رانچی/ دھنباد: وہ الم ناک حادثہ استاذ محترم مشفق و مربی کرم فرما حضرت مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی رحمۃ الله علیہ کی وفات پر ملال کا تھا جس نے پورے جسم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، زبان پر سکتہ طاری ہوگیا اور تھوڑی دیر کے لیے ہاتھ و پاوں نے کام کرنا بند کر دیا، آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور ایسا محسوس ہوا کہ مجھ پر بجلی کا قہر آ پڑا ہے، پھر دل کو دلاسا دیا کہ یہ قضائے الٰہی ہے اور ہم سب کو اس پر راضی رہنا چاہیے اور وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے، استاذ محترم بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے: جھارکھنڈ کے ایک گمنام بستی کے رہنے والے کا اتنے کمالات اور خوبیوں کا حامل ہونا ہم سب کے لیے بہت فخر کی بات ہے، آج ہم اہل جھارکھنڈ خصوصا ضلع جامتاڑا گریڈیہ اس عظیم شخصیت سے محروم و یتیم ہو گئے ہیں، حضرت الاستاذ طلبۂ کرام سے بے پناہ شفقت و محبت سے پیش آتے تھے، اور اگر مدد کی ضرورت پڑتی تو آپ مدد بھی کرتے اور علاقائی طلباء سے اتنی محبت تھی کہ جب بھی آپ بات کرتے تو اپنی مادری زبان ہی میں کرتے، قابل فخر بات یہ ہیکہ راقم نے حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے مسلم شریف پڑھی ہے ان کا انداز درس لاجواب تھا جب مسند حدیث پر جلوہ افروز ہوتے تو محسوس ہوتا کہ وقت کے ابن حجر اور انور شاہ کشمیری ہیں اور جب تاریخ بیان کرنے پر آتے تو معلوم ہوتا کہ وقت کے ابن خلدون ہیں، تعلیم دارالعلوم کے دوران بارہا حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے قیام گاہ ( دار الثقافہ) پر حاضری ہوتی تھی، ایک دن ہم چند علاقائی ساتھی بیٹھے تھے حضرت فرمانے لگے کہ اللہ کا فضل ہے بندے نے فارسی سے لیکر دورۂ حدیث تک کی ساری کتابیں پڑھائی ہیں