سناتن ویدک اور اسلام دھرم دونوں بھلایٔ کا پیغام دیتے ہیں: شنکراچاریہ
رانچی: اگر ہندو مسلمان ایک دوسرے کے مذہب کو جاننے یا سمجھنے لگے تو پھر لڑائی نہیں ہو سکتی۔ آج لوگ دوسرے مذاہب کو جاننا اور سمجھنا نہیں چاہتے۔ اور ایسے لوگوں سے امن اور بھائی چارے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ آج نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی ضرورت ہے۔ اسلام بخشش معافی کا مذہب ہے۔ اللہ تعالیٰ لڑائی جھگڑا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ مذکورہ باتیں ہندو مسلم جن ایکتا منچ کے بانی سوامی لکشمی شنکراچاریہ نے کہیں۔ وہ اتوار کو دارالعلوم اسلام نگر جاڑی بنا پیڑھی میں پیام انسانیت کنونشن سے بطور مہمان خصوصی خطاب کر رہے تھے۔ سوامی شنکراچاریہ نے مزید کہا کہ آج تن کے ساتھ ساتھ من کو بھی صاف رکھنے کی ضرورت ہے۔ سناتن ویدک مذہب اور اسلام مذہب دونوں ہی نیکی بھلایٔ کا پیغام دیتے ہیں۔
تو وہیں آل انڈیا پیام انسانیت فورم کے جنرل سکریٹری نیز ندوۃ العلماء لکھنؤ کے چانسلر حضرت مولانا سید بلال حسنی ندوی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ آج ہندو، مسلم، سکھ عیسائی ہر فرد کو انسانیت کے لیے کام کرنا ہے۔ اس ملک میں رہنے والا کوئی بھی شخص مصیبت میں ہے تو پوری انسانیت مصیبت میں ہے۔ ہماری زندگی سے دوسروں کو فائدہ پہنچے اسکے لیے کام کرنا ہے۔ منشیات نشہ خوری کی لت بڑھ رہی ہے۔ اس لیے سب کو مشترکہ بھلائی کے لیے کام کرنا ہوگا۔ پیام انسانیت کا مقصد غلط کو غلط کہنا ہے۔ جھوٹ کو جھوٹ کہنا ہے۔ انسانیت کا میشن محبت کا مشن ہے۔ آج زمانہ کتنا بدل گیا ہے کہ ایک بھی شخص کسی کو بڑھتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ آئیے سب مل کر محبت بانٹیں، نفرت کو ختم کریں۔ انسان کو انسان سے جوڑنے کے کام کا نام ہے پیام انسانیت۔ وہیں پنڈت سنجے کمار مٹھ پتی، مہان ترتھ پروہت سنسکرت اچاریہ نے کہا کہ آج ہم ایک دوسرے سے اتنے دور ہو گئے ہیں کہ اب لوگ جڑنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمیں ایک دوسرے سے من سے جڑنا ہے۔ اور ایک دوسرے کے لیے مل کر کام کرنا ہے۔
دوسری جانب سکھ سماج سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ہرویندر ویر سنگھ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اپنے اندر سے تفریق ختم کریں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جب لنگر چلتا ہے تو کوئی نہیں جانتا کہ ہم کس کی پلیٹ میں کھا رہے ہیں۔ سکھ سماج کے پیروکار سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ بھلایٔ کرتے رہو بہتے پانی کی طرح، برائی خود بخود کنارے لگ جائے گی کچرے کی طرح۔
وہیں دارالعلوم اسلام نگر جاڑی بنا پیڑھی کے پرنسپل حضرت مولانا ضیاء الہدای اصلاحی نے اپنے استقبالیہ کلمات میں کہا کہ آئیے ہم سب ہاتھ اٹھا کر وعدہ کریں کہ ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی مل کر انسانیت کو بچانے کے لیے کام کریں گے۔ دارالعلوم اسلام نگر کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہے۔ یہاں کے بچوں کو انسانیت کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ جھارکھنڈ کو ایک مثالی ریاست بنانے میں مل کر تعاون کریں۔ وہیں ساجھا منچ کے فادر ٹام نے کہا کہ اگر آپ کا رویہ اچھا ہے تو آپ کے تمام کام آسان ہو جائیں گے۔ وہیں ڈاکٹر لکشمن اوراوں نے کہا کہ انسانی زندگی تنہا نہیں چل سکتی۔ اس لیے ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلیں، زندگی اچھی گزرے گی۔
وہیں آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ جھارکھنڈ کے چیئرمین حضرت مولانا سید تہذیب الحسن رضوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ انسانیت زندہ رہے گی تب ہی مذہب زندہ رہے گا۔ سب سے پہلے انسانیت کو بچانا ہے۔ مذہب اسلام اخلاق کی بنیاد پر پھیلا ہے۔ آج ہم سب کو اپنے کردار کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اہل مدارس اور اہلِ معاشرہ سے اپیل کرتے ہیں کہ مہینے یا سال میں ایک دن انسانیت پر پروگرام کریں۔ ایک دوسرے کو جوڑے۔ وہیں ڈاکٹر مکیش کمار نے کہا کہ آج ہم اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ موبائل پر تہوار بھی منانے لگے ہیں۔ آج ہم اکیلے ہیں۔ اور جو اکیلا ہے شیطان اس کے ساتھ ہے۔ وہیں وجے بہادر سنگھ نے کہا کہ اگر ایک گھر میں پانچ بھائی ایک ساتھ نہیں رہتے تو وہ گھر اجڑ جاتا ہے اور کمزور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہم ہندوستانیوں کو متحد ہو کر مل جل کر رہنا ہے۔
پروگرام کی نظامت مرکزی مجلس علماء جھارکھنڈ کے نائب صدر حضرت مولانا شریف احسن مظہری نے کی۔ پروگرام کے کنوینر مولانا آفتاب ندوی اور مولانا ضیاء الہدی اصلاحی نے تمام مہمانوں کو گلدستہ دے کر استقبال کیا۔ موقع پر مولانا صابر حسین، مفتی طلحہ ندوی، مفتی سلمان قاسمی، مفتی عمران اربا، مولانا رضوان قاسمی، مولانا نسیم انور ندوی، منظور احمد انصاری، ابرار احمد، خورشید حسن رومی، ڈاکٹر لکشمن، آشوتوش تیواری، ایڈوکیٹ مختار، معصوم خان، پریتی ناتھ شاہدیو، مدھو منصوری، عین الحق، حاجی نواب، مطیع الرحمن، مولانا دانش،