روزہ کا مقصدحصولِ تقویٰ ہے،مگر یہ حاصل کیوں نہیں ہوتا
روزہ کی فرضیت کا مقصد حصولِ تقوی ہے،جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے(ترجمہ) ّاے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جیسا کہ تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا،تاکہ تم ہارے اندرتقویٰ کی صفت حاصل ہو سکے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی آیت سے تاریخ صیام کی جغرافیائی حیثیت بھی واضح ہو جاتی ہے ۔وہ اس طرح کہ مذکورہ آیت سے تین طرح کی چیزیں معلومات کا ہمسفر اور رفیق بن جاتی ہیں ۔جسکی منزل تقوی ہے۔تقوی کیا ہے؟ یہہر صاحب ایمان اچھی طرح جانتا ہے ۔اس لئے بھی کہ تمام عبادات کا خلاصہ تقویٰ ھے، اورعنداللہ تکریم کا ذریعہ بھی تقوی ہی ہے ۔ البتہ روزہ سے تقوی کیوں نہیں پیدا ہوتا؟، اس کا علم ہر عام وخاص کو نہیں ہےاور نہ اس طرف توجہ کی جاتی ہے۔جس بنا پر رمضان پر رمضان، روزہ پر روزہ ہے لیکن تقوی کا دور دور تک نام ونشان نہیں ہے۔حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلّم مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتی ہے اور ان وجوہات کو نشان زد کرتی ہے،جو مقصدِ صوم کےحصول کی راہ کا روڑا ہے۔”من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة ان يدع طعامه و شرابه ” اور دوسری جگہ “كم من صائم ليس من صومه إلا الظما “پہلی حدیث میں یہ وضاحت کر دی گئی کہ :جو روزہ جھوٹ کی آمیزش رکھتا ہو، غیبت، چغلی، دشنام طرازی سے ملوث ہوجاتا ہو اور بری بات کے ساتھ برے عمل کا حامل ہو، وہ تقوی سے خالی اور رب کریم کی خاص رضا سے عاری ہوا کرتا ہے۔نہ اس سے تقوی والی زندگی نصیب ہو سکتی ہے اور نہ آخرت کی بیش بہا فرحت مل سکتی ہے ۔معذرت کے ساتھ عامیانہ جملے میں اس کی تعبیر یہ ہو سکتی ہے کہ :دھوبی کا گدھا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا ۔دوسری حدیث ایسے روزہ داروں کے لئے یہ اعلان کر دیتی ہے کہ یہ لاحاصل کام ہے اسے بھوکا پیاسا رہنا کہا جانا چاہیے ، نہ کہ روزہ رکھنا۔
اسوقت رمضان اور روزوں کے تعلق سے سب سے بڑا المیہ یہی ہے۔سحری کی تاخیر کے فضائل، افطار کی تعجیل کے مسائل معلومات سے زیادہ معمولات میں ہیں ۔مگر ہم مسلمان روزہ کی مقصدیت سے کوسوں دور ہوتے جا رہے ہیں ۔پچاس سال سے روزہ رکھنے والا بد نصیب روزہ دار تقوی والی زندگی سے دور اوررب کریم کی رحمت سےعاری،رحمت کے عشرے میں بھی مہجور ہے-
تقوی کے معنی اور اسکے مفہوم ہم ذہن میں رکھیں تو یہ بات سمجھنا کچھ دشوار نہیں ہوگا کہ یہ تقویٰ پیدا کرنے کے لئے روزہ، قیامِ لیل اور تلاوتِ قرآن سے زیادہ مؤثر کوئی اور نسخہ مشکل ہی سے ہو سکتا ہے اوراس نسخے کے استعمال کے لئے رمضان المبارک ہی سب سے زیادہ موزوں مہینہ ہے-ہم روزہ رکھتے ہیں تو صبح سےشام تک اپنے جسم کے جائز مطالبات کو پورا کرنے سے رک جاتے ہیں-رات ہوتی ہے تو کھڑے ہو کر اس کا کلام سنتے ہیں اور مہینہ بھر میں کم سے کم پورا قرآن سن لیتے ہیں-یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ زبان نہ جاننے کی وجہ سے ہمارے پلے کچھ نہیں پڑتا، کہ آخر اللہ تعالیٰ نےان آیتوں میں ہم مسلمانوں سے کیا کہا ہے اور ہم سبھوں نے تراویح کی رکعتوں میں کھڑے ہو کر کیا سنا ہے-مگر اللہ کا منشا بالکل واضح ہے کہ اس ماہ میں ہم ایک مرتبہ قرآن کریم میں بتائی گئی ہدایت سے روشناس ہو جائیں-جواس نے قرآن کریم کی صورت میں عطا فرمائی ہے اور جس پر خود عمل کرنا اور دوسروں کو بھی اس کی طرف بلانا ہمار فرض اولین ہے-
روزہ میں،جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے، تبھی ہم کھاتے ہیں اور جب اس کا حکم رک جانے کا ہوتا ہے تو ہم رک جاتے ہیں،کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ نہ کھانا حرام ہے- اور نہ پینا حرام ہے،لیکن روزہ رکھنے کی صورت میں خدا وند عالم کی اطاعت وفرمابرداری اور اسکی رضامندی کی خاطر تمام حلال چیزیں اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں-ہم سب اس سے واقف ہیں کہ روزے کی کوئی ظاہری شکل وصورت نہیں ہے-نفس اور پیٹ میں اٹھنے والی بھوک،پیاس اور جنسی خواہش کو کوئی دوسرا دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی محسوس کر سکتا ہے-اور نہ کوئی کسی کے احساس میں شریک ہو سکتا ہے-اور ان خواہشات کو قربان کردینے کی بھی کوئی ظاہری شکل نہیں ہے-اس لئےاس ترک خواہش کو مادی پیمانوں سے نہیں ناپا جا سکتا ہے-روزہ تو خالص حضوریِ رب کے یقین پر قائم ہوتا ہے اور اسی کو راسخ کرتا ہے-اس کی یہی روح ہے-اللہ ہر وقت ساتھ ہے،ہم جہاں بھی ہوں وہ موجود ہے-دو ہو ںتو تیسرا وہ ہے اور اکیلے ہوں تو دوسرا وہ ہے-اسی لئے حدیث قدسی میں فرمایا گیا ہے کہ روزہ صرف میرے لئے ہے، صرف میں ہی اس کا بدلہ دے سکتا ہوں(بخاری ومسلم ) تقویٰ اسی ایمان کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، اسی ایمان سے غذا حاصل کرتا ہے اور اسی سے پھلتا پھولتاہے-
اللہ تعالی نے رمضان میں روزے فرض کر کے جس تقویٰ کی تعلیم دی ہے،یہ وہ تقوی ہے، جس سے ہم بحیثیت فرد کے اور بحیثیت جماعت کے اور رمضان میں نازل ہونے والے قرآن کے مشن کوپورا کرنے اور اس کا حق ادا کرنے کے اہل بن سکتے ہیں-یہ بات اس لئے جاننا ضروری ہے کہ ایسا ہوتا رہا ہےکہ روزہ رکھنے والے اور راتوں کو جاگنے والے روزہ رکھتے ہیں اور راتوں کو جاگتے رہتے ہیں-مگر ایک قدم بھی اس راہ پر نہیں چلتے، جس پر رمضان کے روزے اور تلاوت قرآن انہیں چلانا چاہتےہیں-حالانکہ اعمالِ صالحہ میں سب سے اہم عمل، فرائض میں سب سے بڑا فرض اور نفع کے لحاظ سے سب سے زیادہ خیر کثیر کا حامل عمل تو یہی ہےکہ ہم قرآن کا حق ادا کرنے کے لئےاپنے کو تیار کریں-
اس فرض کو ادا کرنے کی فکر ہم اسی وقت کر سکتے ہیں جب ہم قرآن مجید، صومِ رمضان اور تقویٰ کے با ہمی تعلق کواچھی طرح سمجھ لیں-ہم کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہیئے کہ رمضان کے مہینےمیں روزہ صرف اس وجہ سے فرض کیا گیاکہ اس مہینہ میں اللہ پاک کا کلام نازل ہوا-اس ماہ کی ساری برکت اور عظمت اس لئے ہے کہ اس میں اس نے اپنے بندوں کی ہدایت کا ارادہ فرمایا اور اپنے فضل وکرم سے اپنی ھدایت کا آخری پیغام اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے ذریعہ دنیا والوں کے حوالےکیا-
تقوی کی یہی حقیقت سامنے رکھ کر غور کیجئے-آپ فوراً سمجھ لین گے کہ تقویٰ کے لئے سب سےپہلے یہ بات ضروری ہےکہ ہم اقدار و اخلاق اور اعمال میں صحیح وغلط اور حق وباطل کا ایک مستقل ضابطہ اور معیار تسلیم کریں اور اس کی پوری پوری پابندی کریں-
اس عنوان پر اللہ ہم سبھی کو سنجیدہ ہونے کی توفیق مرحمت کرے ۔آمین
حضرت مولانا ڈاکٹر سلمان قاسمی
سابق صدر، مرکزی مجلس علماء جھارکھنڈ نیز سابق ایڈیٹر عوامی نیوز