All India NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand News

مولانا عبد الغنی صاحب کی شخصیت اور ان کی خدمات ( ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی )

Share the post

رانچی شہر میں کئی ایسے علماء گزرے ہیں جنہوں نے اپنی ہمہ گیر شخصیت اور اپنے کردار و عمل کے گہرے نقوشِ چھوڑے ہیں جنھیں بھلایا نہیں جاسکتا ہے ، انھیں میں ایک اہم اور نمایاں شخصیت حضرت مولانا عبد الغنی صاحب علیہ الرحمہ تاج بک ڈپو والے کی ہے ، مولانا عبد الغنی صاحب بنیادی طور پر شیخ پورہ ضلع مونگیر ، بہار کے رہنے والے تھے ، جن کی پیدائش غالباً 1925 میں ہوئی تھی ، ابتدائی تعلیم شیخ پورہ میں ہی اپنے والد محترم مولوی عبد الحمید صاحب سے حاصل کی ، 1942–43 میں بہار شریف کے مشہور و معروف ادارہ مدرسہ عزیزیہ سے فراغت حاصل کی ، 1949 میں آپ مع اہل و عیال رانچی تشریف لے آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے ، آپ نے اپنے اخلاق و عمل اور کردار کی بنیاد پر تمام مسالک کے علماء و عوام کے نزدیک ہردلعزیزی کا وہ مقام حاصل ہے جو کم ہی لوگوں کو حاصل ہوتا ہے ،

رانچی تشریف لانے کے بعد آپ سب سے پہلے ” مدرسہ فاروقیہ” میں درس وتدریس کی ذمےداری سے وابستہ ہوگئے ، مدرسہ فاروقیہ مین روڈ پر واقع جناب حبیب الرحمن خان بہادر صاحب کے مکان کے پیچھے انہیں کی دیکھ ریکھ اور سرپرستی میں چلتا تھا جس میں ہند پیڑھی ، کلال ٹولی ، کونکا روڈ اور کربلا چوک کے بچے کافی تعداد میں پڑھتے تھے ، خان بہادر حبیب الرحمن صاحب اور ان کے اہل و عیال کی سرپرستی میں چلنے والا یہ مدرسہ کافی عرصے تک علاقائی بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہترین تعلیمی ادارہ رہا تھا معلوم نہیں وہ مدرسہ بعد میں کیوں بند ہوگیا یا بند کر دیا گیا ، آج تو بہت سارے لوگوں کو اس کا علم بھی نہیں ہوگا کہ تسلیم محل میں ” مدرسہ فاروقیہ” نام کا کوئی تعلیمی ادارہ بھی چلتا تھا ، مولاںا عبد الغنی صاحب کے جناب حبیب الرحمن خان بہادر صاحب سے بہت گہرے مراسم اور تعلقات تھے ، خان بہادر صاحب بھی مولانا کا بہت اکرام واحترام کرتے تھے ، مدرسہ فاروقیہ کے بعد مولانا عبد الغنی صاحب نے کلال ٹولی رانچی میں واقع ” مدرسہ عراقیہ” میں پڑھانا شروع کیا ، اس مدرسہ عراقیہ میں بھی مولانا نے کافی عرصے تک تدریسی خدمات انجام دیا ہے ، بعد یہی ” مدرسہ عراقیہ” بدلتے ہوئے حالات اور تقاضے کی بنیاد پر ” عراقیہ اسکول ” میں تبدیل کردیا گیا اور اس کا نام ” عراقیہ مڈل/ ہائی اسکول” کردیا گیا جو آج بھی اسی نام سے چل رہا ہے ،

مدرسہ عراقیہ چھوڑنے سے پہلے مولانا نے تمام طلباء کو جمع کیا اور ان کے ہاتھوں میں وہ چھڑی دی جس سے وہ طلباء کو سبق یاد نہیں کرنے کی وجہ سے مارا کرتے تھے ، طلباء سے کہا کہ میں نے تم لوگوں کو اس چھڑی سے جتنا مارا ہے آج تم لوگ اسی چھڑی سے مجھے مار کر اپنا بدلا لے لو ، مولانا کے اس عمل سے طلباء مولانا سے لپٹ کر زاروقطار رونے لگے ، یہ تھا مولانا کا اپنے طلباء کے ساتھ مربیانہ اور مشفقانہ انداز ، مدرسہ عراقیہ چھوڑنے کے بعد مولانا عبد الغنی صاحب اپر بازار رانچی میں واقع مولانا ابوالکلام آزاد کا قائم کردہ اور انجمن اسلامیہ رانچی کے ماتحت چلنے والا ” مدرسہ اسلامیہ رانچی” میں درس وتدریس کی خدمات سے منسلک ہوگئے ، کافی عرصے تک طلباء آپ کی علمی صلاحیتوں سے فیضیاب ہوتے رہے ، آپ کے پڑھانے اور سمجھانے کا انداز نرالا تھا جن لوگوں نے مولانا عبد الغنی صاحب سے مدرسہ اسلامیہ رانچی میں پڑھا تھا ان کا بیان ہے کہ مولانا ایک ایسے استاذ تھے جن سے طلباء بہت مانوس رہتے تھے ، آپ کا پڑھایا ہوا سبق بہت جلد یاد ہوجاتا تھا ، پڑھانے کے دوران ہمیشہ آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہوتی تھی تاکہ طلباء لاابالی پن اور بے راہ روی کا شکار ہونے سے بچیں ، آپ نے مدرسہ اسلامیہ میں تدریسی خدمات انجام دینے کے ساتھ ہی فٹ پاتھ پر کتابوں کی چھوٹی موٹی تجارت شروع کی ، چونکہ آپ کے زمانے میں مدرسہ اسلامیہ رانچی کو سرکاری منظوری نہیں ملی تھی اس لئے سرکاری تنخواہ بھی نہیں ملتی تھی ، انجمن اسلامیہ رانچی کی جانب سے جاری معمولی تنخواہ سے اہل وعیال کی عدم کفالت اور ان کے بہتر مستقبل کی خاطر مدرسہ اسلامیہ کی تدریسی ذمےداری سے فارغ ہونے کے بعد بقیہ اوقات میں مولانا عبد الغنی صاحب نے مین روڈ ٹیکسی اسٹینڈ کے بالکل سامنے نور بلڈنگ کے کونے میں ٹاٹ کی بوری بچھا کر کتاب بیچنا شروع کردیا ، کافی عرصے تک آپ اسی جگہ اور اسی انداز میں کتابیں فروخت کرتے رہے ، آخر ایک وقت ایسا آیا کہ اللہ کے فضل و کرم سے سڑک کے کنارے کتاب کی اس چھوٹی سی تجارت کو مین روڈ اردو لائبریری کے نزدیک دوکان حاصل ہوجانے کے بعد ” تاج بک ڈپو” کے نام سے وہ شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی کہ لوگ ہر طرح کی کتابوں کے لئے تاج بک ڈپو سے رجوع کرنے لگے ، جب اسکولوں میں داخلے کا سلسلہ شروع ہوتا تھا تو اپنے بچوں کے لئے اسکول کی کتابیں لینے کے لئے تاج بک ڈپو میں بھیڑ لگی رہتی تھی اور کمال تو یہ تھا کہ تاج بک ڈپو میں ہر طرح کی کتابیں دستیاب رہتی تھیں

، دینی کتابوں کا تو گویا مرکز تھا تاج بک ڈپو ، مولانا کی یہ دوکان صرف کتاب دوکان نہیں تھی بلکہ وہ علماء کرام اور اہل علم کی آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کا ایک بہترین سنٹر تھا ، جس میں فضول اڈہ بازی نہیں بلکہ علمی گفتگو ہوتی تھی ، پیچیدہ علمی مسائل حل ہوتے تھے ، سنجیدہ علمی طنزو مزاح بھی ہوتا تھا جس سے ایک علمی کیف و سرور کا لطف آتا تھا ، آج کل کے بعض خود غرض ، مفاد پرست اور حاسدین مولویوں کی طرح نہیں کہ جب بھی ایک جگہ جمع ہوئے تو دوسرے کی غیبت اور عیب جوئی ہی کی ،مولانا کی دوکان تاج بک ڈپو میں بیٹھنے والا علمی فائدے سے خالی نہیں رہتا تھا ،مولانا کا اخلاق و کردار ایسا تھا کہ ہر مسلک کے علماء اور اہل علم ان کی دوکان تاج بک ڈپو میں آتے اور بیٹھتے تھے ، مولانا کی صحبت میں بیٹھتے اور مولانا کی گفتگو سے فیضیاب ہوتے تھے ، مولانا کی مجلس میں مسلکی بحث و مباحثہ اور مسلکی تعصب کا کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا ، اس دوکان میں بیٹھنے والوں کی مولانا نے کبھی دل شکنی نہیں کی ، ان سب کے باوجود مولانا اہنے عقیدے اور ایمان میں بہت مضبوط تھے ، اپنے عقیدے اور اپنی فکر کے ساتھ انھوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ، مولانا کے اخلاق کا عالم تو یہ تھا بہت سارے لوگ کتابیں آدھا لے جاتے اور مولانا خوش دلی کے ساتھ دے بھی دیتے تھے ، کئی لوگ وعدے کے مطابق ادھار کی رقم ادا کردیتےتھے اور کئی لوگ تو ادھار لے کر رقم دینے کا نام نہیں لیتے تھے لیکں جب ایسے لوگوں سے ملاقات ہوتی یا جب وہ سامنے اتے تھے تو مولانا کبھی ان سے ادھار کی رقم کا خود سے کبھی مطالبہ نہیں کرتے تھے تاکہ انھیں شرمندگی کا احساس نہ ہو اور ان کی عزت نفس کو کہیں ٹھیس نہ پہنچے ، ایسے لوگ بھی مولانا کے اخلاقی خوبیوں سے اچھی طرح واقف تھے ،

آج بھی اگر مولانا عبد الغنی صاحب کے دور کی ادھار کی لسٹ ان کے لڑکے مولانا عبد المغنی صاحب یا مولانا عبد الباقی صاحب سے مانگ کر دیکھی جائے گی تو بہت سارے لوگوں کے نام نکل آئیں گے جنھوں نے اب تک ادھار کی رقم ادا نہیں کیا ہے ، مولانا کے اخلاق کا دوسرا بڑا واقعہ یہ ہے کہ مولانا نے اپنے اور اپنے ملازمین کی خاطر تاج بک ڈپو دوکان کے پیچھے بیت الخلا بنا رکھا تھا لیکن شہر رانچی اور مضافات سے آنے والے کسی بھی شخص کو بیت الخلا کی ضرورت محسوس ہوتی وہ اپنا سامان اور جھولا وغیرہ دوکان کے کنارے رکھتا اور مولانا کے ذاتی بیت الخلا میں بلا جھجک اپنی ضرورت پوری کرکے چلا جاتا تھا ، مولانا نے کسی سے کبھی نہیں کہا کہ بھائی یہ میرے اور میرے ملازمین کی ذاتی ضرورت کے لئے ہے ، یہ کوئی سلبھ شوچالئے یعنی عوامی بیت الخلا نہیں ہے ، مولانا نے اپنی دوکان تاج بک ڈپو کے اندر دیوار کنارے ایک لمبا بینچ لگا رکھا تھا جہاں ہر وقت علماء کرام ، اہل علم اور دانشوروں میں سے کوئی نہ کوئی دو چار شخصیت ہمیشہ موجود ہوتی تھی ، مولانا ایک عالم باعمل ، صاحب بصیرت و بصارت ، مشفق و مہربان استاذ ، ایک کامیاب ترین تاجر ، بااخلاق و حوصلہ مند خطیب کے ساتھ جماعت اسلامی ہند کے بڑے مخلص اور درد مند کارکن اور ذمےدار بھی تھے ، جماعت کے احباب آپ سے ملنے اور جماعتی رہنمائی حاصل کرنے اسی تاج بک ڈپو دوکان میں آیا کرتے تھے ، 1977 میں ایمرجنسی کے وقت جب حکومت کی جانب سے جماعت اسلامی ہند پر پابندی لگائی گئی اور پورے ملک سے جماعت اسلامی ہند کے سرگرم کارکنوں کو جیل میں ڈال دیا گیا تو رانچی سے بھی مولانا عبد الغنی صاحب کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ،

دوسری مرتبہ آپ اردو کی حمایت میں نکالے گئے جلوس میں جب ہنگامہ ، پتھر بازی اور چھرے بازی ہوئی اور ماحول میں کشیدگی پیدا ہوگئی تو اس کی پاداش میں گرفتار کر کے جیل بھیجے گئے حالانکہ کے ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں مولانا کا کوئی رول نہیں تھا لیکں اردو کی حمایت میں مولاںا کو قید بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں ، مولانا عبد الغنی صاحب کے ہم عصر علماء مولانا کے جیل جانے سے آج کے بعض مفاد پرست اور خود غرض مولویوں کی طرح خوش نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے غم اور افسوس کا اظہار کیا ، اس طرح قوم و ملت اور دین کی خاطر جیل جاکر آپ نے سنت یوسفی پر بھی عمل کرلیا ، کیا آج کا کوئی عالم یا دانشور اپنی جماعت کے کی حمایت یا اردو کی حمایت میں جیل جانا پسند کرے گا ؟ آج تو رانچی کے بعض مفاد پرست ، موقع پرست اور خود غرض مولویوں کا حال یہ ہے کہ اگر ان کا اختیار چلے تو وہ ایک دوسرے کو کسی نہ کسی جھوٹے الزام میں پھنسا کر جیل بھیج دیں اور اپنی فتح اور کامیابی کا منافقانہ جھنڈا ہاتھوں میں کئے پھریں ، مولانا عبد الغنی صاحب جیل سے رہا ہونے کے بعد دوبارہ اپنے اسی انداز فکر و عمل میں نظر آنے لگے ، جیل جانے کے بعد بھی آپ کی اسلامی فکر اور جماعت اسلامی سے تعلق اور اس کے ساتھ وابستگی میں کوئی فرق نظر نہیں آیا ، آپ اپنے مقصد حیات سے کبھی الگ نہیں ہوئے ، اس طرح اپنی زندگی کے 64 ویں سال پورا کرتے ہوئے 15/ اگست 1989 کو صبح سویرے فجر کے وقت اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ، آپ کے انتقال کی خبر سے پورا شہر اور مضافات سوگوار ہو گیا ، جنازہ کی نماز مولانا تسلیم جنیدی صاحب نے پڑھائی اور راتو روڈ قبرستان میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا ، اللہ تعالیٰ حضرت مولانا عبد الغنی صاحب کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے آمین

Leave a Response