مولانا غلام مصطفی صاحب کی شخصیت اور ان کی خدمات ( ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی 7004951343 )


رانچی شہر میں کئی ایسے علماء گزرے ہیں جنھوں نے مذھبی ، تعلیمی اور معاشرتی خدمات کی بنیاد پر اپنی ایک الگ شناخت اور پہچان بنالی تھی جس سے ان کی انفرادیت قائم ہوگئی تھی ، انھیں علماء میں ایک اہم نام حضرت مولانا غلام مصطفی صاحب علیہ الرحمہ کا ہے ، گھٹنوں سے اوپر سفید رنگ کا بغیر کالر کا کرتا ، چوڑا پاجامہ ،سر پر مخملی ٹوپی ، چہرے پر ایک مشت سے کم ہلکی داڑھی اور چہرے پر متانت و سنجیدگی لئے کم گو اور کم سخن عالم دین مولانا غلام مصطفی صاحب علیہ الرحمہ بنیادی طور پر ایک غیر معروف گاؤں ” سملا ” شیر گھاٹی ضلع گیا بہار کے رہنے والے تھے ، آپ کے والد محترم معاش اور روزگار کی تلاش میں مع اہل و عیال راورکیلا اڑیسہ چلے گئے اور وہیں آباد ہوگئے ، اپنے کاروبار کی غرض سے راورکیلا گئے راعین برادری کے کچھ ذمدار حضرات آپ کے والد محترم کی اجازت سے آپ کو راعین مسجد کی امامت و خطابت کے لئے رانچی لے آئے اور راعین مسجد کی امامت و خطابت کی پوری ذمےداری آپ کے سپرد کردی ، اپنی نوجوانی کے دور سے لے کر زندگی کے آخری لمحات تک آپ نے راعین مسجد کی امامت و خطابت کی ذمےداری کو بحسن و خوبی قائم رکھا ، واضح ہو کہ راعین مسجد کے اس پاس کسی زمانے میں کثرت سے صابن کارخانہ ہوا کرتا تھا اسی نسبت سے راعین مسجد کا قدیم نام ” صابن گڑھ مسجد” پڑگیا تھا پھر کچھ عرصہ بعد ” راعین محلہ مسجد” کہا جانے لگا اور پھر کچھ عرصہ بعد ” راعین مسجد” کہا جانے لگا اور اب مستقل طور پر مسجد اسی نام سے جانی جاتی ہے ،
راعین مسجد کی تعمیر و توسیع اور اس کی ترقی میں راعین برادری کے لوگوں کی بڑی قربانی رہی ہے ، ان کے اندر دینی تحریک اور دینی جذبہ پیدا کرنے میں مولانا غلام مصطفی صاحب کا بہت اھم کردار رہا ہے ، مولانا غلام مصطفی صاحب نے اس مسجد میں رہتے ہوئے معاشرے کی اصلاح کے لئے بہت کام کیا ، ہر نماز کے بعد محلہ کے ایک ایک گھر میں جاکر انفرادی ملاقات کرتے اور ھر ایک کو نماز کی دعوت دیتے تھے ، حضرت مولانا غلام مصطفی صاحب کو تعلیم سے بڑا لگاؤ تھا وہ عالم دین دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر بھی تھے شاعری میں آپ کا تخلص” اثر” تھا یعنی غلام مصطفی اثر ، مشاعرے میں آپ اپنا کلام بھی پڑھتے تھے ، کسی زمانے میں راعین مسجد کے پیچھے چھپر والے مکان میں پرائمری میونسپلٹی اسکول ہوا کرتا تھا جہاں مولانا اور ان کی اہلیہ محترمہ محلے اور آس پاس کے بچوں کو تعلیم دیتی تھیں ، اس پرائمری اسکول کی تعلیم سے علاقے میں پڑھنے کا ماحول قائم ہوا، مولانا غلام مصطفی صاحب تعلیم کی ترویج و اشاعت پر بہت زور دیا کرتے تھے ، انہوں نے امامت و خطابت کی ذمداریوں کو محض رسمی طور پر ادا نہیں کیا بلکہ امامت و خطابت کے علاوہ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی تعلیم اور معاشرے کی اصلاح اور اس کے لئے عملی اقدام کی فکر میں ہر وقت لگے رہتے تھے جس کا ثبوت یہ کہ مولانا لیک روڈ جہاں آج راعین اسکول ہے کے بغل میں ایک کرایہ کے مکان میں رہتے تھے ٹھیک اس کے بغل میں ایک لاولد بیوہ مغل خاتون رہتی تھی جو “مغلائین نانی” کے نام سے مشہور تھی اس نے اپنا مکان مولانا غلام مصطفی صاحب کو بطور ھدیہ دینا چاہا اور اس کے لئے اس نے بہت بہت اسرار کیا کہ یہ مکان میں آپ کو دینا چاہتی ہوں تاکہ آپ کا اپنا ذاتی مکان ہو جائے کیونکہ میرے بعد تو میرا کوئی وارث بھی نہیں ہے لیکں مولانا نے شان بے نیازی کے ساتھ کہا کہ آپ اس زمین کو مسجد کمیٹی کو وقف کردیں ، مولانا کے سمجھانے اور اسرار کرنے پر “مغلائین نانی” نے اپنی وہ زمین جہاں آج راعین اسکول کی عالیشان اور شاندار عمارت کھڑی ہے مسجد کمیٹی کے نام وقف کر دیا تو مولانا نے مسجد کمیٹی کے لوگوں سے کہا اب اس جگہ پر قوم کی بچیوں کے لئے اسکول کھولو ، مولانا کی ترغیب پر اس زمین میں عارضی عمارت تعمیر کی گئی جس کا سنگ بنیاد مولانا غلام مصطفی صاحب نے رکھا اور مسلم لڑکیوں کے لئے پہلے راعین اردو مڈل گرلس اسکول شروع کیا گیا اور جب اسکول کامیابی کے ساتھ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے لگا تو پھر بعد میں راعین اردو گرلس ہائی اسکول بھی کردیا گیا ، کثرت سے مسلم لڑکیاں راعیں اسکول میں پڑھنے لگیں اور اسکول بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے لگا ، اسکول میں لڑکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر جب اسکول کی پختہ عمارت کی تعمیر سرکار کی طرف سے کی جانے لگی تو اس وقت بھی اسکول کی عمارت کا سنگ بنیاد مولانا غلام مصطفی صاحب نے رکھا ، اس طرح راعین اسکول کی بنیاد اور اس کی تعمیر میں مولانا غلام مصطفی صاحب کا کردار بہت اھم رہا ہے، متحدہ بہار کے اس وقت کے وزیر تعلیم جناب غلام سرور صاحب نے راعین اسکول کی تعلیمی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اس اسکول کو سرکاری طور پر مسلم اقلیتی اسکول کی حیثیت سےئمنظوری دی ، اس طرح راعین اسکول کے لئے مغلائن نانی کو زمین وقف کرنے کی ترغیب دینے پھر دو مرتبہ مولانا کے ہاتھوں سنگ بنیاد رکھنے سے لے اسکول کو اگے بڑھانے اور اس کو ترقی دینے میں مولانا غلام مصطفی صاحب کی بہت محنت اور قربانی رہی ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے ، راعین اسکول کی تاریخ مولانا غلام مصطفی صاحب کا ذکر کئے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ہے ،
اس کے ساتھ ہی راعین برادری کے لوگوں کی قربانیاں بھی قابل مبارکباد ہیں کہ انھوں نے مولانا غلام مصطفی صاحب کو ہمیشہ اپنے سروں پر بٹھا کر رکھا ، آج کی کمیٹیوں کی طرح غلام بناکر نہیں رکھا اور نہ ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر مسجد سے نکال باہر کرنے کی دھمکی دی ، راعین برادری کے لوگوں نے مولانا غلام مصطفی صاحب کو باپ کا درجہ دے رکھا تھا ، قوم و ملت کی فلاح و بہبودی کے لئے مولانا نےجب جیسا کہا اور جیسا مشورہ دیا راعین برادری کے لوگوں نے ویسا ہی کیا، مولانا نصف صدی سے زائد راعین مسجد میں امامت و خطابت کی ذمےداریوں کو بڑی حسن و خوبی کے ساتھ نبھاتے رہے ، ان کی شخصیت اور ان کا کردار بہت صاف ستھرا رہا یہی وجہ ہے کہ ان پر کبھی کسی قسم کا کوئی سوال کھڑا نہیں ہوا ،
ان کی امانت و دیانت اور صاف ستھری شخصیت کی بنیاد پر ہی 1967 کے رانچی فساد کے ریلیف فنڈ کی بچی ہوئی رقم آپ کے پاس کئی سال تک بطور امامت رکھی رہی ،بعد میں ریلیف فنڈ کی اسی بچی ہوئی رقم سے کونکا روڈ میں انجمن اسلامیہ اسپتال کے نام سے زمین خریدی گئی جس میں آج انجمن اسلامیہ اسپتال قائم ہے ، مولانا غلام مصطفی صاحب کی ” شہر قاضی” کی حیثیت سے ایک انفرادی شناخت اور پہچان تھی ، ” شہر قاضی” ان کے نام کا حصہ بن گیا تھا ، شہر قاضی جب کہا جاتا تو ہر شخص کے ذہن و دماغ میں مولانا غلام مصطفی صاحب ہی ہوتے ، آج تو شہر قاضی آلو پیاز کی طرح شہر میں نظر آنے لگے ہیں ، شہر میں کہیں بھی نکاح ہوتا تو شہر قاضی مولانا غلام مصطفی صاحب ہی نظر آتے تھے ، مولانا غلام مصطفی صاحب نے آج کے بعض سرکاری قاضی کی طرح کبھی کسی لڑکا اور لڑکی کا نکاح موٹی رقم کی لالچ میں اس کے ولی یا گارجین کی اجازت یا ان کی مرضی کے خلاف نہیں پڑھایا اور نہ ہی نکاح پڑھانے کی کوئی فیس ان کی متعین تھی ،جو دے دیا وہ خاموشی سے لے لیا ، نکاح پڑھانے کی فیس کے لئے انہوں نے کبھی بھی اور کہیں بھی کچکچ اور حجت بازی نہیں کی ، مولانا کہیں اڈہ بازی کرتے ہوئے نظر نہیں آتے تھے ،مولانا کی ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ آذان ہونے کے بعد جماعت سے بہت پہلے مسجد میں بیٹھے ہوئے رہتے تھے ، مقتدیوں کو بعض مسجدوں کے اماموں کی طرح انتظار کرنا نہیں پڑتا تھا ، مولانا بہت خاموش طبیعت کے مالک تھے ،مولانا کے انتقال سے راعین مسجد میں جو خلا پیدا ہوا وہ ان کے بعد پر ہوا یا نہیں اس کا صحیح اندازہ اور اس کا صحیح احسان تو راعین برادری اور اس محلہ کے لوگوں کو ہی ہوگا جن کے نزدیک مولانا غلام مصطفی صاحب صرف ایک مسجد کے امام نہیں تھے بلکہ اس محلے ، علاقے اور خصوصاً راعین برادری کے لوگوں کے لئے ایک گارجین اور سرپرست کی حیثیت رکھتے تھے ، مولانا غلام مصطفی صاحب کے تین لڑکے ہیں ، صلاح الدین ، نہال الدین اور کمال الدین ، صلاح الدین رسالدار نگر ڈورنڈہ رانچی میں رہتے ہیں ، نہال الدین لدھیانہ میں رہتے ہیں جبکہ چھوٹے لڑکے کمال الدین چند سال پہلے وفات پاچکے ہیں ، آللہ تعالیٰ مولانا غلام مصطفی صاحب کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے آمین








