مولانا عبدالواجد رحمانی چترویدی بالوماتھ جھارکھنڈ
۱۲/ربیع الاول پیر کا دن مطابق ۲۲/اپریل سنہ۶۵۷۱ اس کائنات کے لیے انقلاب کا دن تھا نئ زندگی پانے کا دن برسوں سے مرجھائ انسانیت کی کھیتی کو سر سبز ہونے کی بشارت کا دن تھا یہ وہی دن تھا جس کا انتظار مدت سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی انسانیت کو تھا
وہ دن کہ جس کا انتظار ظلم و جور کی چکی پستے مظلو موں کو تھا
وہ دن کہ جس کا انتظار منحوسیت کا داغ لیے سماج کی زیادتیوں کو برداشت کرتی بیواؤں کو تھا
وہ دن کہ جس کا انتظار زندگی سے محروم ہوتی بیٹیوں کو تھا
وہ دن کہ جس کا انتظار ہر اس آدمی کو تھا جو صلاح وفلاح کا خواہاں تھا
وہ دن کہ جو دن امام الانبیاء رحمت دوجہاں محسن انسانیت سراپا رحمت وراحت پیغمبر انقلاب حضرت محمد ﷺ کی تشریف آوری کا دن ھے اس جہاں آب گیتی ھے کیلیے انقلاب کا دن ھے
ایسا انقلاب جس نے لوگوں سے سوچنے کا زاویہ بدل دیا اپنی انا کی خاطر جینے والے دوسروں کی زندگی کے محافظ بن گیے زندہ درگور ہوتی بیٹیوں کو زندگی حق دینے لگے غلاموں کو کھلی فضا میں سانس لینے کا موقعہ نصیب ہونے لگا ظلم و جور میں پستی انسانیت کو عدل وانصاف کا سایہ نصیب ہوگیا برسوں جہالت و ضلالت کی گمراہیوں میں بھٹکتی ہوئی انسانی سوسائٹی کو ہدایت کا نور مل گیاگویا کا ئنات کا ذرہ ذرہ تبدیل ہو گیا سچ کہا کسی نے
وہ آۓ توسر آفرینش پا گئ دنیا
اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آگئ دنیا
ستے چہروں کے زنگ مٹے بجھے چہروں پہ نور آیا
وہ آۓ تو انسانوں کو جینے کا شعور آیا
جناب نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت کا گرچہ انوکھا واقعہ تھا مگر یہ واقعہ اتفاقی نہیں تھا مشیت ایزدی سے یہ پہلے سے طیے شدہ واقعہ جسے ہونا تھا اللہ جل جلاہ نے اپنے محبوبﷺ کو پیدا کرنے کا فیصلہ کائنات کے وجود لانے سے پہلے ہی کر چکا تھا قاسم العلوم و الخیرات مولانا قاسم نانوتوی فرماتے ہیں
سب سے پہلے مشیت کے انوار سے نقش روۓ محمد بنایا گیا
پھر اسی نور سے مانگ کر روشنی بزم کون ومکان کو سجایا گیا
وہ محمد بھی احمد بھی محمود بھی حسن مطلق کا شاہد بھی مشہود بھی
علم وحکمت میں وی غیر محدود بھی ظاہراً امیوں میں اٹھایا گیا
جناب رسالت مآبﷺ کی آمد کیلے انبیاء پاک علیھم السلام سے عہد لینا بھی قرآن کریم سے ثابت شدہ ھے اس لیے اللہ نے جتنے پیغمبر دنیا میں آۓ سب نے اپنی اپنی امتوں کو یہ بتایا کہ آخری نبی دنیا میں آئیں گے جن کی شان بہت بلند ہوگی جناب
ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اسی نبی کی آمد کیلیے قربانیاں دے رھے تھے اور تعمیر کعبہ کے وقت دعا گو تھےرَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ
اس لیے رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے”میں ابراھیم علیہ السلام کی دعاؤں کا ثمرہ ہوں”
موسیٰ علیہ السلام پانچویں کتاب کتاب استثنا میں یہی تو لکھا ھے “موسی میں تیرے بھائیوں میں سے تیری طرح ایک نبی پیدا کروں گا اسکے منہ میں میں اپنا کلام ڈالوں گا”
حضرت عیسی بھی یہی کہ رہے تھے “میرا جانا ہی تمہارے لیے بہتر ہوگا میرے جانے کے بعد خدا اسے بھیجےگا جو میرا مددگار ہوگا”
قرآن کریم میں” مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ ؕ
ان پاک اور اللہ کے رسولوں کی بشارت اور انکی تعلیمات کے اثرات دنیا میں موجود مذاہب تک میں موجود ھے اور ان مذہبی کتابوں اور گرنتھوں میں بھی آخری رسول محمد ﷺ کی آمد کی پیشین گوئیاں موجود ھے چنانچہ بھارت اور اطراف کو اپنی اہنسا وادی خیالات سے متاثر کرنے والی شخصیت مہاتما گوتم بدھ کی ھے جنھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے محبوب شاگر سے یہ کہا”نندا میں پہلا بدھ نہیں ہوں جو دنیا میں آیا نہ میں آخری بدھ ہوں بلکہ دنیا میں ایک بدھ اور آۓ گا جس کا ایک نام میتریا ہوگا
مولانا مناظر احسن گیلانی علیہ الرحمہ ایک بدھسٹ اخبار کے حوالے سےلکھتے ہیں
اسکا معنی رحمت ھے
معلوم ہوتا ھے مہاتما بدھ جس میتریا کی بشارت اپنے شاگرد کو دے رہے وہ وہی ھے جسے قرآن مقدس میں ہے مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ اور ہم نے آپکو عالمین کے لیےرحمت ہی بنا کر بھیجا ہے
ہندو دھرم کی مشہور کتاب شریمد بھاگوت مہا پران میں لکھا ھے
وہ مختون ہوگا اس کے ماننے والے چوٹی نہیں رکھیں گے ڈاڑھی رکھیں گے وہ مانش ہارہ و شاکا ہاری ہونگے مگر ایسے جانور کا مانش انکے لیے منع ہوگا جس پر کلمہ نہ پڑھا گیا ہو
اتنی صاف اور صریح پیشگوئیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق موجود ہیں بجا طور پر آپکی تشریف آوری کا انتظار پوری انسانیت کو تھا اور آپ کی رحمت کل کائنات مستفیض ہوئی اور ہو رہی ھے اور قیامت تک ہوتی رھے گی
حالی مرحوم کہتے
رھے اس سے محروم آبی نہ خاکی
ہری ہوگئی زمیں ساری خدا کی
آگے فرماتے ہیں
یکایک ہوئ غیرت حق کو حرکت
بڑھا جانب بو قبیس ابر رحمت
ادا خاک بطحا نے کی وہ ودیعت
چلے آتے تھے جس کی دینے شہادت
ہوئی پہلوۓ آمنہ سے ہویدا
دعاۓ خلیل نوید مسیحا