Saturday, July 27, 2024
Jharkhand News

دس جون 2022 کا خوفناک دن اور ہمارے ملی ادارے: ڈاکٹرعبید اللہ قاسمی

 

फाइल फोटो 

10جون 2022کا خوفناک دن شاید لوگ بھول گئے ہوں لیکن اس دن شہید ہوئے ساحل اور مدثر کے والدین کو آج بھی وہ دن یاد ہے جب بھارتی جنتا پارٹی کی ترجمان نپور شرما کے ذریعہ حضور نبی اکرم صل اللہ علیہ و سلم کی شان میں نہایت ہی گستاخانہ بیان دئے جانے کے بعد ملک میں اس نفرت انگیز بیان کے مسلمانوں نے جمہوری طریقے پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا تھا تو رانچی میں بھی جمعہ کی نماز کے بعد مسلمانوں خصوصاً نوجوانوں نے بھی میں روڈ میں جلوس نکال کر اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا تھا پولس پر مین روڈ پر واقع ہنومان مندر سے فرقہ پرستوں نے مسلم مظاہرین کے اوپر پتھراؤ کردیا جس سے مظاہرہ کر رہے نوجوان بھڑک گئے, پولس نے بھیڑ کو پانی کے بوچھار, آنسو گیس اور ہوائی فائرنگ کے بجائے سیدھے مسلمانوں پر اندھا دھند فائرنگ کرنا شروع کردیا جس سے محمد ساحل اور مدثر شہید ہوگئے اور گیارہ افراد شدید طور پر زخمی ہو گئے, ان سب پر پولیس نے مقدمہ دائر کردیا اورسینکڑوں افراد کو بھی اس ہنگامہ میں شامل ہونے کا ملزم قرار دیا اور سرکار تماشائی بنی کھڑی دیکھتی رہی اور آج ایک سال گزر جانے کے بعد بھی محروم ساحل اور مدثر کے خاندان کو اب تک کوئی سرکاری سہولت اور معاوضہ نہیں ملا, الٹا درجنوں غریب مسلمانوں پر مقدمہ دائر کردیا جس سے ان کے غریب گھر والے کافی پریشان ہی

, حد تو یہ ہے کہ 10 جون کے حادثہ کے بعد ہمارے ملی اداروں کی سرد مہری اب بھی جاری ہے, امارت شرعیہ نے محمد ساحل اور مدثر کے والدین کو شہادت کے دو تین بعد پچاس پچاس ہزار روپے کا چیک دے کر دنیا کو دکھا دیا کہ ہم ہمدردی کی پوری ذمداری ادا کردی شاید یہی وجہ ہے کہ اس حادثہ کے ایک سال گزر جانے کے بعد امارت شرعیہ کے ذمے داروں نے پلٹ کر ساحل اور مدثر اور دوسرے متاثر خاندان کے لوگوں کا حال چال جاننا گوارہ نہیں سمجھا, ٹھیک یہی حال ادارہ شرعیہ اور دوسرے ملی اداروں کا بھی ہے کہ مسلمانوں پر جب کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو دو چار دس دنوں تک اس خاندان یا افراد سے ہمدردی رہتی ہے روز سوشل میڈیا پر مدد کرنے والوں اور جائے حادثہ کا دورہ کرنے والوں کی خبریں اور تصویریں چھپتی ہیں اس کے دو چار مہینوں کے بعد وہ سرد مہری چھاتی ہے کہ گویا کوئی واقعہ یا حادثہ ہوا ہی نہیں تھا, رانچی کے مین روڈ میں 10 جون کو یکطرفہ طور پر جو پولس فائیرنگ ہوئی اور اس کے نتیجے میں جس طرح مسلمانوں کو اندھا دھند گرفتارکرنے کا جو پلان اور منصوبہ رانچی پولس اپنے ہی قوم کے دلالوں اور مخبروں کے ذریعہ بنایا تھا اگر شہر کے چند ہوش مند لوگ جن کا کسی ادارہ سے کوئی تعلق نہیں تھا آگے اکر مزاحمت نہیں کرتے اور پولس انتظامیہ کے اعلی افسران سے بات چیت کر کے بے قصور مسلمانوں کی گرفتاریاں نہیں روکتے تو پولس اس حادثہ کی آڑ میں سینکڑوں بے قصور مسلمانوں کو گرفتار کر لیتی, حد تو یہ ہے کہ کہ ان گرفتاریوں کو روکنے میں امارت شرعیہ اور ادارہ شرعیہ کا کوئی رول نہیں رہا ہے, ان اداروں کی بے بسی اور پولس انتظامیہ اور سرکار کے یہاں بے وقعتی کا عالم یہ ہے کہ 10جون کے حادثہ کے بعد پٹنہ سے امارت شرعیہ کی ایک ٹیم رانچی دفتر پہنچی جس میں حضرت مولانا سید ولی رحمانی علیہ الرحمہ کے تکیہ کے نیچے سے پیدا نائب امیر شریعت اور دو افراد تھے, رانچی دفتر میں شہر کے ذمے دار لوگوں کے ساتھ حادثہ سے متاثر لوگوں کی امداد کے سلسلے میں بات چیت ہو رہی تھی کہ کسی مخبر نے پولس کو اطلاع کردی کہ امارت شرعیہ کے دفتر میں میٹنگ ہورہی ہے بس کیا تھا لور بازار تھانہ کے تھانیدار دفعہ 144 کا بہانہ بناکر امارت شرعیہ کے ذمے داروں پر برس پڑے اور گرجنے لگے, تھانیدار کی گھن گرج سے ڈر کر اچھے اچھے لوگ دیوار پھاندار کر بھاگ گئے حتی کہ رانچی امارت شرعیہ کے قاضی صاحب بھی اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے, نائب امیر شریعت کی ڈر کے مارے ہوا نکل چکی تھی اور پسینے چھوٹ رہے تھے, صرف میں ڈاکٹر عبید اللہ قاسمی اور مفتی عبد اللہ ازہر قاسمی اڑے رہے اور اس کے بعد میں اور سابق وارڈ پارشد صلاح الدین عرف سنجو نے بڑھتے ہوئے معاملے کو مزید بڑھنے نہیں دیا اور معاملے کو ختم کرایا تب بھیڑ ختم ہوئی, یہ تو ہمارے ملی اداروں کے ذمے داروں اور رہنماؤں کا حال ہے کہ پولس کے سامنے بے خوف ہو کر بات کرنے اور مسلمانوں کی طرف سے نمائندگی کرنے کی صلاحیت نہیں ہے,اس سے بڑی بد قسمتی اور بے عزتی کیا ہوگی کہ امارت شرعیہ کے دفتر میں پولس داخل ہو گئی اور مرکز سے آئے نائب امیر شریعت بھیگی بلی بن کے بیٹھے رہے, اسی موقع پر تکیہ کے نیچے سے نکلے نائب امیر شریعت نے اعلان کیا تھا کہ جتنے بھی مسلمان گرفتار ہوئے ہیں یا جن جن پر مقدمہ درج ہوا ہے ان کا کیس امارت شرعیہ لڑے گی اور پولیس ظلم کے خلاف امارت شرعیہ قصور وار پولس افسران کے خلاف مقدمہ درج کرائے گی لیکن نہ تو امارت شرعیہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور نہ ادارہ شرعیہ نے اور نہ ہی دوسری ملی تنظیموں اور اداروں نے, آج اس واقعہ کو ایک سال بیت گئے لیکن کوئی کسی کا پرسان حال نہیں ہے
حضرت مولانا ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی سابق جنرل سیکرٹری مرکزی مجلس علماء جھارکھنڈ ۔ 7004951343

Leave a Response