محمد خلیل مرحوم کی شخصیت اور ان کی سماجی خدمات (ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی)


اسلام میں سماجی خدمات کی بڑی اہمیت ہے کیوں کہ سماجی خدمات کی بنیاد پر بندہ اللہ سے بھی قریب ہوتا اور اس کے بندوں سے بھی قریب ہوتا ہے ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی حدیث ہے کہ ” لوگوں میں سب بہتر انسان وہ ہے جو لوگوں کو سب سے ذیادہ نفع پہنچاتا ہو ” ( خیر الناس من ینفع الناس) ہمارے معاشرے میں کئی ایسے لوگ ہوئے ہیں جنھوں نے اپنا نقصان کر کے دوسروں کو فائدہ پہنچایا ہے ، اپنی اور اپنے بال بچوں کی فکر سے ذیادہ معاشرے کے غریب ، یتیم اور مسکین لوگوں اور ان کے بال بچوں کا خیال رکھا ہے اس کے بدلے میں انھیں دنیا بھر کی کوئی دولت حاصل نہیں ہوگئی یا وہ کسی بڑی سیاسی و سماجی تنظیم اور ادارہ کے مالک نہیں ہوگئے اور نہ ہی انھوں نے مال و دولت اور شہرت و مقبولیت حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو سماجی خدمات کے لئے وقف کیا تھا بلکہ سماجی خدمات اور دوسروں کی بھلائی کرنا اور چاہنا ان کے مزاج میں فطری طور پر شامل تھا ، ایسے ہی ایک مشہور و مقبول سماجی خدمت گار اور ہردلعزیز شخصیت جناب محمد خلیل صاحب مرحوم کی تھی جو بہت کم عمری میں ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے جس کا قلق آج بھی فرینڈس آف ویکر سوسائٹی کے ارکان اور بہت سارے لوگوں کو خصوصاً اسلام نگر کے لوگوں کو ہے اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ جناب محمد خلیل صاحب بنیادی طور پر اسلام نگر پتھل کدوا کے ہی رہنے والے تھے ، اسلام نگر پتھل کدوا سے متصل ایک بہت بڑی گھنی آبادی والی مسلم بستی تھی جہاں 1967 کے رانچی فرقہ وارانہ فساد سے متاثر اجڑے ہوئے بے گھر لوگ مختلف جگہوں سے آکر آباد ہوگئے تھے ، چوں کہ یہ سارے غریب و مزدور لوگوں کی بستی تھی جہاں نہ زندگی گزارنے کا کوئی ڈھنگ تھا اور نہ وہ تعلیم یافتہ لوگ تھے ، ان کا یا ان کے بچوں کا کوئی مستقل نہیں تھا ، بے ڈھنگے طریقے پر کسی بھی طرح زندگی کے شب و روز گزار دینا ہی ان کی زندگی کا مقصد تھا ، اس لئے اس بستی کا نام شرفاء نے ” کچڑا پاڑا ” رکھ دیا تھا ، محمد خلیل جیسے نوجوان جنھوں نے اپنی ساری زندگی اس بستی کے مسلمانوں اور ان کے بال بچوں کا مستقبل سنوارنے میں گزار دی وہ کب برداشت کر سکتے تھے کہ شرفاء کا دیا ہوا نام ” کچڑا پاڑا ” ایک کلنک کی صورت میں باقی رہے ، محمد خلیل صاحب نے چند نوجوانوں کے ساتھ مل کر مرد قلندر حضرت مولانا شعیب رحمانی صاحب کا تقریری پروگرام کروایا ، مولانا شعیب رحمانی صاحب نے غریبوں کی اس بستی کا جب نام سنا تو آپ اندر سے بہت رنجیدہ خاطر ہوئے اور آپ نے غریبوں کے حوصلے اور جذبے کو بڑھاتے ہوئے ” کچڑا پاڑا ” کو ” اسلام نگر” سے بدل دیا ، اس کے بعد لوگوں نے ایک عالم دین کے رکھے ہوئے نام کو اتنا پسند کیا کہ بہت جلد ” کچڑا پاڑا ” کی جگہ اسلام نگر لوگوں کی زبان پر چڑھ گیا اور آج لوگ ” کچڑا پاڑا ” کو بھول گئے اب لوگوں کو صرف ” اسلام نگر ” یاد ہے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ” کچڑا پاڑا ” کو اسلام نگر میں تبدیل کروانے کا زبانی دعوی کرنے والے تو بہت مل جائیں گے لیکن حقیقت اور سچائی یہ ہے کہ ” کچڑا پاڑا ” کو ” اسلام نگر ” بنانے میں جو کردار جناب محمد خلیل صاحب نے ادا کیا ہے وہ کسی نے نہیں کیا ، محمد خلیل صاحب چونکہ خود بھی اسلام نگر میں ہی رہتے تھے اس لئے وہ صرف نام بدل جانے پر مطمئن نہیں ہوئے بلکہ ” کچڑا پاڑا ” کو حقیقی معنوں میں ” اسلام نگر ” بنانے میں لگ گئے ، ” اسلام نگر ” بغیر تعلیم کے بن نہیں سکتا ، اس کے لئے انھوں نے اسلام نگر کے گھروں سے ایک بچے کو پکڑ پکڑ کر تعلیم کی طرف متوجہ کرنا شروع کیا اور ان کے بچوں کو سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں میں داخلہ کرایا ، اسلام نگر میں بہت پہلے ایک کمیونٹی ہال ہوا کرتا تھا جہاں محمد خلیل صاحب اسلام نگر کے بچوں کو تعلیم دیتے اور دلواتے تھے ، میں چونکہ اس زمانے میں پتھل کدوا مسجد کا خطیب ہوا کرتا تھا اس لئے اسلام نگر میں محمد خلیل صاحب کی تعلیمی بیداری کی تحریک کو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور ان کی تحریک کا حصہ بھی رہا ہوں ، یہی وجہ ہے کہ محمد خلیل صاحب سے میرے تعلقات بہت اچھے اور گہرے تھے ، وہ اسلام نگر میں ہمیشہ میرا تقریری پروگرام کرواتے تھے تاکہ قرآن و حدیث کی بات سننے کے بعد اس بستی میں دینی مزاج پیدا ہو اور اسلام نگر میں اسلام کی جھلک نظر آئے ، محمد خلیل صاحب خود تو بہت زیادہ پڑھے لکھے کوئی ڈاکٹر ، پروفیسر اور انجینئر نہیں تھے لیکں قوم و ملت کے ہر بچے کو اعلیٰ دلاکر ڈاکٹر ، پروفیسر و انجینئر بنانا چاہتے تھے ،اس کے لئے انھوں نے اپنی بساط پھر ساری زندگی محنت و کوشش بھی کی ، اسلام نگر کے بچوں کی بہتر تعلیم کے لئے جب جناب نظام الدین زبیری صاحب نے ” ریڈ کریسنٹ اسکول” قائم کیا تو اس اسکول کی تعلیمی تحریک سے بھی محمد خلیل صاحب منسلک رہے اور اس علاقے میں تعلیم کو عام کرنے میں جناب نظام الدین زبیری صاحب کا بھر پور ساتھ دیا ، غریب بچوں کا تعلیمی خرچ اٹھانے والی رانچی کی واحد تنظیم ” فرینڈس آف ویکر سوسائٹی ” کے ساتھ بھی جناب محمد خلیل صاحب منسلک رہ ہمیشہ تعلیمی تحریک کو آگے بڑھانے میں جناب تنویر صاحب کے ساتھ کاندھا سے کاندھا ملا کر چلتے رہے اور فرینڈس آف ویکر سوسائٹی کے ہر تعلیمی پروگرام کو کامیاب بنانے میں دل و جان سے لگے رہتے تھے ، کسی بڑے سماجی ادارے سے منسلک رہ کر بڑے پیمانے پر سماجی ، تعلیمی اور فلاحی کاموں میں اپنی خدمات انجام دینے کی غرض سے یی محمد خلیل صاحب انجمن اسلامیہ رانچی کی مجلس عاملہ کے رکن منتخب ہوئے ، انھوں نے انجمن کے پلیٹ فارم سے بھی کافی سماجی اور تعلیمی خدمات انجام دیئے ، انجمن اسلامیہ رانچی میں رہتے ہوئے انھوں نے بہت سارے تعلیمی ، سماجی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنی بہتر سماجی خدمات کا مظاہرہ بھی کیا جسے عام طور پر سب جانتے ہیں ، ایک سیاسی سازش کے تحت پالیٹکنک کی زمین پر ناجائز قبضہ کو ہٹانے کے نام پر جب اسلام نگر کی بستی کو بڑی بے رحمی سے اجاڑا گیا جس کی بنیاد پر لوگ سڑکوں پر آگئے ، اسلام نگر والوں کے لئے وہ دن کسی قیامت سے کم نہیں تھا ، ایسے وقت میں جناب محمد خلیل صاحب سامنے آتے ہیں اور اسلام نگر کے اجڑے ہوئے بے گھروں کے لئے کھانے پینے کا انتظام کراتے ہیں ، ان کے حق کی قانونی لڑائی لڑتے ہیں ، زندگی کی آخری لمحات تک وہ اسلام نگر اور اسلام نگر کے لوگوں اور ان کے سیاسی و سماجی مسائل سے جڑے رہے ، جناب محمد خلیل صاحب نام و نمود اور شہرت و مقبولیت اور خود غرضی و مفاد پرستی کے خول سے باہر نکل کر کام کیا کرتے تھے ، پورے ملک میں کرونا وائرس کی بیماری کی وجہ سے معاشرے کا جو حال ہوا تھا اس سے ہر کوئی اچھی طرح واقف ہے ، دوکان اور مارکیٹ کے بند رہنے کی وجہ سے لوگوں کو روز مرہ کی ضرورتوں کی قلت اور دوسری جن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اسے یاد کرکے آج بھی روح کانپ جاتی ہے ، جس کے بارے میں کرونا وائرس کی بیماری لگ جانے کی خبر ملتی تھی تو غیر تو غیر اپنے بھی بیگانے ہوجاتے تھے ، ایسی حالت اور ایسے ماحول میں جناب محمد خلیل صاحب نے لوک ڈان کے زمانے میں جس طرح لوگوں کے درمیان کھانے پینے کی چیزوں ، دواؤں اور روز مرہ کی دوسری ضروریات گھر گھر پہنچا کر لوگوں کی جو خدمت کی ہے وہ اس شہر کے لوگوں نے اپنی آنکھوں سے خود دیکھا ہے ، رمضان المبارک کے دنوں میں مسلم پسماندہ علاقوں میں افطار کا سامان پہنچانا اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا کوئی آسان کام نہیں تھا جسے جناب خلیل صاحب جیسا سماجی خدمت گار کا عادی ہی کر سکتا تھا ، جناب محمد خلیل صاحب بہت ہی بااخلاق اور ملنسار انسان تھے ، ہر ایک سے ہنس کر ملنا اور بات کرنا ان کی صفت اور علامت تھی ، کسی سے کسی بات پر اختلاف ہوجانے یا ناراض ہوجانے کی صورت میں آج تک میں نے محمد خلیل صاحب کو اپے سے باہر ہوتے اور گالی گلوج کرتے یا برا بھلا کہتے ہوئے نہیں دیکھا ، محمد خلیل صاحب جیسے لوگوں کا اس دنیا سے اچانک رخصت ہونا آج بھی ان کی کمی کا احساس دلاتا ہے ، آج محمد خلیل صاحب جسمانی طور پر ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن اپنے اعلیٰ اخلاق و کردار اور اپنی ہمہ جہت سماجی خدمات کی بنیاد پر آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں ، اللہ جناب محمد خلیل صاحب کی مغفرت فرمائے اور ان کی اولاد کو محمد خلیل صاحب کا صحیح جانشیں بنائے آمین
