ھند پیڑھی کے حافظ جمال الدین علیہ الرحمہ کی شخصیت اور ان کی خدمات (ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی)


رانچی کا مسلم اکثریتی علاقہ ھند پیڑھی کئی معنوں میں اپنی ایک الگ شناخت اور پہچان رکھتا ہے ، رانچی کی پرانی اور اصل ھند پیڑھی نہی ہے، رانچی کی پرانی مسلم آبادی والا علاقہ اصل میں پہاڑی ٹولہ ، کڈرو اور پرانی رانچی ہے، ھند پیڑھی کا اکثر و پیشتر علاقہ ان علاقوں کے بعد آباد ہوا، ھند پیڑھی میں کئی شخصیتیں ایسی گزری ہیں جنہوں نے اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد پر کئی اھم اصلاحی و فلاحی کام کئے ہیں جس کا صحیح علم نئی نسل کے لوگوں کو نہیں ہے ، ایسے لوگوں خدمات کو اجاگر کرنا میری اس تحریر کا مقصد و منشاء ہے ، انھیں میں ایک اھم اور نمایاں شخصیت ھند پیڑھی رانچی کے جناب حافظ جمال الدین علیہ الرحمہ کی ہے ، جو میرے اپنے نانا تھے ، جنھوں نے ھند پیڑھی ساؤتھ اسٹریٹ کو بسایا ہے، کے میرا یہ مضمون نانا کی شخصیت کے تعارف کی حیثیت سے نہین بلکہ ھند پیڑھی کی ایک اھم سماجی خدمت گار شخصیت اور اں کی کارکردگی کو اجاگر کرنے کی حیثیت سے ہے ، میرے نانا جناب حافظ جمال الدین مرحوم اس دور کے حافظ تھے جس دور میں علم دین سے دوری کی بنیاد پر خال خال ہی عالم اور حافظ ہوا کرتے تھے ، میرے نانا حافظ جمال الدین مرحوم نے جب حفظ مکمل کیا تو پورے ہند پیڑھی میں اس وقت صرف دو ہی حافظ تھے ،ایک میرے نانا حافظ جمال الدین مرحوم صاحب اور دوسرے آئیڈیل کلاتھ کے مالک حافظ ضمیر الدین مرحوم صاحب ، حافظوں کی کمی کے باعث میرے نانا بتاتے تھے کہ ہم لوگ رمضان المبارک میں نو نو دنوں کی تین تین جگہ تراویح کی نماز پڑھاتے تھے ، حافظ جمال الدین مرحوم ایک کامیاب تاجر تھے ، بکس کا کارخانہ تھا آج بھی ہمارا نانیھال بکسہ کارخانہ سے مشہور ہے ، چرچ روڈ نور بلڈنگ میں دوکان تھی جہاں سے بکس کا کاروبار ہوتا تھا جو آج بھی قائم ہے ، بعد میں دیسی مرغی پالن اور کرایہ پر درجنوں رکشہ گیراج کا کاروبار بھی شروع کیا جو بہت کامیاب رہا ، مصروف ترین کاروباری اور تاجر ہونے کے باوجود آپ سماجی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے ، غریبوں ، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی دل کھول کر مدد کیا کرتے تھے ، جس زمانے میں مدرسہ حسینیہ کڈرو کے حاجی شہود الدیں مرحوم کے گھر میں چلتا تھا تو مدرسہ حسینیہ کے لئے زمین حاصل کرنے اور مدرسہ کی اپنی مستقل عمارت کی فکر میں جو لوگ سر گرداں رہتے تھے ان میں ایک اھم نام میرے نانا حافظ جمال الدین مرحوم کا بھی ہے اس لئے کہ حافظ جمال الدین مرحوم کی ھرمو اور کڈرو میں کھیت کی شکل میں بہت زمین تھی اور حاجی شہود الدیں میرے نانا کے ساتھیوں میں سے تھے اس لئے کڈرو سے ایک خاص قسم کا رشتہ تھا اور کثرت سے حاجی شہود صاحب کے یہاں آنا جانا لگا رہتا تھا، جب مدرسہ حسینیہ میرے نانا اور کڈرو کے حاجی شہود الدیں اور دوسرے کئی مقامی لوگوں کی محنت و کوشش اور مدرسہ حسینیہ کے بانی مبانی حضرت مولانا ازھر صاحب کی سرپرستی اور دیکھ ریکھ میں حاجی شہود الدیں مرحوم کے گھر سے اپنی عمارت میں منتقل ہو گیا تو رانچی اور خاص طور پر کڈرو والوں کو بڑی خوشی ہوئی ، مدرسہ حسینیہ کے ابتدائی زمانے میں حفظ مکمل کرنے والے حافظ شہادت حسین جو مدرسہ حسینیہ کے ایک بہت ہی مشہور و معروف اور کامیاب ترین استاذ تھے میرے نانا حافظ جمال الدین مرحوم کے توسط سے ہی مدرسہ حسینیہ میں درجہ حفظ کے استاذ بحال کئے گئے ، حافظ شہادت حسین مرحوم میرے نانا حافظ جمال الدین مرحوم نسبتی بھائی کے لڑکے تھے ، اتنی تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی کو قائم کرنے اور حافظ شہادت حسین جیسے محنتی استاذ بحال کرنے میں صرف مولانا ازھر صاحب کا ہی ہاتھ نہیں تھا بلکہ اس کی بنیاد میں میرے نانا حافظ جمال الدین مرحوم اور حاجی شہود الدیں مرحوم جیسے کڈرو کے کئی اھم لوگوں کی فکر شامل ہے ، اسی طرح رانچی میں مسلمانوں کا اپنا کوئی اعلیٰ تعلیمی ادارہ نہیں تھا اس فکر میں رانچی کے چالیس افراد ایک فکر کے ساتھ جمع ہوئے جن میں زیادہ تر تاجر اور سوداگر قسم کے لوگ تھے ، سب نے مل کر ایک سوسائٹی بنائی جس کا نام ” ہائیر مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی آف انجمن اسلامیہ رانچی ” رکھا جس کا مقصد ایسے ادارے قائم کرنا تھا جہاں ہماری قوم کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں ، اس کے لئے اگر زمین خرینے اور عمارت بنانے کا مرحلہ شروع ہوتا اس کے بعد تعلیم شروع کی جاتی تب تک وقت بہت گزر چکا ہوتا اور کافی دیر ہوجاتی اس لئے ان سادہ لوح اور مخلص لوگوں نے یہ راہ نکالی کہ 1967 کے رانچی فساد میں مدرسہ اسلامیہ رانچی کی عمارت خالی پڑی ہے اگر اس کو استعمال میں نہیں لایا گیا تو ڈر ہے کہ کہیں وہ غیروں کے قبضے میں نہ چلی جائے اس لئے مدرسہ اسلامیہ کے نیچے کی عمارت کے خالی کمروں میں” مولانا آزاد کالج ” قائم کردیا جو آج بھی اپنوں کے ھزار فتنوں اور سازشوں کے باوجود قائم ہے اور بہتر طریقے سے چل رہا ہے ،اعلی تعلیم یافتہ افراد کے ذریعے قائم کردہ مشہور زمانہ ملت اکیڈمی اسکول کا آپسی اختلاف و انتشار کی بنیاد پر جو حال ہوا وہ سب کو معلوم ہے لیکن کم پڑھے لکھے اور سیدھے سادے چالیس مخلص فاؤنڈر ممبروں کے ذریعے قائم کردہ مولانا آزاد کالج ھزار آندھیوں کے باوجود آج بھی قائم ہے اور اپنے وجود سے علم کی روشنی پھیلا رہا ہے ، یہاں بتلانا یہ ہے کہ ہائیر مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی آف انجمن اسلامیہ رانچی کے چالیس فاؤنڈر ممبروں میں دسواں نام میرے نانا حافظ جمال الدین مرحوم کا بھی ہے جو بہت بڑے دانشور نہیں تھے مگر دانشور گری کر کے دکھلا دیا، ہائیر مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ بہت کم ہی افراد تھے اگر زیادہ ہوتے یا سب کے سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے تو مولانا آزاد کالج ملت اکیڈمی کی طرح چند برسوں بعد بند ہوگیا ہوتا ، جافظ جمال الدین مرحوم کا نام سوسائٹی کے دستور میں آج بھی درج ہے ، اسی طرح سن 1960 عیسوی میں مولانا جمیل اختر صاحب نے بڑی مسجد کے بغل کی پڑتی زمین جس میں محلے کے لوگ کوڑا کرکٹ پھینکا کرتے تھے مدرسہ بنانے کا فیصلہ کیا تو اس زمین کو حاصل کرنے اور مدرسہ دارالقرآن کی تعمیر میں میرے نانا حافظ جمال الدین مرحوم نے بڑی محنت و کوشش کی اور مولانا جمیل اختر صاحب کے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہے ، اسی طرح ھند پیڑھی کی بڑھتی ہوئی ابادی کے پیش نظر ایک مسجد کی ضرورت محسوس کی گئی اس کے لئے زمین تلاش کی جانے لگی آخر کار ایک بنگالی زمین پشںد بھی آگئی اور مل بھی گئی جہاں آج مدینہ مسجد قائم ہے ،مدینہ مسجد کی زمین کی خریداری سے کر اس کی تعمیر اور نماز شروع کئے جانے تک اور بعد میں بھی میرے نانا حافظ جمال الدین مرحوم کی بڑی قربانی رہی ہے اور اس سلسلے میں ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ، رانچی شہر میں جب بھی کسی قسم کا معاملہ پیش آتا یا حالات کشیدہ ہو جاتے تو اس کی روک تھام کے سلسلے میں شہر میں جو بھی نشست ہوتی اس میں ایک اہم نام میرے نانا حافظ جمال الدین مرحوم کا بھی ہوتا ،انھوں نے اپنی ساری زندگی سماجی خدمات اور فلاحی کاموں کو انجام دینے میں گزار دی ،ان کی چھہ لڑکیاں اور دو لڑکے ہیں جن میں بڑے لڑکے جناب محی الدین مرحوم کا انتقال ہو چکا ہے اور ایک لڑکے محمد ولی اللہ جو میرے چھوٹے ماموں ہیں ابھی ماشاءاللہ باحیات ہیں ، لڑکیوں میں سب سے بڑی لڑکی میری والدہ سعیدہ خاتون ہیں جن کا انتقال ہوچکا ہے ،دوسری لڑکیاں حمیدہ خاتون ، جمیلہ خاتون ، زاہدہ خاتون ،اور صوفیہ خاتون کا بھی انتقال ہوچکا ہے ،صرف ایک لڑکی رقیہ خاتون ماشاءاللہ بقید حیات ہیں ،اللہ تعالیٰ میرے نانا حافظ جمال الدین مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے آمین ثم آمین
