All India NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand News

رانچی کے علماء ثلاثہ کی دینی و معاشرتی خدمات ( مولانا ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی)

Share the post

گزشتہ سے پیوستہ : آخری قسط؛
( 3 ) حضرت مولانا اختر حسین مظاہری جو ابھی ماشاءاللہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بقید حیات ہیں گو کہ مستقل بیمار رہنے لگے ہیں ، حضرت مولانا قاری علیم الدین قاسمی علیہ الرحمہ اور میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب علیہ الرحمہ کی وفات اور جدائی نے انہیں وقت سے پہلے بوڑھا ،ضعیف اور کمزور کردیا ہے،اللہ تعالیٰ انھیں صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ عطاء فرمائے اور ان کا سایہ ہم لوگوں پر تادیر قائم رکھے آمین ثم آمین ,
علماء ثلاتہ میں عمر کے اعتبار سے مولانا تیسرے نمبر پر ہیں لیکن تینوں کی جوڑی خوب جمتی تھی ، مولانا اختر حسین مظاہری صاحب بنیادی طور پر پترا ٹولی کانکے کے رہنے والے ہیں، انہوں نے مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی سے حفظ قرآن مکمل کیا اور اس کے بعد ملک کے مشہور و معروف دینی ادارہ مظاہر العلوم سہارنپور سے 1975عیسوی میں فراغت حاصل کی، مولانا مظاہر العلوم سہارنپور کے ناظم اعلی اور مشہور و معروف بزرگ عالم دین حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب علیہ الرحمہ کے خاص خادم تھے جن کا روحانی فیض آج بھی مولانا اختر صاحب کو حاصل ہے، مظاہر العلوم سہارنپور سے فراغت کے بعد علاقے کے لوگوں نے بے انتہا خوشی کا اظہار کیا اور آپ کا بھر پور استقبال کیا انہوں نے محسوس کیا کہ علم دین سے آراستہ اور کچھ کر گزرنے کا حوصلہ اور جذبہ رکھنے والا ہمارا یہ نوجوان عالم دین ہمارے علاقے کی دینی قیادت کرے گا اور ان کے ذریعے علاقے میں جہالت کا اندھیرا دور ہوگا اور علم دین کی روشنی پھیلے گی ،اپنے اسی احساس وجذبے اور حوصلے کے تحت علاقے کے ذمےدار لوگوں نے ایک مخلص اور دیندار “انصاری صاحب” کے نام سے مشہور شخص کے مشورے پر کلکتہ کے مشہور و معروف اور قدیم دینی ادارہ” مدرسہ عالیہ کلکتہ” کی نسبت سے پترا ٹولی میں پہلے سے قائم مکتب کا نام “مدرسہ عالیہ” رکھا اور اس کا ناظم و مہتمم ہونہار اور نوجوان عالم دین مولانا اختر حسین مظاہری صاحب کو بنایا گویا مولانا اختر حسین مظاہری صاحب مدرسہ عالیہ پترا ٹولی کانکے رانچی کے فاؤنڈر یعنی بنیادی اور اساسی مہتمم ہیں جنہوں نے اپنی دور اندیشی اور فراست علمی سے کام لیتے ہوئے سب سے پہلے مدرسہ عالیہ کو اقامتی ادارہ میں تبدیل کیا تاکہ 1967 عیسوی کے رانچی فساد کے خوف و ہراس کی وجہ کر علاقے کے بچے دور کے مدارس کے بجائے اپنے علاقے کے اقامتی مدرسہ عالیہ پترا ٹولی کانکے میں رہ کر پُرامن ماحول میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں، اس مدرسہ کو ترقی دینے اور اس کو اگے بڑھانے میں انہوں نے اپنی پوری زندگی لگا صرف کر دی ، مولانا اختر حسین صاحب کی دن رات کی محنت و کوشش سے مدسہ عالیہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے لگا علاقائی اور بیرونی طلباء کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہونے لگا ترقی کی اس راہ میں مولانا اختر حسین مظاہری صاحب کا حضرت مولانا قاری اشرف الحق مظاہری صاحب اور خافظ خلیل صاحب ماسیاتو پلاموی نے شروع سے بھر پور ساتھ دیا ،لیکن افسوس کہ بعد میں حافظ خلیل صاحب ایک جونیئر استاد اور باپ کی سرپرستی و حمایت کا ناجائز فائدہ اٹھانے والے بدتمیز قاری کی بیہودگی اور بدتمیزی سے نالاں ہوکر خود ہی مدرسہ سے الگ ہوگئے گرچہ مولانا اختر حسین صاحب اور قاری اشرف الحق صاحب نے انھیں منانے اور مدسہ چھوڑ نہ جانے کی بہت گزارش کی، مولانا اختر حسین صاحب کے ہمراہی قاری اشرف الحق کی فراغت بھی مظاہر العلوم سہارنپور سے 1977 عیسوی میں ہوئی، اس وقت سے لے کر آج تک وہ مولانا اختر حسین صاحب کے ساتھ کاندھا سے کاندھا ملا کر چل رہے ہیں اور ہر موقع پر قاری اشرف الحق مظاہری نے مولانا اختر حسین صاحب کا قدم قدم پر ساتھ دیا جس کا احساس اور اعتراف مولانا اختر حسین صاحب کو بھی ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے قاری اشرف الحق صاحب کو مدرسہ عالیہ کا نائب مہتمم مقرر کیا تاکہ مسند اہتمام کی نیابت بھی قاری اشرف حسین صاحب بحسن و خوبی انجام دے سکیں ، مولانا اختر حسین صاحب نے جب مدرسہ عالیہ کے اہتمام کی ذمداری سنبھالی تو قاری علیم الدین قاسمی اور میرے والد مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب نے انہیں تنہا نہیں چھوڑا ان دونوں حضرات نے مدرسہ عالیہ کو آگے بڑھانے اور اس کو ترقی دینے میں ہر طرح سے مولانا اختر صاحب کا ساتھ دیا چونکہ قاری علیم الدین قاسمی صاحب مدرسہ عالیہ کے سرپرست تھے اس لئے بھی انہوں نے اور میرے والد محترم نے شہر رانچی سے مالی فراہمی میں بھر پور معاونت کی ،مھجے یاد ہے کہ قاری علیم الدین قاسمی صاحب خود مدرسہ محمودیہ سرسا مڑما راتو رانچی کے مہتمم اور سرپرست ہونے کے باوجود جمعہ کے روز مدینہ مسجد کے منبر و محراب سے مدرسہ عالیہ پترا ٹولی کانکے کے لئے ہمیشہ چندہ کی اپیل کرتے اور خصوصاً رمضان المبارک میں زکواۃ و فطرات اور عید الاضحی میں چرم قربانی کے ذریعے مدرسہ عالیہ کا بھر پور تعاون کرنے کی عوام سے پُرزور اپیل کرتے ، جس سے مولانا اختر حسین مظاہری صاحب کا بھی حوصلہ بڑھ جاتا ، مدرسہ عالیہ کو جب مقامی کمیٹی کی ماتحتی سے نکال آزادانہ طور چلانے کی پوری ذمےداری مولانا اختر حسین مظاہری صاحب کو دی گئی تو انہوں نے واقعی اس ذمےداری کو بحسن و خوبی نبھایا اور اب تک نبھاتے چلے آئے ہیں جس کا ٹبوت یہ ہے کہ مدرسہ عالیہ اپنے اول دن سے تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور آئیندہ بھی رہے گا ان شاءاللہ ، مولانا اختر صاحب کی محنت و کاوش اور قاری اشرف حسین صاحب کی معاونت اور اساتذہ کی تدریسی صلاحیتوں کی بنیاد پر اس وقت مدرسہ عالیہ کانکے میں تقریبآ ڈھائی سو بچے درجہ حفظ اور عربی اول تا عربی پنجم میں زیر تعلیم ہیں گو کہ ایک زمانے میں یہاں درجہ ہفتم مشکواۃ تک کی تعلیم ہوتی تھی،مولانا اختر حسین صاحب صرف ایک مدرسہ کے مہتمم ہی نہیں ہیں بلکہ وہ ایک سیاسی بصیرت و بصارت رکھنے والے عالم دین بھی ہیں ،علاقے میں فرقہ پرستوں نے جب کبھی امن و امان کے ماحول کو بگاڑنا اور مسلمانوں کے حوصلے کو پست کرنا چاہا تو اس وقت مولانا اختر صاحب نے انجام کی پرواہ کئے بغیر مسلمانوں کی قیادت کی ہے اور فرقہ پرستوں کے حوصلے پست کئے ہیں اور ان کے ارادوں اور منصوبوں ناکام کیا ہے اور امن و امان کے ماحول کو قائم کرنے میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے ، اقراء مسجد مین روڈ رانچی کے پہلے خطیب ہونے کا شرف بھی مولانا اختر صاحب کو حاصل ہے ، پترا ٹولی کانکے عید گاہ کے بھی خطیب رہے ہیں اور اس موقع سے بھی لوگوں کی دینی رہنمائی کرتے رہے ہیں ، میرے والد محترم کے بعد مجلس علماء جھارکھنڈ کے جنرل سکریٹری بھی رہے ہیں ، اس پلیٹ فارم سے بھی آپ کی دینی اور معاشرتی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے ،مجلس علماء جھارکھنڈ کے پلیٹ فارم سے سینکڑوں مسائل آپ نے قاری علیم الدین قاسمی صاحب اور میرے والد محترم مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب کے ساتھ مل کر حل کیا ہے ، آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ ” قاری علیم الدین قاسمی صاحب اور مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب کے بغیر اختر حسین ادھورا ہے”
آدرے ہاؤس میں ہر سال رمضان المبارک میں متحدہ بہار کے وقت سے ہی ریاستی سرکار کی طرف سے دعوت افطار کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے جہاں وزیراعلی کی بھی شرکت ہوتی رہی ہے، افطار کے بعد مغرب کی نماز پڑھانے کا شرف مولانا اختر حسین مظاہری صاحب کو حاصل رہا ہے اسی مناسبت سے بہار کے دبنگ وزیراعلی لالو پرساد یادو سے مولانا اختر حسین صاحب کی قربت اور نزدیکی بڑھی ،لالو پرساد یادو مولانا اختر حسین صاحب کی گفتگو اور ان کی سیاسی دور اندیشی سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے مولانا اختر حسین صاحب کو ایک خصوصی کارڈ دے رکھا تھا جس کے ذریعے وہ لالو پرساد یادو سے جب چاہیں بلا روک ٹوک مل سکتے تھے ،مولانا نے لالو پرساد یادو کی دئی ہوئی اس سہولت کے ذریعے کتنوں کے کام بنا دئے اور بدلے میں کبھی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا سوائے مدرسہ عالیہ کی فلاح و بہبودی کے ، ان کی سادگی کا تو یہ عالم ہے کہ اکثر و پیشتر دینی جلسوں میں گئے ، تقریر کی ، مسجد یا مدرسہ کی تعمیر کے لاکھوں روپئے تشکیلی چندہ کیا اور بغیر نذرانہ لئے یا وصول کئے چلے آئے حتی کہ بعض مرتبہ اپنی گاڑی میں تین بھرانے کے پیسے کا بھی مطالبہ نہیں کیا ہے ، یہ ہے ہمارے جھارکھنڈ کی شرافت و سادگی اور یہاں کی مٹی کا خلوص اور اس کی خوشبو ، جھارکھنڈ کے علاوہ ایسے سادہ لوح اور کہاں ملیں گے ؟ یہی وجہ ہے کہ پیشہ ور شعراء اور مقرر ہمارے ہی بیچ موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہر سال مساجد و مدارس اور اصلاح معاشرہ کی نسبت سے منعقد ہونے والے جلسوں سے ہزاروں ہزار کی کمائی کر کے چلے جاتے ہیں اور یہاں کے باصلاحیت علماء اور بہتریں مقرر اور نعت خواں اپنے ہی درمیاں موجود چند حاسدین علماء کے بغص و عناد اور حسد و کینہ کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں ، ہمیں انھیں پہچاننے اور ان کا بہتر علاج کرنے کی ضرورت ہے گرچہ صلاحیتیں کسی جگہ اور مقام کی محتاج نہیں ہوتیں صلاحیتوں کو ابھرنے ،نکھرنے اور اپنا جوہر دکھانے کا موقع کہیں نہ کہیں مل ہی ہی جاتا ہے ، مولانا اختر حسین صاحب نے ہمیشہ کچھ گزرنے کا حوصلہ رکھنے والے اصاغر علماء و حفاظ کو ہمیشہ آگے بڑھایا ہے اور آگے بڑھنےاور نکھرنے کا بھر پور موقع عنایت فرمایا جس کی کئی مٹالیں موجود ہیں مصلحتاً ناموں کے ذکر سے اطمینان گریز کرتا ہوں ، مولانا اختر حسین صاحب کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ،بڑا بیٹا حافظ و قاری مظفر امام مدرسہ عالیہ میں ہی مدرس ہیں جبکہ دوسرا بیٹا مولانا مکرم مسجد حراء بریاتو رانچی کے امام و خطیب ہیں ،مولانا مکرم صاحب مسجد حراء میں رہ کر عام اماموں کی روش سے ہٹ کر دین کی خدمت میں لگے رہتے ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے کے بھی دینی پیغامات اور دینی مسائل عام فہم انداز میں عوام اور خاص کر نئ نسل تک پہنچانے میں لگے رہتے ہیں،
اللہ تعالیٰ مولانا اختر حسین مظاہری صاحب کو صحت و تندرستی عطاء فرمائے اور ان کا سایہ ہم سب پر تا دیر قائم رکھے آمین ثم آمین یا ربّ العالمین ،

Leave a Response