Saturday, July 27, 2024
Ranchi Jharkhand

استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والے کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے مولانا الیاس مظاہری

ہر باشعور مسلمان کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اسلام ‘کے بنیادی ارکان پانچ ہیں:(1) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں(2) نماز قائم رکھنا(3) زکات دینا(4) حج کرنا(5)رمضان کے روزے رکھنا۔
اور ہر مسلمان کو اس بات کا بھی بخوبی علم ہے کہ ‘فریضہ حج’ کا معاملہ نماز اور رمضان المبارک کے روزوں جیسا نہیں ہے ،بل کہ یہ ان دونوں سے کچھ الگ سا ہے:کیوں کہ نماز پڑھنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا مطلق ہر عاقل ،بالغ مسلمان پر فرض اور ضروری ہے؛ مگر ‘حج کی ادائیگی’ مطلق ہر عاقل و بالغ مسلمان پر فرض نہیں ہے ؛بل کہ اوپر کے دونوں ارکان میں ذکر کردہ دونوں شرائط سمیت ایک تیسری شرط ‘ استطاعت’ کا وجود بھی حج کی فرضیت کے لیے ناگزیر ہے۔ ‘صاحب استطاعت’ ہر اس شخص کو کہیں گے،جس کے پاس زندگی کی بنیادی ضروریات کے اخراجات، نیز اہل وعیال کے واجبی خرچے پورے کرنے کے بعد اس قدر زائد رقم ہو جس سے حج کےضروری اخراجات (آمد و رفت اور وہاں کے قیام وطعام وغیرہ) پورے ہوسکتے ہوں۔
اگر کوئی شخص استطاعت و قدرت کے باوجود زندگی میں ایک دفع بھی حج نہیں کرسکا،تو ایسے شخص کےلیے اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی بیان فرمائی ہے ،حدیث مبارکہ ہے: اسلام میں صیرورت نہیں ہے۔(اخرجه ابوداؤد في السنن 348/2 حدیث رقم 1729۔ واحمد في المسند 312/1)
حدیث مبارکہ میں’ صیرورت’ کا لفظ آیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ استطاعت و قدرت کے باوجود اگر کوئی شخص اپنی حج نہیں کرپاتا ہے،تو پھر ایسے شخص کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے اور یہ اسلام میں جو حصہ کے نفی کی گئی ہے،یہ محمول ہے تغلیظ ہے۔
یقینا استطاعت و قدرت کا ہونا،یہ خداوند قدوس کی جانب سےعطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے، اگر کوئی شخص اس عظیم نعمت سے بہرہ ور ہونے کے باوجود بھی ‘فریضہ حج’ کی ادائیگی سے محروم رہ جاتاہے ،تو بھلا اس شخص سے بھی بڑا کوئی ،اس کرہ ارضی پر سیہ بخت اور بد نصیب ہوسکتا ہے؟؟خداوند عالم ہم تمام مسلمانوں کو فریضہ حج کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

Leave a Response