول ادا کرسکیں اور اپنے گھروں سے مادری زبان کو *گھر نکالا* نہ ہونے دیں۔
پروگرام میں انجمن ترقی اردو کی تاریخی حیثیت اور انجمن کی اردو خدمات کا ذکر کرتے ہوۓ انجمن ترقی اردو کے مرکزی نمائندہ ایم زیڈ خان نے کہا کہ انجمن ۱۰ ماہ سے مسلسل کوشش کر رہی ہے کہ اردو کو جھارکھنڈ میں اسکا جائز مقام ملے۔ اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ سے لیکر جھارکھنڈ کے پانچ وزرا سے انجمن کا وفد ملکر ۷نکاتی مطالبات پر مشتمل میمورنڈم پیش کر چکا ہے۔ اب سرکار کا کام ہے اس پر عمل درآمد کرنے کا۔ انتخاب کا اعلان ہوچکا ہے۔ اس درمیان اگر سرکار نے کوئی مثبت پہل نہیں کی تو انجمن اردو آبادی تک اپنی آواز پہنچانے کی کوشش کرے گی ۔ انجمن اس بات کی بھی کوشش کریگی کہ اضلاع میں انجمن کے نمائندے وفد کی شکل میں پارٹیوں کے امیدواروں سے ملکر دباؤ بنائیں اور یقین دہانی کرائیں کہ اردو کو اسکا جائز مقام دلانے میں مثبت پہل کا مظاہرہ کریں گے۔
جمیل اصغر ،سمیع اللہ خان اصدقی اور ماہتاب انصاری نے اپنی ترغیبی تقریر سے بچوں کی حوصلہ افزائی کی اور اردو کے تئیں رغبت دلائی اور کہا کہ گھروں میں بھی اردو اخبارات،اردو رسائل اور اردو کتابوں کا مطالعہ کرتے رہیں تاکہ آپکی مادری زبان محفوظ رہے ۔
پروگرام کی نظامت قربان علی نے کی اور اظہار تشکر شیریں خانم ،ہیڈ مسٹریس نے پیش کرتے ہوۓ یقین دلایا کہ ہم اردو کے فروغ میں اپنی خدمات انجام دیتے رہیں گے کیونکہ اردو محض ایک زبان نہیں ہے بلکہ ایک کلچر ہے ۔اسکے تحفظ کی ذمہداری ہماری ہے۔
موقع پر انجمن ترقی اردو رانچی کے سکریٹری محمد شکیل احمد ، عاملہ کے رکن محسن سعید، عاصمہ خاتون کے علاوہ پانچ درجن سے زائد طلباء موجود تھے۔