امیرشریعت احمدولی فیصل رحمانی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈکے رکن اورسکریٹری نہیں رہیں
آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈکاانتخابی اجلاس
دوسری میقات کے لیے مولاناخالدسیف اللہ رحمانی صدراورمولانافضل الرحیم مجددی جنرل سکریٹری منتخب
مولاناعبیداللہ خاں اعظمی نائب صدر،امیرشریعت احمدولی فیصل رحمانی بورڈکے رکن اورسکریٹری نہیں رہے
بنگلورو24نو مبر(پریس ریلیز)
آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈکے انتخابی اجلاس میں دوسری معیادکے لیے فقیہ العصراورممتازعالم دین حضرت مولاناخالدسیف اللہ رحمانی کوباتفاق رائے صدراورحضرت مولانافضل الرحیم مجددی کوجنرل سکریٹری منتخب کرلیاگیا۔چونکہ یہ انتخابی اجلاس تھااس لئے تمام میقاتی اراکین اورعہدیداران،مجلس عاملہ کابھی انتخاب عمل میں آناتھالہٰذاتاسیسی اراکین کی نشست میں تاسیسی اراکین کی خالی جگہیں پرکی گئیں۔اس کے علاوہ تیسری نشست جوتما م اراکین بورڈپرمشتمل تھی ،میں چالیس اراکین مجلس عاملہ کی تشکیل عمل میں آئی،بورڈنے مولانامحمدابوطالب رحمانی اورمولانامحموددریاآبادی کورکن عاملہ منتخب کیا۔اوربورڈکے دستورکے مطابق باقی دس اراکین عاملہ کونامزدکرنے کااختیارصدربورڈکودیاگیا۔پھرآج مجلس عاملہ کی میٹنگ میں جنرل سکریٹری ،سکریٹریز،(ایک سکریٹری کے علاوہ)نائب صدورکی توثیق کی گئی ،اورحضرت شاہ خسروحسینی جن کاگزشتہ دنوں انتقال ہوگیاتھا،ان کی جگہ حضرت مولاناعبیداللہ خاں اعظمی نائب صدرمنتخب ہوئے۔اس درمیان مسلم پرسنل لابورڈنے نہایت اہم فیصلہ کرتے ہوئے بہارکے امیرشریعت احمدولی فیصل رحمانی کی رکنیت موقوف کردی جس کے نتیجے میں مجلس عاملہ میں بھی ان کی رکنیت موقوف رہی پھرجب عاملہ کی میٹنگ میں سکریٹریزکاانتخاب عمل میں آیاتواس میں احمد ولی فیصل رحمانی کوسکریٹری منتخب نہیں کیاگیا،اس طرح اب وہ بورڈکے نہ تورکن ہیں اورنہ سکریٹری ہیں۔
اس انتخابی اجلاس میں صدربورڈمولاناخالدسیف اللہ رحمانی،مولانافضل الرحیم مجددی،انجینئرسعادت اللہ حسینی نائب صدروامیرجماعت اسلامی ہند،مولانااصغرامام مہدی سلفی ،نائب صدربورڈ،وامیرجمیعة اہل حدیث،مولانابلال حسنی ندوی سکریٹری بورڈوناظم ندوة العلمالکھنو،مولانامحمدعمرین محفوظ رحمانی سکریٹری بورڈ، انجینئر سلیم نائب امیرجماعت اسلامی،پروفیسرریاض عمرخازن بورڈ،مولاناعتیق احمدبستوی،ایڈووکیٹ فضیل ایوبی،ایڈووکیٹ یوسف حاتم مچھالہ،ڈاکٹرقاسم رسول الیاس ترجمان بورڈ ،مولاناعبیداللہ خاں اعظمی، مولانامحمودمدنی صدرجمیعة علمائے ہند،کمال فاروقی،محمدادیب سابق ایم پی ،ایم آرشمشادایڈووکیٹ،مولاناانیس الرحمن قاسمی،مولاناصغیراحمدرشادی امیرشریعت کرناٹک،قاضی ظہیرممبئی،عبدالقدیرشاہین گروپ،مولانامحمدابوطالب رحمانی،مولانامحموددریاآبادی،مفتی سہیل قاسمی ،حاجی محمودعالم کولکاتہ ،ڈاکٹریاسین قاسمی،قاضی سعودقاسمی سمیت ملک کی نمائندہ اور خدمت گزارتنظیموں اوراداروں کے سربراہان سمیت بورڈکے تقریباسبھی اراکین شامل تھے۔
تفصیل کے مطابق بہارکے امیرشریعت احمدولی فیصل رحمانی جومیقاتی رکن تھے،ان کی رکنیت کامسئلہ چندارکان کے توجہ دلانے کے بعد زیرغورآیا۔کئی اراکین نے ان کی رکنیت پراس دلیل کے ساتھ اعتراض کیاکہ چونکہ جناب احمدولی فیصل رحمانی ہندوستانی شہری نہیں ہیں، انہیں امریکہ کی شہریت حاصل ہے جب کہ بورڈکے دستورکے مطابق رکنیت کے لیے ہندوستانی مسلمان ہوناضروری ہے۔احمدولی فیصل رحمانی ہندوستانی مسلمان نہیں ہیں،امریکی مسلمان ہیں،اس لئے انہیں رکن نہیں رکھاجاسکتا،شہریت کے اس اہم مسئلے کوبہت سنجیدگی سے لیاگیااورطویل قانونی مباحثہ ہوا۔اورفیصلہ اس پرہواکہ ان کی رکنیت موقوف کردی جائے چنانچہ جب اراکین عاملہ کاانتخاب عمل میں آیاتوبھی جناب احمدولی فیصل رحمانی کے نام پر”زیرغور“لکھاگیا،اوران کامعاملہ رکنیت سے مشروط کرکے موقوف کردیاگیا۔اسی طرح جب عاملہ کی میٹنگ ہوئی اورعہدیداران کاانتخاب عمل میں آیاتوان کی سکریٹری شپ بھی برقرارنہیں رہی۔چونکہ دیگرکئی امورکے ساتھ ان کی شہریت کامعاملہ بھی زیرغورتھا،لہٰذااکابرین بورڈنے ان کی رکنیت موقوف کردی۔لہٰذاجب احمدولی فیصل رحمانی صاحب کی رکنیت موقوف کردی گئی ہے یعنی وہ رکن نہیں ہیں تومجلس عاملہ کی رکنیت اوران کی سکریٹری شپ بھی ازخودختم ہوگئی،اورآج کی تاریخ سے وہ بورڈکے سکریٹری اوررکن نہیں ہوں گے۔یہ پہلااتفاق ہے کہ جب بورڈسے کسی سکریٹری کوباعزت رخصت کیاگیاہے۔
اس فیصلہ پرباہرکچھ لوگوں نے اعتراض کیاکہ امارت شرعیہ اورخانقاہ رحمانی کی بورڈمیں عظیم خدمات رہی ہیں،اس پرلوگوں نے جواب دیاکہ امارت شرعیہ کی خدمات ہیں،یقیناخانقاہ رحمانی کی بڑی خدمات ہیں،سوال یہ کہ احمدولی فیصل رحمانی صاحب کی اس سے قبل ہندوستان میں کون سی علمی ،دینی ،سماجی ،سیاسی خدمات رہی ہیں۔یادرکھناچاہیے کہ بورڈضابطہ سے چلتاہے اس میں رشتہ داری کی جگہ نہیں ہے،یقیناان کے والداوردادانے بحیثیت جنرل سکریٹری مسلم پرسنل لابورڈکی قیادت کی لیکن کیاضروری ہے کہ وراثت کے طورپران کی نسل کوبھی آگے بڑھایاجائے،اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی یادرہے کہ مولاناسلمان حسینی کے خانوادہ نے بھی بڑی خدمت کی ہے،حضرت مولاناابوالحسن علی ندوی،حضرت مولانارابع حسنی ندوی بورڈکے صدررہے لیکن جب معاملہ بورڈکے وقارکاآیاتوان کے خلاف کارروائی کی گئی اوراس وقت کی گئی جب صدربورڈخودحضرت مولانارابع حسنی ندوی تھے۔اسی طرح محترمہ عظمی ناہیدجوحضرت مولاناسالم قاسمی کی دخترہیں،انہیں بھی جب بورڈسے نکالاگیاتواس کی بالکل پرواہ نہیں کی گئی کہ وہ بورڈکے پہلے صدرحضرت مولاناقاری طیب صاحب کے گھرانے کی ہیں اوراس وقت کے نائب صدرحضرت مولاناسالم قاسمی کی دخترہیں۔بورڈکااپناضابطہ اوردستورہے،یہی فیصلے بورڈکومضبوط بناتے ہیں جہاں بورڈکے مفادکے آگے رشتہ داری اورقرابت نہیں دیکھی جاتی۔جب جناب احمدولی فیصل رحمانی ہندوستانی شہری نہیں ہیں تومسلم پرسنل لابورڈکے ضابطہ کے مطا بق انہیں رکن نہیں رکھاجاسکتاتھا،چنانچہ تاسیسی اراکین کی میٹنگ میں جب یہ معاملہ سامنے آیااوراراکین نے ان کی شہریت کی طرف اکابرین کی توجہ دلائی کہ یہ ہندوستانی شہری نہیں ہیں ،آپ انہیں رکن کس طرح رکھ سکتے ہیں ۔تواس بات کاکوئی جواب نہیں تھااوراکابرین بورڈکوبورڈکے دستورکی روشنی میں فیصلہ لیناپڑا۔اس فیصلہ سے یقینابورڈمضبو ط ہوگااوربورڈکی قیادت پرلوگوں کااعتمادبڑھے گا۔
اوورسیز سٹیزنز آف انڈیا (OCI) اور امیر شریعت بہار کی شہریت کا معاملہ
✍🏻ایڈوکیٹ اسامہ ندوی
اوورسیز سٹیزن آف انڈیا (OCI) کی حیثیت ایک خاص قانونی حیثیت ہے جو ہندوستانی نژاد غیر ملکی شہریوں کو دی جاتی ہے۔ یہ حیثیت ان افراد کو ہندوستان کے ساتھ مضبوط تعلق قائم رکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے، تاہم اس کے تحت کچھ حقوق محدود کیے گئے ہیں۔
اوورسیز سٹیزنز آف انڈیا کے تحت حاصل سہولیات اور محدود حقوق
اوورسیز سٹیزن آف انڈیا کے طور پر رجسٹرڈ افراد کو درج ذیل سہولیات فراہم کی جاتی ہیں:
- ہندوستان کے لیے کثیر بار داخلے اور کثیر مقصدی زندگی بھر کا ویزا۔
- ہندوستان میں قیام کی کسی بھی مدت کے لیے پولیس حکام کو رپورٹ کرنے کی ضرورت نہیں۔
- مالی، اقتصادی اور تعلیمی شعبوں میں غیر مقیم ہندوستانیوں (NRIs) کے برابر حقوق، سوائے زرعی یا باغبانی کی جائیداد خریدنے کے۔
تاہم، OCI کے حامل افراد کو درج ذیل حقوق سے محروم رکھا گیا ہے: - ووٹ دینے کا حق۔
- لوک سبھا، راجیہ سبھا، یا کسی ریاستی اسمبلی/کونسل میں منتخب ہونے کا حق۔
- صدر، نائب صدر، سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج جیسے آئینی عہدوں پر فائز ہونے کا حق۔
امیر شریعت بہار کا معاملہ
حال ہی میں بہار کے امیر شریعت کےتعلق سے یہ بات سامنے آئی کہ امیر شریعت انجینئر احمد ولی فیصل رحمانی امریکی شہریت کے حامل ہیں۔ ان کی یہ حیثیت قانونی اعتبار سے کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ OCI کی حیثیت کے حامل افراد کے حقوق محدود ہونے کے باوجود انہیں ہندوستان میں مختلف شعبوں میں نمایاں کردار ادا کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
تاہم، ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ایسی شخصیت جو ہندوستان کی شہریت سے محروم ہو، انہیں امارت جیسی اہم ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے؟ امیر شریعت ایک ایسا عہدہ ہے جو نہ صرف دینی معاملات میں قیادت فراہم کرتا ہے بلکہ قانونی اور سماجی مسائل کے حل میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
قانونی اور اخلاقی سوالات
قانونی طور پر OCI ہولڈرز کو ہندوستان میں رہنے اور کام کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن جب بات ایک سماجی یا مذہبی قیادت کی آتی ہے تو یہاں اخلاقی اور عملی پہلوؤں پر غور کرنا ضروری ہے۔ کیا ایک غیر ملکی شہری ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کے لیے موزوں ہے؟ کیا وہ ملک کے قوانین، روایات اور ثقافتی حساسیت کو پوری طرح سمجھ سکیں گے؟
امیر شریعت کا عہدہ ایک دینی، سماجی اور ثقافتی قیادت کا مقام ہے جو مسلمانوں کے اتحاد اور ان کے مسائل کے حل کے لیے نہایت اہم ہے۔ اگرچہ OCI ہولڈرز کو ہندوستان میں قیام اور مختلف شعبوں میں کام کرنے کی آزادی ہے، لیکن امارت جیسے عہدے کے لیے اس شخص کا مکمل طور پر ہندوستان سے جڑا ہونا اور ہندوستانی شہریت کا حامل ہونا زیادہ مناسب اور فائدہ مند ہوگا۔
یہ معاملہ مسلمانوں کے لیے ایک غور و فکر کا لمحہ ہے کہ وہ اپنے دینی و سماجی رہنما کے انتخاب میں ایسے افراد کو ترجیح دیں جو ان کے مسائل کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور ہندوستانی قوانین و روایات کے مطابق قیادت فراہم کر سکیں-
تنظیمی دستور کی حیثیت
ہر تنظیم کے اپنے آئین اور قواعد و ضوابط ہوتے ہیں، جو اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ اس کے عہدے داران کے لیے کیا شرائط ہوں گی ؟
اگر تنظیم کے قوانین میں یہ شرط ہو کہ ذمہ دار افراد ہندوستانی شہری ہوں، تو او سی آئی ہولڈر اس عہدے کے لیے نااہل ہوگا۔
اگر ایسی کوئی شرط نہ ہو، تو او سی آئی ہولڈر تنظیم کے رکن یا ذمہ دار بن سکتا ہے، بشرطیکہ وہ تنظیم کے اصولوں پر پورا اترتا ہو۔
خطرات یا خدشات
اوورسیز سٹیزن آف انڈیا (OCI) ہولڈرز کے معاملے میں کچھ مخصوص خطرات یا خدشات ہوتے ہیں، خاص طور پر جب وہ کسی تنظیم، جماعت، یا قیادت کے عہدے پر فائز ہوں۔ یہ خدشات قانونی، سماجی، اور تنظیمی معاملات سے جڑے ہوتے ہیں۔ ذیل میں ممکنہ خطرات کی وضاحت کی گئی ہے: - قومی وفاداری پر سوالات
او سی آئی ہولڈر کسی دوسرے ملک کی شہریت رکھتا ہے اور اس ملک کے قوانین کی پابندی کا پابند ہوتا ہے۔
دوہری ذمہ داری: چونکہ وہ دوسرے ملک کا شہری ہے، اس کی وفاداری بنیادی طور پر اسی ملک کے ساتھ ہوگی۔
قومی مفاد کے تصادم: اگر ہندوستان اور اس کے ملک کے مفادات میں تصادم ہو تو یہ خطرہ ہوسکتا ہے کہ وہ ہندوستان کے مفادات کو پس پشت ڈال دے۔
2*قانونی پیچیدگیاں
او سی آئی ہولڈر ہندوستانی شہریت نہیں رکھتا، اس لیے وہ کچھ آئینی اور قانونی ذمہ داریوں سے محروم ہے:
آئینی عہدوں سے محرومی: اگر وہ کسی اہم تنظیم کا سربراہ ہے، تو اس کے قانونی فیصلوں کی حیثیت پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔
قانونی جواب دہی: کسی مسئلے کی صورت میں ہندوستانی عدالت میں اس کے خلاف کارروائی پیچیدہ ہو سکتی ہے، کیونکہ وہ غیر ملکی شہری ہے۔ - تنظیم کی سالمیت کو خطرہ
کسی او سی آئی ہولڈر کو تنظیم کی قیادت دینے سے تنظیم کی سالمیت اور اعتماد پر اثر پڑ سکتا ہے۔
غیر ملکی اثر و رسوخ: یہ خطرہ ہوسکتا ہے کہ غیر ملکی طاقتیں او سی آئی ہولڈر کے ذریعے تنظیم پر اثر ڈالنے کی کوشش کریں۔