Ranchi News

پھونکو سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا، یونی فارم سول کوڈ کے فائدے، نقصانات اور قانونی پہلو

Share the post

 

حواری مسجد کربلا چوک رانچی کے خطیب مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی کے مایہ ناز مفتی و مدرس، قاضی شہر رانچی جھارکھنڈ سرکار حضرت مولانا مفتی محمد قمر عالم قاسمی نے آج اپنے جمعہ کے پرمغز خطاب میں یونیفارم سول کوڈ کے سلسلے میں تفصیلی اور سیر حاصل گفتگو کی انہوں نے بتلایا کہ یونیفارم سول کوڈ کا مطلب ہوتا ہے ہندوستان میں رہنے اور بسنے والے ہر شہری کے لیے یکساں قانون چاہے وہ شہری کسی بھی مذہب اور ذات سے کیوں نہ تعلق رکھتا ہو یعنی یونیفارم سول کوڈ میں شادی طلاق سمیت زمین جائیداد کی تقسیم بھی سبھی مذاہب کے لیے  یکساں قانون نافذ ہوگا۔ابھی چند دنوں قبل 22ویں لاء کمیشن اف انڈیا نے عوام تمام شہریوں مذہبی اداروں پنچایتوں انجمنوں سے یونیفارم سول کوڈ پر رائی طلب کی ہے ہمیں ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اپنا فریضہ انجام دینا چاہیے اور اپنے اپنے ارا سے لا کمیشن آف انڈیا کو مطلع کرنا چاہیے ،ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ سرکار اگر ائین ہند اور دستور کے خلاف کوئی قانون بنائے تو ہم آواز بلند کریں، یونیفارم سول کوڈ بھی ائین ہند اور دستور کے خلاف ہے اس کے خلاف اگر ہم آواز اٹھا رہے ہیں تو یہ غلط بات نہیں ہے،یہ انتہائی کھوکھلی اور بچکانہ بات ہے یونیفارم سول کوڈ ہندوستان کے مختلف فرقوں میں اتحاد پیدا کرے گا مثال کے طور پر اپ کچہری کوٹ میں چلے جائیں مسلمان مسلمان کے خلاف مدعی ہے ہندو ہندو کے خلاف مدعی ہے ان دونوں مسلمانوں کا سول کوڈ ایک ہے اور ان دونوں ہندوؤں کا سول کوڈ ایک ہے لیکن یہ مسلمان مدعی جو دوسرے مسلمان مدعی علیہ کے خلاف آیا ہے کہ اس کو ہرانے کے در پہ ہے اس کو ہتکڑی لگانا چاہتا ہے ذلیل کر کے جیل میں بند کرنا چاہتا ہے حالانکہ دونوں کا ائین اور شرعی قانون ایک ہے، حیرت ہوتی ہے کہ اس ملک میں اتنے پڑھے لکھے، سمجھدار اور دانشور قسم کے لوگ اس کو بار بار کیوں اٹھاتے ہیں اور اس کے لیے کیوں کوششیں کی جاتی ہیں۔ہمارے ملک کا مسئلہ یونیفارم سول کوڈ نہیں ہے ہمارے ملک کا مسئلہ بے روزگاری ہے ہمارے ملک کا مسئلہ مہنگائی ہے ہمارے ملک کا مسئلہ نوجوانوں کی تعلیم سے محرومی ہے ہمارے ملک کا مسئلہ صحت کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور اس کے وسائل کا فقدان ہے ہمارے ملک کا مسئلہ سیاست کی دنیا میں اخلاقی اقدار سے بالکل محروم ہو جانا اور ازاد ہو جانا ہے ہمارے ملک کے مسائل کرپشن اور اور رشوت کو ختم کرنا ہے ہماری پوری سوسائٹی کرپٹ ہو چکی ہے کوئی کام چھوٹا ہو یا بڑا زمین آپ کی انجینیئر آپ کا مزدور اور ٹھیکیدار آپ کے اینٹ بالو سیمنٹ گٹی اور چھر آپ کے لیکن مکان دکان بنانے کے لیے نقشہ چاہیے اور وہ نقشہ پاس نہیں ہوتا کیونکہ اس میں رشوت چاہیے اور کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں کرپشن نہ ہو صوبائی شعبہ جات ہوں یا مرکزی شعبہ جات ہوں ہر ہر شعبے میں کرپشن ہے۔مفتی صاحب نے آگے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ 
یونیفارم سول کوڈ کا شریعت اسلامیہ سے سیدھا ٹکراؤ 
(١)شریعت نے مرد کو انصاف کی شرط کے ساتھ ایک سے زائد نکاح کی اجازت دی ہے اور اغلب  یہ ہے کہ اس قانون میں مسلمانوں کو اس سے روک دیا جائے گا
(٢)اسی طرح شریعت اسلامیہ میں مرد کو طلاق دینے کا اختیار دیا گیا ہے اس میں عورت کا بھی فائدہ ہے اگر شوہر اور بیوی دونوں رضامند ہو جائیں بہت آسانی سے  علیحدگی کے فیصلے ہو جاتے ہیں،  یونیفارم سول کوڈ میں بظاہر طلاق کا اختیار مرد کے ہاتھ سے چھین لیا جائے گا اور عدالت کے سپرد کر دیا جائے گا جس میں عورت کی رسوائی ہوگی  کیونکہ مرد طلاق لینے کے لیے عدالت جائے گا اور اپنی بیوی کی کمزوریوں کو وہاں  بیان کرے گا جس سے اس عورت کی اس کے گھر والوں کی اس کے خاندان کی سماج کی سوسائٹی کی محلے کی بدنامی ظاہر ہے اس سے مزید اختلافات اور اندرونی دشمنی کی آگ بڑھتی اور پھیلتی چلی جائیگی۔
(٣) شریعت مطہرہ میں عورت کو میراث کا حق دیا گیا ہے بیٹی کو بیوی کو ماں کو لیکن اس کی ہم درجہ مرد رشتہ دار کے مقابلے میں اس کی میراث آدھی رکھی گئی ہے ساری مالی ذمہ داریاں مرد کے ذمے رکھی گئیں ہیں  عورت کتنی ہی مالدار کیوں نہ ہو شوہر کی پرورش اس پر واجب نہیں ہے لیکن بیوی کی پرورش شوہر پر واجب ہے چھوٹے بچوں کی پرورش باپ پہ واجب ہے اسی طرح شریعت اسلامیہ نے ایک اعتدال بنا رکھا ہے کہ ذمہ داریاں پوری مرد پر ہوں گی اور میراث کی تقسیم میں بعض حالات میں عورت کا حصہ مرد سے کچھ کم رہے گا جس میں عورت کا فائدہ ہے بہت سے معاملات ایسے ہو سکتے ہیں جس میں میراث میں مرد کو کچھ نہ ملے لیکن کفالت اور نفقہ کی ذمہ داری اس پر قائم اور باقی رہے۔
لہذا یہ یونیفارم سول کوڈ ایک ایسا معمہ ہے جو نہ سمجھنے کا اور نہ سمجھانے کا اور اس سے ملک کا ایک رتی کا بھی فائدہ نہیں بلکہ نقصانات بہت ہیں اس سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوں گے لوگ یہ محسوس کریں گے کہ ان سے ان کی شناخت چھینی جا رہی ہے ہمارا یہ ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے مختلف مذاہب اور تہذیبوں کا ملک ہے اور کثرت ہی اس کا حسن ہے اور کثرت کے باوجود وحدت ہمارے ملک کی شناخت اور پہچان ہے کیونکہ ہمارے ملک کی خصوصیت ہی کثرت میں وحدت ہے یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ سے ملک کا اتحاد بھی متاثر ہوگا لوگوں میں بغاوت کے جذبات ابھریں گے اس سے قومی سلامتی بھی متاثر ہوگی اور ہمارے ملک کی نیک نامی کے بجائے بدنامی بھی ہوگی اس لئے ہم حکومت وقت سے یہ درخواست اور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس مذموم ارادے سے باز آۓ مفتی صاحب نے مسلمانان ہند اور انصاف پسند برادران وطن سے پرزور اپیل کی کہ ہمیں بھرپور طریقے پر حکومت کے اس عزم ارادہ کی مخالفت کرنی چاہیے تمام نوجوانوں سے خصوصی گزارش کی کہ وہ اس کے لیے مستعد اور تیار ہوں گھر گھر جا کر لوگوں کو بتلائیں سمجھائیں اور لاء کمیشن کے ای میل پر یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت میں اپنی اپنی آراء پیش کرنے کے لیے ان کی مدد کریں۔
قانونی پہلو
 ہمارے ملک کے  جنگ ازادی کے مجاہدین نے جب ملک کا دستور بنایا تو اس میں اس بات کا خیال رکھا کہ تمام قومیں اپنی پہچان کے ساتھ زندگی گزاریں ہر سماج کو اپنے مذہب اور تہذیب پر عمل کرنے کی اجازت دی اور اس کے لیے دستور کے بنیادی حقوق میں دفعہ 25 اور 26 رکھی دفعہ 25 کا تعلق مذہبی ازادی سے ہے کہ ملک کے ہر شہری کو اپنے مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنے کا اپنے مذہب کی پیروی کرنے کا اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کا موقع ہوگا اور وہ اس میں ازاد ہوں گے تو اب اپ دیکھیں کہ اگر یونیفارم سول کورٹ نافذ کیا گیا تو یہ ایک بنیادی حق ہے اس حق سے لوگ محروم ہو جائیں گے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ جتنی قومیں ہیں وہ سب کے سب اس بنیادی حقوق سے محروم ہو جائیں گی۔
نوٹ: مفتی صاحب نے آخر میں یہ بتلایا کہ آج کا ہمارا یہ بیان بہت سارے اکابرین کے بیانات سے استفادہ کرکے آپ کے سامنے پیش کیا جارہا ہے

Leave a Response