حضرت مولانا محمد اختر حسین مظاہری رحمة الله عليه


“تم ہی سوگئے داستان کہتے کہتے”
🖋️مفتی محمد انور قاسمی
قاضی شریعت
دارالقضاء امارت شرعیہ بہار ،اڈیشہ و جھارکھنڈ
کربلاٹینک روڈ رانچی
حضرت مولانا محمد اختر حسین مظاہری رحمۃ اللہ علیہ کی ذات اور شخصیت کا خیال اور تصور آتے ہی خود بہ خود ان کی سادگی، بے تکلفی، مخلصی، خرد نوازی، علم و علماء دوستی اور ان کا مخصوص اندازِ بیاں، طرز تکلّم نیز انہی پر جَچنے والا ان کا خاص لب و لہجہ اور اندازِ گفتگو ذہن میں آجاتا ہے، یوں تو ان کی محنتوں اور عمل کا دائرہ مدارس، مساجد، اداروں اور ملی، سیاسی و سماجی خدمات پر محیط ہے لیکن ان کی محنتوں، کاوشوں اورسعی پیہم کا اصل محور و مرکز “مدرسہ عالیہ عربیہ پترا ٹولی کا نکے رانچی” رہا جس کو انہوں نے اپنے خون جگر سے سینچا بلکہ کہنا چاہئیے کہ اولاد کی طرح بہت محبت اور لگن کے ساتھ مدرسہ کو چاہا اور پالا پوسا، اپنی پوری جوانی اور عمر کا لمحہ لمحہ نچوڑ کر مدرسہ کو دے دیا، خود بوڑھے ہوگئے اور جان جاں آفریں کے حوالہ کردی لیکن مدرسہ کو جوان اور رواں چھوڑ کر گئے،مولانا کی دل سوزی، سعی پیہم اور جہد مسلسل کا نتیجہ ہے کہ گاؤں میں چلنے والا معمول کا ایک چھوٹا مکتب مدرسہ عالیہ عربیہ کی شکل میں نمودار ہوا اور اس شان اور عظمت کے ساتھ ابھرا اورابھرتا ہی چلا گیا کہ اس مدرسہ کے فیض یافتہ نہ صرف یہ کہ ملک کے اندر بلکہ بیرون ملک میں بھی حضرت مولانا کی صالح فکر کو آگے بڑھارہے ہیں اور دینی، ملی نیز تدریسی خدمات کے ساتھ مختلف جہات میں صلاح و فلاح کا کام بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں،حضرت مولانا کے شاگرد اور ان سے فیض یافتہ جھارکھنڈ، بہار، بنگال اور اڈیشہ میں بڑی تعداد میں موجود ہے خصوصاً جھارکھنڈ کے مشرقی و مغربی چھوٹا ناگپور کے حلقہ میں شاید کوئی گاؤں یا بستی ہو جہاں مولانا کا شاگرد موجود نہ ہو. اس خطے میں چلنے والے مدارس و مکاتب کے ذمہ داران اور معلمین و مدرسین نیز مساجد کے ائمہ و خطباء کی بہت بڑی تعداد وہ ہے جو حضرت مولانا کے شاگرد اور مدرسہ عالیہ عربیہ کے فیض یافتہ ہیں.
حضرت مولانا نے بہت ساری مساجد، مدارس اور مکاتب کی بنیاد رکھا اور اس کی تعمیر و توسیع نیز فروغ دینے کا ذریعہ بنے.
حضرت مولانا مقصدِ اصلی کے استحضار اور اس بابت اپنی فکر کے بہت مضبوط واقع ہوئے تھے، مولانا کو جاننے والے جانتے ہیں کہ انہوں نے مدرسہ میں عمارتوں کی تعمیر اور اس کی تزئین کے بجائے مدرسہ کے مقصد اصلی تعلیم و تدریس اور تربیت کو ہمیشہ فوقیت دی یہی ان کا خلوص تھا کہ پروانہ وار طلبہ پہونچتے رہے اور مدرسہ میں رہ کر ان کی شاگردی کو اپنے لئے سعادت کا باعث سمجھتے رہے.
مولانا بہت عظیم تھے، حلقہ اثر بڑا تھا، علماء، صلحاء کے علاوہ سیاسی و سماجی افراد سے بھی ملاقاتیں ہوتیں لیکن جو ان کا لباس تھا سو تھا انتہائی سادہ بلکہ بسا اوقات لنگی اور کرتا اور بعض اوقات تو بغیر استری کے لباس زیب تن کئے ہوئے، اس مرد قلندر نے ایسی ہی سادگی میں پوری زندگی گزاردیا، اٹھنے بیٹھنے پہننے اوڑھنے اور رہنے سہنے میں تکلف کا کوئی شائبہ تک نہیں.رہائش میں بھی یہی سادگی وہی قدیم مٹی کا گھر جسے ان کے لڑکوں نے بعد میں کسی قدر جدید طرز میں ڈھالا.
ہر بڑے آدمی کی زندگی میں آزمائش آتی ہے حضرت مولانا بھی اس سے الگ نہیں رہے، اس کے ذکر پھر کبھی ہوسکتی ہے لیکن مولانا نے جس بالغ نظری کے ساتھ مدرسہ کو اختلاف و انتشار سے محفوظ رکھا وہ ایک مثال ہے ، جھونکے آئے دلوں کو چیر دینے والے جملے کسے گئے لیکن ایسے افراد سے بھی ملتے ہوئے مولانا کی ملاقاتی گرم جوشی، خندہ پیشانی اور تبسمِ لبی میں کوئی کمی نہیں آئی، مدرسہ کو انسانی آفات و بلیّات سے محفوظ رکھنے میں حضرت مولانا کی خندہ پیشانی، صفت درگزر، پُرحکمت نظر انداز ، اور کفّ لسان کا بہت بڑا رول رہا ہے.
جھارکھنڈ بالخصوص جھارکھنڈ کے چھوٹا ناگپور حلقہ میں حضرت مولانا قاری مجمد علیم الدین قاسمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد صدّیق مظاہری صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا محمد اختر حسین مظاہری صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی دینی ملی خدمات اور سرگرمیوں کی وجہ سے معروف و ممتاز رہے، عمر کے اعتبار سے قاری علیم الدین قاسمی صاحب بڑے تھے ان کے بعد مولانا صدیق صاحب مظاہری پھر مولانا اختر صاحب مظاہری، اور اسی ترتیب سے تینوں بزرگوں نے وفات بھی پائی، رحمۃ اللہ علیہم اجمعین
تینوں اکابر میں ذہن و فکر کے اعتبار سے کافی ہم آہنگی تھی اور آپسی مشاورت کے ساتھ امور کو انجام دیتے تھے ، تینوں کے درمیان للہ فاللہ کی محبت بھی تھی.
حضرت مولانا اختر صاحب کے لئے حضرت قاری محمد علیم الدین قاسمی صاحب ایک ڈھال کی طرح تھے، قاری صاحب بھی مدرسہ کی تعلیم و ترقی اور استحکام میں فکرمند رہے یہی وجہ ہے کہ مدرسہ میں اکثر حاضر ہوتے اور کافی وقت دیتےتھے ، یہی حال مولانا اختر صاحب کا بھی تھا. اکثر رانچی شہر میں آکر قاری صاحب سے ملاقات کرتے تھے.
حضرت مولانا اس معنی کر بہت خوش قسمت رہے کہ مولانا کو مدرسین، ملازمین، عملہ اور افراد کار کی ٹیم بہ توفیق الہی مخلص ملی، پوری ٹیم مولانا سے والہانہ عقیدت و محبت رکھنے والی ملتی رہی اور حضرت مولانا کی کاوشوں میں نہ صرف معاون بنتی رہی بلکہ ہر محاذ میں شانہ بشانہ کھڑی رہی
حضرت مولانا سے میرے رابطے اور تعلقات تقریباً تین دہائیوں پر مشتمل ہے اس دوران اجلاسوں اور کانفرنسوں میں شرکت کے لئے ساتھ میں ملکی اسفار بھی ہوئے جب کہ علاقائی اجلاسوں کے اسفار تو بے شمار ہیں، حضرت مولانا کا سلوک اور برتاؤ بہت مشفقانہ اور سرپرستانہ رہا ابھی شعبان 1446ھ میں مدرسہ میں طلبہ کی انجمن کا پُر اہتمام اختتامی اجلاس تھا، حضرت کے حکم پر حاضری ہوئی تھی اور کچھ کہنے کا موقع ملا تھا، ادھر بیمار رہنے لگے تھے، مختلف امراض میں مبتلا ہو گئے تھے جس کی وجہ سے اسفار کا سلسلہ رک سا گیا تھا، مولانا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی صحت اور تندرستی کےلئے دوا کے ساتھ “سفر” بھی ضروری تھا چاہے وہ سفر مختصر ہی کیوں نہ ہو، دماغی فرحت و نشاط کے لئے سفر ضروری مانا جاتاتھا،
حضرت مولانا نے بھر پور تعلیمی اور ملی واصلاحی خدمات پر مشتمل عمر گزار کر داعی اجل کو لبیک کہا، اللہ تعالٰی جنت میں حضرت کے درجات کو بلند فرمائے اور قبر کو منوّر فرمائے نیز لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ،مورخہ 23 مئی 2025 کو جیسے ہی حضرت کے وصال کی خبر ملی، لگا کوئی اپنا بچھڑگیا،شدت سے داعیہ پیدا ہوا کہ کچھ تجربات و مشاہدات رقم ہوجائے لیکن مورخہ 24 مئی 2025 کو جنازے میں شرکت کے بعد ایک ضروری سفر شروع ہوگیا، دوران سفر تجربات و مشاہدات پر مبنی غیر مرتّب اور غیر مربوط یہ چند سطور رقم ہوئیں،
حضرت مولانا کے جنازے میں شریک ازدحام اور جم غفیر نیز تا حدّ نگاہ انسانی سروں کا تانتا زبانِ حال سے کہہ رہا تھا کہ
حضرتِ اختر آپ کے ذریعہ سنائی جانے والی مدرسہ عالیہ عربیہ کی تعلیمی و تدریسی آبیاری، مساجد، مدارس و مکاتب کی تعمیر و ترقی، صلاح و فلاح کی پیہم سعی اور دعوتِ دین کے رموزِ تبلیغی کی حقیقی اور عملی داستان کو تو ہم سب بڑے انہماک کے ساتھ بہ غور سُن رہے تھے،
لیکن
“تم ہی سوگئے داستان کہتے کہتے”

