Saturday, July 27, 2024
Ranchi News

یکساں سول کوڈ کیا ہے اور کیوں ہے (ڈاکٹر عبید اللہ قاسمی)

 

یکساں سول کوڈ کا مسئلہ کوئی آج کا مسئلہ نہیں ہے, اس کا تصور آزادی کے پہلے سے ہندوستان میں چلا آ رہا ہے مگر آزادی کے بعد وہ دستور ہند کا مسئلہ بن گیا ہے کیوں کہ آزادی کے بعد ملک کا جو دستور بنا اس میں یونیفارم سول کوڈ کے نام سے اس کی ایک باقاعدہ دفعہ شامل کردی گئی, یہ دستور کی دفعہ 44 ہے جو دستور میں رہنما اصولوں کے تحت درج کی گئی ہے,دستور کی دفعہ 44 میں کہا گیا ہے کہ حکومت اس بات کی کوشش کرے گی کہ بھارت کے تمام شہریوں کے لئے یکساں سول کوڈ کو نافذ کیا جائے یعنی تمام ہندوستانیون 
 کے لئے ایک قانون, دستور کی دفعہ 44 جسے ووٹ بینک کے طور پر لانے کی جو کوشش موجودہ سرکار کر رہی ہے اتنا ہی غیر دستوری ہے جتنا یہ کہنا کہ حکومت اس بات کی کوشش کرے کہ بھارت کے تمام شہری ایک طرح کا کھانا کھائیں اور ایک ہی طرح کا لباس پہنیں, جس طرح یہ ممکن نہیں ہے اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ بھارت جسے بڑے اور مختلف مذہب اور مختلف تہذیب و تمدن رکھنے والے تمام مرد و عورت ایک ہی طرح کے قانون پر عمل کریں چاہے اس کے لئے باقاعدہ قانون کیوں نہ بنا دیا جائے  واضح ہو کہ دستور کا کام قومی پالیسی کے بنیادی اصولوں کو متعین کرنا ہے نہ کہ ذاتی معاملات میں لوگوں کے انفرادی ذوق و شوق کو نیست و نابود کر کے غیر ضروری طور پر یکسانیت لانے کی کوشش کرنا, تاہم جب کوئی چیز لکھ کر چھاپ دی جائے تو بہت سارے لوگ اس کو واقعہ سمجھنے لگتے ہیں ٹھیک یہی حال دستور کی دفعہ 44کا بھی ہے, چنانچہ رہ رہ کر بہت سارے لوگ اس دفعہ کا حوالہ دے کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی خاطر مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ یکساں سول کوڈ کو لاگو کرنے کے لئے پارلیمنٹ قانون بنائے اور اس کو پورے ملک میں رائج کرے ,1985ء سے یکساں سول کوڈ کے مسئلہ نے نئی قانونی اہمیت اختیار کر لی جب سپریم کورٹ کے ججوں نے اس کے حق میں اپنی رائے دینا شروع کردیا,جو لوگ دستور کی دفعہ 44 کا حوالہ دے کر ملک میں یونیفارم سول کوڈ لانے کی بات کرتے رہتے ہیں انہوں نے مسلم دشمنی میں شاید اس بات پر غور نہیں کیا کہ خود اسی دستور کی دفعہ 25 میں اس کی تردید موجود ہے, دستور ہند کی دفعہ 25 میں ہندوستان کے ہر شہری کو اپنے اپنے مذہب پر چلنے, اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ تمام افراد مساوی طور پر آزادئی ضمیر کا حق رکھتے ہیں ,ہر شہری کو حق ہے کہ وہ آزادانہ طور پر کوئی بھی مذہب اختیار کرے, اس پر عمل کرے اور اس کی تبلیغ کرے ,ایسی حالت میں دستور کی دفعہ 44 کا حوالہ دے کر صرف ووٹ بینک کی خاطر اور مسلم دشمنی کی بنیاد پر فرقہ پرستوں کا حکومت وقت سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ یکساں سول کوڈ کو بذریعہ قانون ملک میں نافذ کرے خود دستور کی اسپرٹ کے خلاف ہے ,جب تک ملک میں کوئی گروہ ایسا موجود ہے جو اس قسم کی قانون سازی کو اپنے مذہب میں بیجا مداخلت قرار دیتا ہے اس وقت تک خود دستور کی رو سے یکساں سول کوڈ لاگو کرنا ممکن نہیں ہے,دستور ہند میں مذہبی آزادی کی دفعہ 25 کوئی عام دفعہ نہیں ہے اور کوئی معمولی سی بات نہیں ہے, یہ انسانی حقوق کے اس عالمی منشور کے تحت آتا ہے جسے اقوام متحدہ نے 1948ء میں جاری کیا ہے اور جس کا ایک مستقل ممبر ہندوستان بھی ہے, اس عالمی منشور کے آرٹیکل 18 میں اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی, جس میں مذہب بدلنے کی آزادی اور اپنے پسندیدہ مذہب پر عمل کرنے کی آزادی بھی شامل ہے, ہندوستان نے اس عالمی منشور پر قومی حیثیت سے اپنا دستخط ثبت کیا ہے, اس طرح مذہبی آزادی ہر ہندوستانی شہری کا ایک ایسا بنیادی حق ہے جسے کسی بھی حال میں ساقط نہیں کیا جا سکتا, مذہب اور پرسنل لا کا یہ تعلق اتنا واضح ہے کہ دستور کی دفعہ 25 کے مطابق کسی بھی پارلیمنٹ یا کسی بھی ادارہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی گروہ کے اس بنیادی حق کو چھین لے اور اس کی مرضی کے بغیر اس کے اوپر ایسا قانون نافذ کرے جو مذکورہ دفعہ کے مطابق اس کے مذہبی معاملہ میں مداخلت کے ہم معنی ہو, 
یکساں سول کوڈ کا مسئلہ آج کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ ملک کے سامنے تقریباً 70 سالوں سے ہے, اکثریتی فرقہ عام طور پر اس کا حمایتی رہا ہے  اس کی سب سے زیادہ مخالفت مسلمانوں کی طرف سے سامنے آتی رہی ہے, یکساں سول کوڈ کے خلاف ہمارے علماء اور دانشوروں نے ہزاروں کی تعداد میں مضامین, پمفلٹ اور بیانات شائع کئے ,جلسوں اور تقریروں کی صورت میں اس مسئلہ پر جتنا بولا گیا شاید اور کسی ملی اور مذہبی مسئلہ پر اتنا نہیں بولا گیا ہے, اکثریتی فرقہ کا ذہن اب یہ بنا دیا گیا ہے کہ یکساں سول کوڈ ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے ایسی حالت میں یکساں سول کوڈ کا نہ بننا ان کے ذہن میں یہ تصور پیدا کرتا ہے کہ اقلیتی فرقہ یعنی مسلمان ملک کی ترقی میں رکاوٹ ہے, اس لئے اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ یکساں سول کوڈ کے نظریہ کو بغیر کسی ہنگامہ آرائی کے عین اسی بنیاد پر رد کیا جائے جو اکثریتی فرقہ کے نزدیک قابل قبول ہو, یعنی دلائل و حقائق کی بنیاد پر یکساں سول کوڈ کو رد کیا جائے, جب ہم یہ کہیں گے کہ” یکساں سول کوڈ ہمارے مذہب میں مداخلت ہے” تو یہ زبان اور انداز اکثریتی فرقہ کو ایک ناپسندیدہ چیخ و پکار معلوم ہوتی ہے مگر جب ہم یہ ثابت کردیں کہ یکساں سول کوڈ خود قومی مصالح اور عقلی دلائل کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا ہے تو یقیناً اکثریتی فرقے کا سنجیدہ طبقہ ہماری بات اور دلائل پر غور کرے گا اور اس کو ماننے پر مجبور ہوگا ان شاء اللہ, یاد رکھئے اسلام ایک فطری مذہب ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے ہر تقاضے کو دلائل فطرت کے زور پر ثابت کیا جا سکتا ہے, پھر جب یکساں سول کوڈ کے معاملہ کو دلائل فطرت کے زور پر رد کرنا ممکن ہو تو کیا ضروت ہے کہ ہم وہ زبان اور وہ طریقہ استعمال کریں جو اکثریتی فرقہ کو منفی شور و غل کے سوا کچھ اور دکھائی نہیں دیتی, اس لئے یکساں سول کوڈ کے معاملہ میں ہم اپنے نقطہ نظر کو عقلی دلائل اور علمی حقائق کی روشنی میں بیان کریں, کیوں کہ یہی انداز اور یہی اسلوب فریق ثانی کے نزدیک قابل قبول ہے اور یہی وہ انداز استدلال ہے جو موجودہ زمانے میں باوزن استدلال سمجھا جاتا ہے اور ما شاء اللہ اس کام کو ہمارے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نو منتخب صدر اپنی ٹیم کے ساتھ بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں, اللہ تعالیٰ کامیابی عطا فرمائے آمین, 
ڈاکٹر عبید اللہ قاسمی رانچی 
صدر تنظیم علماء جھارکھنڈ
پروفیسر مولانا آزاد کالج رانچی 7004951343

Leave a Response