Saturday, July 27, 2024
Dhanbad News

مولانا محب اللہ لاری ندوی ایک مثالی منتظم ومربی: از ۔ آفتاب ندوی دھنباد

 

        ندوۃ العلماء کے نامور  مہتمم (زمانۂ اہتمام 1969تا1993) مولانا محب اللہ صاحب لاری رح( 1905– 1993)کی حیات وخدمات پر (مولانا محب اللہ لاری ندوی علیگ -حیات وخدمات  ) کے نام سےابھی چند روز پہلے ایک  کتاب چھپ کر منظر عام پر آئی ہے ، کئ سالوں سے اس کتاب کا شدت  سے انتظار تھا ، اس کتاب کی اہمیت کے کئی اسباب  ہیں ، مولانا لاری کا چوبیس سالہ دور اہتمام ندوہ کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ھے ، مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رح کا یہ دور نظامت ھے ، اسی زمانے میں ملک وبیرون ملک  ندوۃ العلماءکو بے مثال ہر دلعزیزی ومقبولیت حاصل ھوئی ،‌مادی ومعنوی اعتبار سے ندوہ کا اس عہد کو عہد زریں کہا جاسکتا ھے ،‌عہد شبلی کے بعد ندوہ کا یہ تابناک دور ہے ،  جن لوگوں نے اپنے کو وقف کرکے ندوہ کو اس مقام تک پہنچانے میں  اہم رول ادا کئے ان میں ایک نمایاں نام مولانا محب اللہ صاحب  لاری کا ھے ، مولانا لاری  مولانا علی میاں صاحب ندوی کے کلاس فیلو تھے ، دوسرے رفقاء میں مشہور مصنف مولانا عبد السلام صاحب قدوائی ،مولانا عمران خان از ھری ، عربی کے 
معروف ادیب و مصنف   مولانا مسعود عالم ندوی عظیم آبادی ، اردو کے ممتاز ادیب ومصنف  رئیس احمد جعفری ، عربی کے شاعر و ادیب مولانا ناظم ندوی جیسے اہل علم و دانش  شامل ہیں  ،‌یہ کتاب تقریبا سو لوگوں کے مضامین کا گلدستہ ھے ، مولانا علی میاں صاحب ندوی رح ، مولانا سید رابع صاحب  ندوی ، ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی ، مولانا مجیب اللہ ندوی  رحمہم اللہ کی بیش قیمت تحریر وں کے ساتھ ان فضلاء ندوہ کے بھی  مضامین  شامل ہیں جنکی فراغت ندوہ سے مولانا لاری کی وفات کے بعد ھوئی  ،   کتاب کی تکمیل وطباعت میں تاخیر کی وجہ سے بہت سے لوگ جنکے مضامین شامل کتاب ہیں خود جنت مکانی ھوگئے  ، مرتب اول پر وفیسر جاوید لاری صاحب کی اہلیہ بھی کتاب کو مطبوعہ شکل میں دیکھنے کی آرزو لے کر موت کی آغوش میں چلی گئیں ، 
مولانا رابع صاحب ندوی رح کا مضمون کے علاوہ  مقدمہ بھی زینت کتاب ھے ، مولانا سید محمد حمزہ حسنی ، مولانا مجیب اللہ ندوی  ، مولانا ضیاء الدین اصلاحی ،مولانا نذر الحفیظ صاحب ندوی ۔ جناب امین الدین شجاع الدین صاحب  ،مولانا سید  عبد الرشید ندوی ،مولانا حشمت اللہ ندوی ، مولانا محمد حنیف ملی اور   ڈاکٹر اسرار الحق لاری کی تحریریں کتاب کو وقیع بناتی ہیں ، لیکن افسوس کہ انہوں نے
 اللہ کے بلاوے پر کتاب کے چھپنے سے پہلے ہی اس دنیا کو چھوڑ دیا ،
 ، اللہ ان سب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء کرے , مولانا عبد العلی فاروقی ، مولانا عبدا لمتین منیری بھٹکلی مقیم دبی ، ڈاکٹر خلیل الدین شجاع الدین کناڈا جیسے 

 اہل دانش کی تحریروں سے بھی  کتاب مزین ہے  ، ندوہ العلماء کے مہتمم مولانا ڈاکٹر سعید الاعظمی ندوی مدظلہ اور ڈاکٹر اکرم صاحب ندوی لندن کے مختصر عربی مضمون بھی شامل کتاب ہیں ، 
اس کتاب سے لاری صاحب کی زندگی کے کئ ایسے پہلو 
سامنے آتے ہیں جن سے خود بیش تر ندوی ابتک ناواقف تھے ، مثلا ندوہ کے اہتمام سے پہلے لاری صاحب کارو بار کرتے تھے ، ترجمان کے نام سے ایک اردو پرچہ بھی کچھ دنوں تک نکالا ،‌ ندائے ملت جیسے معیاری پرچہ کی ادارت کی کچھ دنوں تک ذمہ داری بھی نبھائی ، مرتب کتاب نے یہ بہت اچھا کیا کہ  مرحوم کے کچھ مضامین اور کچھ خطوط بھی شامل کر دئیے ،‌مرتب ثانی ڈاکٹر جمشید ندوی نے ترتیب وتدوین کے علاوہ انکا  سوانحی خاکہ بھی بڑی عرق ریزی  سے مرتب کیا ہے ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں مرحوم نے کب داخلہ لیا ، اور کتنے دنوں تک وہاں قیام کیا۔ وہاں کس مضمون میں ایم اے کیا ،‌ یونیورسٹی کے ریکارڈ سے نوجوان اسکالرنے ان سارے سوالات کے جوابات ڈھونڈ نکالے –
اہتمام کا عہدہ سنبھالتے ہی مولانا لاری صاحب کو طلبہ کی طرف سے اس مشہور اسٹرائک سے سابقہ پڑا جس کے بعد پھر کبھی اسٹرائک سے ندوہ نہیں گزرا ، اس سلسلہ میں حضرت  مولانا  رح کی ایک اور  مولانا لاری  رح کی دو  تفصیلی رپورٹیں بھی کتاب کا حصہ ہیں ، ان سے اسٹرائک کے اسباب و محرکات اور اور اسکے بعد تعلیم وتربیت کیلئے ماحول کو ساز گار بنانے کیلئے مہتمم صاحب کی طرف سے کئے گئے اقدامات کا 
 علم  ہوتا ہے ،، مضمون نگاروں نے سب سے زیادہ   مرحوم کے زمانۂ اہتمام پر فوکس کیا ھے ، اور اسکا یہ حق بھی تھا کہ انکے تمام کارناموں میں ندوہ کا کار اہتمام گل سرسبد کی حیثیت رکھتا ہے ، 
بیشتر مضامین میں انکے کار اہتمام کے انداز واسلوب ، طلبہ کے تئیں شفقت و ہمدردی کے ساتھ نظم وضبط کے معاملہ میں  سختی ، سب کے ساتھ یکساں سلوک  ،  طلبہ میں انکی  عزت وتکریم کے ساتہ رعب ودبدبہ ، انکی نستعلیقیت و وضعداری ، جماعت کی پابندی وغیرہ کا اپنے اپنے انداز میں ذکر کیا ھے –
 670 صفحات کی یہ کتاب ندوہ سے تعلق رکھنے والوں کیلئےبطور خاص ایک قیمتی   سوغات ہے جبکہ تعلیم و  تعلم اور انتظام وانصرام سے وابستگی رکھنے والے تمام لوگوں  کیلیے بھی ایک  بیش قیمت اور سبق آموز کتاب ھے ، یہ کتاب ایک ایسی شخصیت  کی داستان حیات  ھے جو کئ اعتبار سے عظیم اور مثالی شخصیت تھی ، مرتب اول  حکیم جاوید احمدلاری مولانا محب اللہ صاحب لاری کے سگے نواسے ہیں ، انہیں نانا سے عشق ھے ،اور یہ کتاب اسی عشق اور والہانہ لگاؤ کا نتیجہ ھے ، ملک کے علاوہ کناڈا ، برطانیہ ، جاپان ،  دبی ، ابو ظبی ، بحرین اور عمان وغیرہ سے  مضامین حاصل کرنا کتنا دشوار ہے یہ وہی لوگ جان سکتے ہیں جنہوں نے کبھی یہ کام کیا ھوگا ، حکیم صاحب کی ہمت کی داد دینی ہوگی کہ اس  مشکل کام کو انہوں نے کر دکھایا ، اہل علم وادب کی طرف سے بجا طور پروہ شکریہ کے مستحق ہیں ، 
مرتب ثانی ڈاکٹر جمشید احمد ندوی جون پوری پرو فیسر ممبئی یونیورسٹی بھی ہمارے شکریہ کے حق دار ہیں کہ انکی  محنت و کاوش سے کتاب کی قدر وقیمت میں اضافہ ہوا  ، انہوں نے بحث وتحقیق اور تصنیف وتالیف کے میدان میں اپنے تجربات  سے فائڈہ اٹھاتے ھوئے مضامین کی  ترتیب وتبویب   میں دل کشی پیدا کردی ، کاغذ  وطباعت ادنی کے مقابلہ میں اعلی ھے ، کتابت میں صحت کا خاص خیال رکھا گیا ھے ، پروف ریڈنگ محنت سے کی گئ ھے ، ان بے شمار خوبیوں کے باوجود قیمت صرف تین سو روپے ،،،  
آفتاب عالم ندوی دھنباد ،
23/جولائی بوقت نصف شب 2023 موبائل 7004464267،،،8002300339

Leave a Response