Jharkhand News

دست طلب بڑھاؤ کہ رمضان آگیا

Share the post

🖋️فضیل اختر قاسمی بھیروی

  جس طرح موسم بہار میں درختوں کی شادابی قابل دید ہوتی ہے، خوش رنگ پرندوں کی چہچہاہٹ کانوں میں رس گھولتی اور ذوق سماعت کو آسودگی بخشتی ہے، کھیتوں کی از کراں تا کراں پھیلی ہوئی ہریالی نگاہوں کو دعوت نظارہ دیتی اور آنکھوں کو سرور عطا کرتی ہے اور جس طرح ایک عرصے سے بنجر پڑی ہوئی زمین میں یک لخت زندگی کے آثار رونما ہونے لگتے ہیں، بالکل اسی طرح سال کے بارہ مہینوں میں رمضان المبارک کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ روحوں کی شگفتگی و شادابی کے ہزار سامان لے کر آتا ہے، اس مہینے میں قلوب کی تنویر اور اذہان کی تطہیر ہوتی ہے اعمال کی اصلاح اور نیتوں کے اخلاص کا اس سے زیادہ ساز گار موسم کوئی نہیں ہو سکتا، یہ اسی مہینے کا خاصہ ہے کہ اس میں خیر و فلاح کے تمام ابواب کھل جاتے اور شر و فساد کے تمام دروں کو مقفل کر دیا جاتا ہے، نیک اعمال کے اجر و ثواب میں بے پایاں اضافہ کر دیا جاتا اور بارگاہ رب العالمین سے ہر لمحہ غفران ورضا مندی کا عام اعلان ہوتا رہتا ہے، جو صالحین میں مزید طاعت و عبادت کا جذبہ پیدا کرتا اور شر پسندوں میں انابت الی اللہ کی خو پیدا کرتا ہے؛ چنانچہ اس مہینے میں مسجدیں بہ کثرت معمور رہتیں، اکثر و بیشتر لوگ تلاوت قرآن میں مصروف رہتے اور زیادہ سے زیادہ امور خیر کی انجام دہی میں اپنی بخت آوری سمجھتے ہیں۔ 
رمضان المبارک کا مہینہ ذاتِ حق جل مجدہ کی جانب سے عطا کردہ عظیم نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے, یہ روحانیت اور نیکیوں کے موسم بہار کا مہینہ ہے اس میں گناہ جھڑتے اور خیر و بھلائی کی تازہ کونپلیں پھوٹتی ہیں، مغفرت کی ہوائیں چلتی اور رحمت کی پھوار برستی ہے، نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی مشق کرائی جاتی ہے اور روحانی آلائشوں کی صفائی ہوتی ہے، بھلائی کی قوت اور استعداد منجھ کرنکھرتی ہے، یہ آخرت کی کمائی اور نیکیاں سمیٹنے کا خاص سیزن ہوتاہے، نوافل پر فرض کا اجر ملتا ہے اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اس عظیم مہینہ کو ”سید الشہور“ یعنی تمام مہینوں کا سردار کہا جاتا ہے.ماہ رمضان کو اللہ کے کلام سے خاص مناسبت ہے، تمام آسمانی کتا بیں اسی ماہ میں نازل ہوئیں، امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں حضرت واثلہ ابن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ صحائف ابراہیمی پہلی رمضان ، تو رات چھ رمضان، انجیل تیرہ رمضان ، زبور بارہ رمضان اور قرآن کریم چوبیس رمضان کو نازل ہوا۔ قرآن کریم کی مشک بو تلاوت صرف عالم اسلام ہی نہیں، ساری دنیا میں گونجنے لگتی ہے، کیا دشت و کہسار اور کیا شہر و دیہات .... اللہ کے مقدس کلام کی خوشبو سے ساری کا ئنات معطر رہنے لگتی ہے۔

حضور صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے ، صبر سے مراد نفسانی خواہشات کو دبانا اور بھوک و پیاس کی مشقت کو برداشت کرنا ہے۔ طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک مومنین مخصوص صبر کے یہ مراحل طے کرتے ہیں۔
خود انسان بھوک و پیاس کی تکلیف برداشت کرتا ہے، تب مستقل فاقہ کرنے والوں کے درد کا احساس
جاگتا ہے ، ضعیفوں کی بے بسی اور محتاجوں کے غم کی کسک محسوس ہونے لگتی ہے ، یوں ہمدردی اور غم خواری کا اخلاقی وصف دلوں میں پیدا اور بیدار ہو جاتا ہے ، اس لیے اسے غم خواری کا مہینہ کہا گیا، اس ماہ مبارک کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ آتش دوزخ سے خلاصی کا ہے۔
مزید برآں اسی ماہ میں ان گنت برکتوں اور بے شمار رحمتوں کی حامل رات ”لیلۃ القدر“ آتی ہے، جس کی فضیلت و اہمیت سے متعلق قرآن کریم میں پوری ایک سورہ نازل ہوئی اور جسے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا۔
ہزار مہینوں میں تقریبا تیس ہزار راتیں اور تر اسی سال آتے ہیں۔ بہتر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت پر فائق ہے، اس میں قرب الہی کی جتنی منزلیں طے ہو سکتی ہیں، دوسری ہزار راتوں میں بھی طے نہیں ہو سکتی، اس قدر و منزلت اور برکت و عظمت والی رات کی تاریخ کی تعیین نہیں کی گئی لیکن اکثر روایتوں میں ہے کہ یہ رمضان کے آخری عشرہ کی کوئی رات ہے اور صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نقل کیا کہ شب قدر کو رمضان کے آخری حصے کی طاق راتوں میں تلاش کرو یعنی اکیسویں، تیئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں رات میں سے کوئی لیلتہ القدر ہو سکتی ہے۔
یہ دریائے رحمت کے جوش اور انوار و برکات کے شباب کا عشرہ ہوتا ہے ، اسی میں اعتکاف سنت پر عمل ہوتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ویسے تو سارے رمضان میں سراپا بندگی اور محو عبادت و تلاوت رہتے لیکن آخری عشرے کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں … ”شد مئزره و احیالیله وايقظ اهله“ … آپ کمر کس لیتے ، اپنی راتیں زندہ کرتے اور گھر والوں کو بھی ( عبادت اور رحمتیں سمیٹنے کے لیے) جگاتے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں ہر رات اللہ کا منادی پکارتا ہے …. ”يا باغي الخير اقبل و يا باغي الشر اقصر“ … اے خیر و نیکی کے متلاشی ! آگے بڑھ اور اے شرو بدی کے خواہش مند ! رک جا… اس ماہ بڑے بڑے شیاطین کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے اور یوں نفسانی حربوں کی اندھیر نگری میں سچی حقیقتیں آشکارا ہوتی ہیں اور نفس کو پچھاڑنا آسان ہو جاتا ہے، اس ماہ کے اعمال ، اس کی روحانیت، اس کا پر نور ماحول اور اس کی بابرکت فضا تقوی اور باطنی پاکیزگی کی مسافتیں طے کرانے میں اکسیر کا درجہ رکھتی ہے، اس کے لمحے دنوں پر اور اس کے دن برسوں پر بھاری ہیں، قرآن کریم نے ”لعلكم تتقون“ …. (شاید تم پر ہیز گار بن جاؤ )…. کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
لفظ تقوی ایک شرعی اصطلاح ہے اور اپنے جلو میں معانی ومفاہیم کی وسیع تر کا ئنات رکھتا ہے مختصر تعبیر میں اس کی تشریح یہ ہو سکتی ہے کہ بندے کا ہر مامور بہ کو بلا چوں و چرا بجالانا اور ہر منہی عنہ سے اجتناب کرنا، گویا اللہ نے رمضان کے روزے کو اس لیے فرض کیا ہے کہ بندہ امور خیر کی انجام دہی کا عادی ہو جائے اور امور شر سے نفرت اس کے قلب و دماغ میں جاگزیں ہو جائے ، اسی طرح شہوانی و حیوانی قوتوں کو مغلوب کر کے اپنے اندر ملکوتی اوصاف پیدا کرلے اور انھیں نمایاں کرنے کی تگ
و دو اس کا لازمہ حیات بن جائے۔
آج عالم اسلام کے رستے زخموں کا ایک سبب عام مسلمان کا گناہوں میں غرق ہونا اور اللہ کی نافرمانیوں کی دلدل میں پھنسنا بھی ہے ، مسلمان اگر صحیح معنوں میں مسلمان بن جائیں ، ان کی زندگیوں میں اسلامی اعمال کا نور آجائے ، وہ ایمان کے عملی تقاضوں کو واقعتا پورا کرنا شروع کر دیں اور وہ غفلت کے اندھیروں میں اسوۂ نبویہ کے موافق عمل صالح کا چراغ روشن کر دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ صنعت و معیشت اور قلت عدد و عدد (بضم العین) کے باوجود زوال و انحطاط کی پستیوں سے نہ نکل سکیں، انہیں ان کا کھویا ہوا مقام مل سکتا ہے، ان کا خوف امن سے، ان کی مرعوبیت رعب سے اور ان کا زوال وادبار، ترقی و اقبال سے بدل سکتا ہے کہ یہ قرآنی وعدہ ہے اور قرآن کا وعدہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔
ماہ مبارک میں رحمت الہی کو انتظار رہتا ہے کہ کسی عاصی کسی نا فرمان اور کسی بھی روسیاہ ظالم کی زبان سے بخشش کا نالہ بلند ہو ، دل سے آہ اٹھے تو اس کا دامن مرادوں سے بھر دیا جائے اور اسے مغفورین بندوں کی فہرست میں شامل کر دیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
”الصوم لی و انا اجزی بہ“
”بندہ میرے لیے روزہ رکھتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا“۔
اب آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس چیز کا صلہ اور بدلہ خود ذات حق جل مجدہ اپنی جانب سے بطور وعدہ فرمارہے ہیں یوں تو تمام چیزوں کا صلہ اور بدلہ اللہ ہی دیں گے لیکن اس رمضان المبارک کے روزہ کے سلسلہ میں اللہ نے خود فرمایا کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کو اپنی جانب سے جزا اور بدلہ دونگا.
یہ ہمارے لیے بڑی سعادت کی بات ہے کہ رمضان المبارک جیسا مبارک مہینہ ہزاروں بہاروں کو لیے ہوئے ہمیں اور آپ کو میسر ہوا ہے. اگر کوئی بے نوا اس ماہ بھی معاصی سے باز نہ آئے ، رحمتوں کی یہ فصل بہار اس کے دامن میں اجالا نہ کر سکے اور ان بابرکت ایام میں بھی وہ اپنے کرتوتوں کی سیاہ روش تیاگنے پر تیار نہ ہو۔ ماہ مبارک گزر جائے لیکن رحمت کے دامن سے چمٹ کر وہ اپنے لیے مغفرت کا پروانہ حاصل نہ کر سکے تو افسوس ہے ایسے شخص کی بدبختی اور شقاوت پر حضرت جبریل علیہ السلام نے ایسے نامراد کی تباہی اور بربادی کی بددعافرمائی اور زبان رسالت نے اس پر آمین کہا۔
اہل دل اس ماہ کے ایک ایک لمحہ کی قدر کرتے ہیں ، ان کے لیل و نہار میں آہوں کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے اور ان کے اشک ندامت ، دل کی کدورتوں کو بہاتے دکھائی دیتے ہیں، امام اعظم امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ماہ رمضان میں ٦١ قرآن کریم ختم کرنے کا اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ساٹھ بارختم کرنے کا معمول تھا۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ تیس مرتبہ ختم کرتے تھے اور روزانہ دس پندرہ پارے پڑھنا تو عام معمول رہا ہے کہ رمضان نزول قرآن کی سالگرہ اور کلام الہی کے جشن عام کا مہینہ ہے۔ بلاشبہ مومن کے لیے اس ماہ کا ہر روز ، روز عید اور ہر شب، شب قدر ہے ، کیا ہے کوئی قدردان؟اللہ کرے کہ یہ مقدس ساعتیں بار بار میسر ہوں.
اللہ تعالیٰ اس ماہ مبارک کو ہم سب کیلئے خیر کا ذریعہ بنائے‌، اور اس مبارک مہینہ کے صدقے اہل فلسطین و اہل غزہ کی غیبی مدد و نصرت فرمائے اور انہیں فتح مبین و ظفر کامل سے ہمکنار فرمائے۔ آمین یارب العالمین

Leave a Response