All India NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand News

سپریم کورٹ نے عبادت گاہوں کے خلاف نئے مقدمات درج کرنے پر روک لگائی، زیر التوا مقدمات میں حتمی فیصلے اور سروے کے احکامات جاری کرنے پر پابندی

Share the post

صدر جمعیۃ علماء ہند عرضی گزار مولانا محمود مدنی نے کہا کہ ہمارا مقصد اس ملک میں امن و امان کا تحفظ کرنا ہے


نئی دہلی 12؍ دسمبر : صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی ودیگر کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے آج سپریم کورٹ نے ملک کے سبھی عدالتوں کو ہدایت جاری کی ہے جب تک کہ سپریم کورٹ کا اگلا حکم نہ آجائے ،ملک میں کسی بھی عبادت گاہ (مسجد ،مندر اور درگاہ) کے خلاف کوئی نیامقدمہ درج نہیں کیا جائے گا ۔عدالت نے مزید کہا کہ زیر التوا مقدمات (جیسے گیان واپی مسجد، متھرا شاہی عیدگاہ، سنبھل جامع مسجد وغیرہ) میں کوئی بھی عدالت سروے کا حکم جاری نہیں کرے گی اور نہ ہی ایسا عبوری فیصلہ سنائے گی جس سے عبادت گاہ کی نوعیت متاثر ہو۔ سپریم کورٹ کی ہدایت سے ان لوگوں کو شدید جھٹکا لگا ہے ، جو ہر مسجد کے پیچھے مندر تلاش رہے تھے ۔
چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشوناتھن پر مشتمل ایک خصوصی بنچ نے یہ حکم عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق پلیسز آف ورشپ (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 کو چیلنج کرنے والی متعدد عرضیوں کی سماعت کے دوران دیا ۔ جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے عدالت میں ایڈوکیٹ دشینت داوے اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ منصور علی خاں اور ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی موجود تھے ۔ جمعیۃ کے وکیل دشینت داوے نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ سبھی جاری مقدمات کو کالعدم کیا جائے، بنچ کو مطلع کیا گیا کہ اس وقت ملک میں 10 مساجد/درگاہوں کے خلاف 18 مقدمات زیر التوا ہیں،تاہم، عدالت نے پہلے سے زیر التوا مقدمات کی سماعت کو معطل کرنے سے انکار کر دیا۔


عدالت نے مرکز (یونین حکومت) کو ہدایت دی کہ وہ عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ پر دائر عرضیوں کے خلاف چار ہفتے کے اندر اپنا جواب داخل کرے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ مرکز کے جوابی حلف نامے (counter affidavit) کی کاپی کسی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جائے تاکہ کوئی بھی شخص اسے ڈاؤن لوڈ کر سکے۔
یہ سماعت 1991 کے پلیسز آف ورشپ ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی کئی عرضیوں کے تناظر میں ہوئی۔ اس قانون کا مقصد 15 اگست 1947 کو عبادت گاہوں کی جو حیثیت تھی، اس کو برقرار رکھنا اور اس میں تبدیلی سے روکنا ہے۔
اس معاملے کی اصلی درخواست اشونی کمار اپادھیائے بنام یونین آف انڈیا کے عنوان سے 2020 میں دائر کی گئی تھی، جس میں سپریم کورٹ نے مارچ 2021 میں مرکز کو نوٹس جاری کیا تھا۔ بعد میں اس قانون کو چیلنج کرنے والی دیگر درخواستیں بھی دائر کی گئیں۔آج کی سماعت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے بھی ایک رٹ پٹیشن درج کی گئی، جس میں 1991 کے ایکٹ کے مکمل نفاذ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ کئی سیاسی جماعتوں نے اس قانون کے تحفظ کے لیے مداخلتی درخواستیں دائر کی ہیں، جن میں سی پی آئی (ایم)، انڈین یونین مسلم لیگ، ڈی ایم کے، آر جے ڈی ایم پی منوج جھا اور این سی پی (شرد پوار) کے ایم پی جتیندر اوہاد شامل ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یونین حکومت نے عدالت کی جانب سے دی گئی کئی توسیعات کے باوجود اب تک اپنا جواب داخل نہیں کیا ہے۔یہ قانون اس وقت عوامی بحث کا موضوع بن گیا جب اترپردیش کی سنبھل جامع مسجد کے سروے کے بعد پولس تشدد کے واقعات پیش آئے۔ اس کے بعد اس معاملے پر عوامی حلقوں میں شدید بحث و مباحثہ ہوا اور عدالت نے اس معاملے میں سخت ہدایات جاری کیں۔


آج عدالت کی کارروائی پر عرضی گزار صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ ہمارا مقصد اس ملک میں امن و امان کا تحفظ کرنا ہے، ہمیں ماضی میں جھانکنے سے زیادہ اس ملک کے مستقبل کی تعمیر اور اس تعمیر میں سبھی طبقوں کی یکساں نمائندگی پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ مسجد مسجد مندر تلاش کرنے والے اس ملک کی یک جہتی اور اتحاد کے دشمن ہیں ۔ جمعیۃ علماء ہند نے ہمیشہ فرقہ پرستی کی مخالفت کی ہے اور اس نے ان دروازوں کو بند کرنے کے لیے بھی ارباب اقتدار کو بارہا متوجہ کیا ہے جن راستوں پر فرقہ پرستی کا ناگ پھن مارے کھڑا ہے ۔ یہ جمعیۃعلماء ہند کی ہی کوشش تھی کہ ۱۹۹۱ میں ایکٹ بنا اور ان شاء اللہ ہماری کوشش سے یہ ایکٹ نافذ العمل بھی ہوگا۔

Leave a Response