پاکوڑ کا علمی طبقہ انکے ارتحال پر سوگوار ہے_آج انہیں بعد نماز عصر انکے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیاجائےگا
پاکوڑ جھارکھنڈ
25/05/2024
( اسلم حقانی)
//
نہایت ہی دکھ بھری خبر ہے کہ آج صبح چھ بجے پاکوڑ کی مایہ ناز شخصیت فعال جری عالم دین اپنے مالک حقیقی سے جاملے اناللہ واناالیہ راجعون
مولانا میرے بہت ہی قریبی رہے میرے ساتھ والہانہ تعلقات وراوابط میں رہے ہیں
افسوس کہ میں اندنوں دہلی میں ہوں صبح دس بجے انکے انتقال کی خبر ملی اور جنازہ عصر کے بعد ہے میرے پہچانا مشکل ہورہاہے
اللہ انہیں غریق رحمت کرے انکے خطاؤں گناہوں کو بخش دے اور جنت ا میں انہیں اعلی مقام نصیب کرے
موصوف بڑے قابل اور ماہر عالم دین تھے میں پاکوڑ کے کئی علماء سے انکے سلسلہ میں بتایا کہ انکے اندر کیا صلاحیت ہے وہ علمی پہنچ کس مقام پر آپ سب کو معلوم نہیں ہوگا
وہ بڑے لائق متمحس تھے ٹھوس عالم دین تھے فن خواہ کچھ بھی ہو
میرے ساتھ ہزاروں مسئلوں میں تبادلے ہوئے ہیں
انہوں نے دارلعلوم مئو سے فراغت کی تھی اور تدریس کےلئے بہت زیادہ آگے پیچھے ہوئے نہیں بھوانی پور کے دیوتلہ گئے اور مجھ سے کہنے لگے شیخ مدرسہ بدل کرنے کی وجہ انتظامیہ اور ذمہ داران سے تعلقات کے عدم بہتری ہے۔ کیوں ہم ایسے لوگوں کے ماتحت رہیں
بہتر یہی ہوگا ایک ادارہ اس نوعیت ہم کھول دتے ہیں چنانچہ انہوں نے اپنے ہی گاؤں میں مرکز التوعیۃ الاسلامیہ نامی ایک ادارہ کھول دیا
بڑے ملنسار اور بڑے باغیرت تھے لب ولہجہ منفرد تھا جب مسئلے مسائل پر خطاب کرتے تو نصوص ودلائل کے انبار لگادیتے اور خوب جم کر بولتے مسئلے مسائل میں کسی کی بھی ادنی رعایت نہیں کرتے نہ ہی کسی کیمارپیٹ کے دھمکی نے اس سے باز رکھ سکا اور نہ ہی کسی مدرسہ سے نکالنے جانے کے ڈرنےستایا
ہم دونوں مدرسہ حمیدیہ دارالحدیث بھوانی پور میں ایک ساتھ مدرسی کررہے تھے شاید ہی ثناءاللہ صاحب نے کوئی اقدام میرے مشورہ کے بغیر کیا ہو وہ برابر مجھ سے پوچھتے پھر آگے بڑھتے دینی شرعی مسئلہ /نحو وصرف کے قواعد ومسائل پر گھنٹوں فون پر باتیں ہوتی رہتی تھی وہ اس امید سے بھی مجھے فون کرتے تھے کہ اگر اسلم سے حل نہیں ہوگا تو انکے سامنے ہی ایک انسائکلوپیڈیا بھی ہے
جمعیت وجماعت کے تعلق سے ڈھیر سارے امور پر ہم دونوں برابر گفتگو کرتے رہتے
مولانا ثناء اللہ صاحب بڑے باغیرت باصلاحیت عالم تھے دیوتلہ میں لمبے وقت پرنسپل کے عہدہ پر فائز رہے شیخ الحدیث کی ذمہ داری سنبھال ہوئے رہے اور دیوتلہ کے اپنے اس ادارہ کو جامعہ سلفیہ بنارس کے وفاق کے ساتھ ضم کردئیے
یہ انکا بڑاکارنامہ رہا ہے
میرے ساتھ کے کچھ واقعات ہیں جن سے انکی بہادری فرض شناسی علمی جرأت اور صلاحیت وقابلیت کے گوشے کھلتے ہیں
جب 2004 میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس ہونے والی تھی مجھے پتہ چلا کہ پاکوڑ میں قادیانی اپنا پیر پسار رہاہے اور سبزی فروشوں سے قادیانی کے لوگ جو پنجاب گوہاٹی سے آئے ہوئے ہیں خوب مل رہے ہیں اور اپنی کتابیں تقسیم کررہے ہیں ہم دونوں نے مولانا معین الحق صاحب اثری سے مشورہ کیا اور اسی گاؤں کے ایک امام کو لیکر پاکوڑ پہنچے قادیانیوں سے بحثیں ہوئیں اور ان سب کی طرف چلینجزس کے جواب کے لئے ہملوگوں کوئی تاریخ اور مجلس وغیرہ کامطالبہ بھی کیا دو مرتبہ کی آمد ورفت اوروبحث ومباحثہ پر قادیانی کی وہ جماعت اپنے دفتر سمیت یہاں سے بھاگ گئی ہم لوگوں نے شیخ عقیل اخترمکی سے رابطہ کیا تھا انہوں نے کہا تھا کہ کانفرنس ہوجائے پھر اس پر کام ہوگا موصوف نے پاکوڑ کے کچھ نوجوانوں کو فون پر بلایا اور حقیقت حال دریافت کیا
بہر حال موجودہ امیر اس وقت کے ناظم عمومی شیخ اصغر علی امام مہدی سلفی صاحب کو فون کیا اور قادیانیت رد قادیانیت پرکچھ کتابیں منگوایا اورجامعہ سلفیہ بنارس سے بھی کچھ کتابیں فراہم کروایا اور لوگوں میں تقسیم کروادیا
خدا بخشے بڑی خوبیوں کےمالک تھے مولانا ثناءاللہ حقانی صاحب
آج انہیں بعد نماز عصر انکے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیاجائےگا