مجلس علماء جھارکھنڈ کے زیرِ اہتمام حضرت مولانا و علامہ سید طاہر حسین گیاوی رحمۃ اللہ علیہ کی سانحہ ارتحال پر تعزیتی مجلس مکہ مسجد ہندپیڑہی، رانچی میں منعقد
آج مورخہ ١٦/ جولائی ٢٠٢٣ بروز اتوار بمقام مکہ مسجد ہندپیڑہی، رانچی، جھارکھنڈ میں ملک ھندوستان کے مشھور و معروف عالمِ ربّانی، بے مثل و مایاناز خطیب، فکر دیوبند کا ترجمان و عظیم شارح، عقائد باطلہ کے سامنے قرآن و حدیث سے دلائل کا انبار لے کر ڈٹ جانے والا عظیم سپاہی، مناظر اسلام *حضرت مولانا و علامہ سید طاہر حسین گیاوی رحمۃ اللہ علیہ* کی وفات پر ایک تعزیتی مجلس، مجلس علماء جھارکھنڈ کے زیرِ اہتمام *حضرت مولانا محمد شریف احسن مظہری صاحب* کی صدارت اور *حضرت مولانا یوسف صاحب امام و خطیب مکہ مسجد ہندپیڑی رانچی* کی سرپرستی میں منعقد کی گئی۔
تعزیتی مجلس کا افتتاح *مفتی محمّد اللہ خطیب مسجد اقراء رانچی* نے چند آیات کی تلاوت سے کیا، تلاوت قرآن پاک کے بعد *حضرت قاری صہیب صاحب مدرس مدرسہ عالیہ عربیہ کانکے پترا ٹولی رانچی* نے حضرت مولانا و علامہ سید طاہر حسین صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی لکھی ہوئی ایک نعت کے چند اشعار حاضرین کے سامنے پیش کیا جس کو سن کر علماء کے ساتھ ساتھ عوام کی بھی آنکھیں نم ہو گئیں۔
*حضرت مولانا بلال احمد صاحب قاسمی* نے سب سے پہلے حضرت والا کی خدمات پر مختصرا مگر جامع روشنی ڈالا۔ حضرت مولانا نے جہاں سن 84-1983 میں نیا سرائے، رانچی میں ہوئے حضرت مولانا کے پروگرام کا تذکرہ کیا وہیں دوسری طرف دارالعلوم قاسمیہ بلسوکرا چانہو رانچی کے قیام کے بعد مہتمم بنائے جانے کا واقعہ بھی ذکر کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے بتایا کہ حضرت مولانا صرف عقائد باطلہ کے خلاف ایک متحرک سپاہی نہیں تھے بلکہ اکثر غیر مسلموں کی طرف سے کیے جانے والے سوالات کا علمی جوابات بھی دیتے رہتے تھے۔ انہوں نے آگے بتایا کہ ایک مرتبہ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے قرآن کے ترجمے میں علماء عرب نے 19 جگہ غلطی کی نشاندہی کی تھی جس کے لئے ہندوستان کے تقریبا 500 علماء کو جمع کیا گیا اور اس کا جواب تحریر کرنے کے لیے کہا گیا لیکن جس جواب سے تمام لوگ مطمئن تھے اور جو علماء عرب کو بھیجا گیا وہ جواب حضرت مولانا سید طاہر حسین گیاوي صاحب نے تحریر فرمایا تھا۔
*مولانا ضیاء الرحمن ندوی صاحب خطیب مسجد بلال دیوری نگڑی رانچی* نے مختصرا مولانا سے اپنے تعلقات کا اظہار کیا اور ایک واقعہ کا تذکرہ کیا کہ کیسے سن 2009 میں صرف ایک مسئلے کی تحقیق کے لیے مولانا نے مختصر خلافیات بیہقی کو مدینہ منورہ سے ای میل کے ذریعے منگوایا اور اس کو پرنٹ کرایا، اس کام میں حضرت مولانا کے تقریبا چھ ہزار روپے خرچ ہوئے تھے۔ مولانا زبردست تحقیقی ذہن کے ادمی تھے یہ واقعہ اس کی ایک مثال ہے۔ انہوں نے حضرت مولانا کے نام پر ایک رسالہ نکالنے کی بھی بات کی اور اس کے لیے انہوں نے خاص طور پر نوجوان علماء کو اگے آنے کی درخواست کی۔
*قاری نثار دانش صاحب، سندرو، لوہردگا* نے مولانا موصوف پر اپنی تحریر کردہ مرثیہ پیش کیا جس نے حاضرین کو مزید غمگین کر دیا۔ قاری نثار صاحب کا یہ مصرعہ حقیقت میں ان کا ترجمان ہے کہ
*حامی سنت یقینا ماہی بدعت تھا وہ*
*زندگی بھر اہل بدعت سے جو ٹکراتا رہا*
*حضرت مولانا طلحہ ندوی صاحب خطیب مکہ مسجد رانچی* نے حضرت مولانا کی زندگی اور ان کے علمی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس دنیا کی حقیقت فنا ہے ہر ایک کو اس دنیا کو چھوڑ کر جانا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا جانا بعد کے لوگوں کے لئے ایک بڑا غمگین اور تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے، ان میں سے ایک حضرت مولانا سید طاہر حسین گیاوی کی ذات مبارکہ ہے، حضرت کا ذہن تحقیقی تھا، ایک ایک مسئلے کو تحقیق کرنے کے لئے دس دس ہزار تک بھی انہوں نے خرچ کیے، بدعت کے گڑھ میں اکثر ان کی تقریریں ہوا کرتی تھی، ان کی تقریر دلائل سے بھرپور ہوا کرتی تھیں، انہوں نے بتایا کہ اٹکی میں ایک جلسے سے پہلے عصر نماز کے بعد علماء کی ایک مجلس ہوئی، جس میں حضرت والا کا مختصر خطاب ہوا، حضرت والا نے سنت اور حدیث کی فرق کو اس طرح واضح کیا کہ تمام علماء مطمئن ہو گئے۔ حضرت والا کی خاصیت تھی کے سامنے والے کو مطمئن کر دیتے تھے۔
*حضرت مولانا اکرام الحق عینی صاحب مدرس مدرسہ قاسمیہ چنڈو، لوہردگا* نے کہا کہ جو اس دنیا میں آیا ہے اس کو جانا ہے لیکن حضرت والا کا جانا اس امت کے لیے ایک عظیم خسارہ ہے، جس کا فی الفور کوئی بدل نظر نہیں آتا، انہوں نے آگے کہا کہ حضرت کا امبیکاپور جانے کے درمیان جو حادثہ ہوا تھا جس میں ان کو کافی چوٹ آئی تھی اس وقت جب ان کو رانچی لایا گیا اور دیکھنے والوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تو حضرت والا نے کہا کہ روتے کیوں ہو؟ سب نے اپنے جذبات کا اظہار کیا. حضرت والا نے بہت اطمینان سے یہ کہا تھا کہ اچھا! کوئی ایک آدمی کا نام بتاؤ جو اس دنیا سے جانے کے لیے نہیں آیا ہے۔ حضرت والا کا رانچی سے ایک والہانہ تعلق تھا اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اپ ایکسیڈنٹ کے بعد امبیکاپور کے کسی ہاسپٹل میں ایڈمٹ تھے لیکن بار بار آپ کہہ رہے تھے کہ مجھے رانچی لے چلو، پھر انکو میداناتا اربا میں لا کر ایڈمٹ کیا گیا۔ آپ نے آگے بتایا کہ حضرت والا تقریبا 40 سال پہلے جب رانچی آئے تو اس وقت حضرت مولانا قاری علیم الدین صاحب قاسمی نے مجھے اور مولانا خلیل صاحب کو لینے کے لئے بس اسٹینڈ بھیجا، اس وقت سے مولانا موصوف سے مسلسل تعلق رہا، مولانا کے بارے میں انہوں نے بتایا جہاں ایک طرف مناظر اور بدعت کے خلاف متحرک تھے اور دوسری طرف جرات مند اور بہت دلیر تھے، صرف مناظر نہیں تھے بلکہ آپ کی حقیقی خاصیت یہ تھی کہ حق کو حق کہنے کی طاقت رکھتے تھے۔ انہوں نے ایک واقعہ کا تذکرہ کیا ایک دور میں جب مولانا حج میں تشریف لے گئے تو وہاں عام طور پر مسجدوں میں فجر کی جماعت کے وقت فجر کی سنت پڑھنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے، اس پر مولانا نے جب عمل کیا تو وہاں کے مسجد کے امام نے ان سے سوال جواب کیا، چونکہ مولانا حج پر تھے اس لئے مولانا نے بحث و مباحثہ نہیں کیا۔ لیکن واپسی کے بعد اس پر دلائل کا انبار لگا دیا اور اس کو بھیجا جو اس وقت کے مفتی اعظم فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن باز کی خدمت میں پیش کیا گیا اور انہوں نے بھی اس کو تسلیم کیا، حضرت نے صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ مکہ و مدینہ میں، انگلینڈ میں اور دنیا کے مختلف ملکوں میں اسلام کا دفاع کیا، سنت کو عام کرنے کا کام کیا، انہوں نے اگے بتایا کہ علماء کا کام دفاع اسلام کا ہے اور تبلیغی جماعت کے ساتھیوں کا کام اشاعت اسلام کا ہے دونوں اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اگے انہوں نے بتایا کہ مولانا موصوف کو ممبئی میں جب بلایا گیا تو صرف تین دن کا سفر تھا لیکن مولانا کا بیان اتنے مدلل ہوتے تھے کہ مسلسل 27 دن تک بیان ہوا اور عقائد باطلہ کی بنیاد ہلا کر رکھ دیں۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا کو فقہ میں بھی زبردست پکڑ تھی لیکن جس طرح حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی ولایت ان کی سیاست کے پردے کے پیچھے چھپ گئی اسی طرح سے حضرت مولانا کی فقاہت ان کی مناظرانہ و خطیبانہ زندگی کے پیچھے چھپ کر رہ گئی۔ مولانا نے تقریبا 15 سے زائد کتابیں تصنیف کی جن میں دو کتابیں عربی زبان میں بھی ہیں اس کے علاوہ بھی مولانا کی تقریریں مختلف جگہوں پر محفوظ ہیں۔
*حضرت مولانا شریف احسن مظہری صاحب* نے مولانا کے سلسلے میں فرمایا کہ مولانا کا مقام اصلا خطیب اور مناظر کا تھا، مولانا نے مظہر العلوم میں تعلیم پائی تھی، میں جس زمانے میں مظہرالعلوم میں زیر تعلیم تھا مولانا موصوف مظہرالعلوم کے قریب میں واقع مدرسہ، مطلع العلوم میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے، اس زمانے میں مولانا سے اکثر ملاقاتیں ہوا کرتی تھی۔ اور قریب کی ایک مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھایا کرتے تھے، اس وقت سے ان کی تقریر میں سنتا تھا، لوگوں میں یہ مشہور تھا کہ ان کی تقریر اچھی ہوتی ہے اس لئے جمعہ میں کافی لوگ اس مسجد میں آتے تھے۔ 1976 میں جب مولانا کا پروگرام پہلی مرتبہ رانچی میں ہوا تو پروگرام کا سلسلہ جاری ہو گیا، ہر چوک پر پروگرام ہوتا تھا اور کم آبادی ہونے کے باوجود اچھی خاصی بھیڑ جمع ہوتی تھی اور اس بھیڑ میں پن ڈراپ سائلنس ہوتا تھا جبکہ ابھی کے جلسوں میں آبادی زیادہ ہونے کے باوجود بھیڑ نہیں ہوتی، حضرت مولانا سید طاہر حسین گیاوی کو خطیب بنانے میں رانچی کی سرزمین کا بڑا اہم کردار رہا، مولانا نے لوگوں کو شعوری مسلمان بنایا ان کو یہ بتایا کہ تم مسلمان ہو تو کیوں ہو؟ مسلک اہل سنت سے ہو تو آخر کیوں ہو؟ یہ فرق لوگوں کو سمجھایا۔
*حضرت مولانا و مفتی انور القاسمی صاحب قاضی شریعت دار القضاء رانچی* نے کہا کہ جتنے بڑے بڑے علماء، جبال علم رانچی میں تشریف لائے تمام لوگوں کو لانے میں حضرت مولانا قاری علیم الدین صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے مشیر خاص قاری صدیق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بڑا ہاتھ رہا، ان کی محنتیں رہیں کہ رانچی کی سرزمین نے علماء ربانیین کا دیدار کیا اور آج اسی سلسلے کی ایک کڑی ہمارے بیچ میں نہیں رہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ انہوں نے آگے بتایا مولانا موصوف ان کے والد محترم کے رفیق درس بھی تھے اور اتفاق سے ان کا نام بھی محمد طاہر تھا۔ مولانا نے حضرت مولانا موصوف کی ایک صفت بیان کی کہ ان کو صرف مناظر یا خطیب کہنا شاید ان کے ساتھ نا انصافی ہو ان کے لیے صحیح جملہ یہ ہے کہ انہوں نے احقاق حق میں اپنی پوری زندگی لگا دی۔ آگے انہوں نے بتایا کہ اگر رانچی کی سرزمین نے انہیں خطیب بنایا تو جھریا کی سرزمین سے وہ مناظر بن کر ابھرے اور پوری دنیا میں چھا گئے۔ اور پھر انہوں نے بہت تفصیل سے ایک حدیث کی تشریح کرتے ہوئے تمام لوگوں کو نصیحت کی کہ علماء کی صحبت میں بیٹھا کریں اور ان سے فائدہ اٹھائیں، اس لیے کہ یہی انبیاء کی وراثت ہے جو ان علماء کے پاس ہے جو کہ قرب قیامت میں اٹھا لیا جائے گا اور وہ علم ہے۔ اور یہ سلسلہ جو تسبیح کے دانوں کی طرح چلا ہے کہ تمام علماء ایک ایک کر کے اس دنیا سے تشریف لے جا رہے ہیں یہ شاید قرب قیامت کی ایک نشانی ہے۔
آخر میں حضرت مولانا مفتی عبداللہ ازہر صاحب کے والد محترم اور مفتی طلحہ صاحب ندوی سیکرٹری مجلس علماء جھارکھنڈ کی پھوپھی یہ دونوں چند روز قبل انتقال کر گئے ان کے لیے بھی دعا مغفرت کی گئی اور حضرت مولانا مفتی انور صاحب قاضی شریعت رانچی کی دعا پر مجلس کا اختتام کیا گیا۔
اس پروگرام میں علماء کی ایک جم غفیر شریک تھی جن میں خاص طور پر حضرت مولانا و مفتی ابو داؤد القاسمی صاحب نائب قاضی دار القضاء رانچی، قاری حسان صاحب امام راعین مسجد رانچی، مولانا امتیاز صاحب، مولانا عبدالرشید صاحب، مولانا رضوان قاسمی صاحب، مولانا محمد شمیم صاحب، مولانا اکرم اعظم صاحب، امام موتی مسجد، حافظ زبیر صاحب مہتمم دارالقران بڑی مسجد مرکز رانچی، حافظ حذیفہ صاحب امام مسجد انبیاء، مولانا عبداللہ دانش صاحب امام و خطیب مسجد ابوبکر رانچی، مولانا مبشر صاحب، مولانا جاوید صاحب امام بڑی مسجد مرکز، مولانا توفیق صاحب مسجد ہارون، مولانا حیات صاحب، مفتی محمد اللہ صاحب امام و خطیب مسجد اقرا، مولانا محمد یحیی صاحب، قاری جان محمد مصطفوی شہر قاضی رانچی، مولانا صادق تحسین ندوی امام و خطیب مسجد زیب النساء، حافظ سعد مدرسہ انوار العلوم، مولانا انس ندوی، حافظ مقیم امام تسلیم النساء مسجد، حافظ حذیفہ، مولانا احمد علی، قاری جاوید، مولانا راشد، مولانا انس امام وخطیب مسجد جیلانی، مولانا حسیب اللہ امام وخطیب مسجد بلال، حافظ دانش، قاری عبد الرزاق اور مولانا شمیم صاحبان کے علاوہ بڑی تعداد میں عوام اور دانشوران قوم کی تعداد موجود تھی، اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی حضرت والا کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ہمیں صبر جمیل عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔