Friday, July 26, 2024
Jharkhand News

مولانا محمد اسلام قاسمیؒ۔ سابق استاد حدیث وقف دارالعلوم دیوبند،ایک بہترین مربی ومعلم

 

مولانا محمد اسلام قاسمیؒ۔ سابق استاد حدیث وقف دارالعلوم دیوبند،ایک بہترین مربی ومعلم

تحریر: عبد المتین منیری ( بھٹکل)

یہ نظام قدرت ہے کہ اس دنیا میں جو بھی آیا، جانے ہی کے لئے آیا، کل ہمیں بھی یہاں سے لوٹ  جانا ہے، اللہ تعالی نے اس دنیا کے مسافر خانے میں رہنے کے لئے ہر ایک کے لئے ایک میعاد مقرر کررکھی ہے، اب کسی کے ٹہرنے کی میعاد مختصر ہے تو کسی کی زیادہ،لیکن بہر حال یہاں سے جانا ہے، وہ حکیم اور برتر ذات ہے،جس نے آسمان وزمین بنائے، گزشتہ تین چار سالوں سے جس طرح لوگ اس دنیا سے کوچ کررہے ہیں ، کیا بوڑھا کیا جوان، کیا دوست کیا ہم جولی؟۔بلاوا آتا ہے تو آنا فاناً دنیا چھوڑ جاتے ہیں۔
آج مورخہ ۱۶ جون نماز جمعہ سے پہلے خبر آئی ہے کہ ہمارے مشفق مولانا محمد اسلام قاسمی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ آپ کا اس دنیا سے جانا کوئی اچانک نہیں تھا، کوئی ایک عشرہ پہلے آپ پر فالج کا حملہ ہوا تھا، اور پھر یہ حملہ کئی بار ہوا، جس نے اعضاء وجوارح کو بڑی حد تک شل کرکے رکھ دیا تھا، اور اس کے زیر اثر زبان بھی آگئی تھی، جو اب پہلے جیسی واضح بات کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھی،  اللہ نے مومنانہ صفات سے نوازا تھا،آپ نے زندگی میں مایوسی کو داخل ہونے نہیں دیا،ہمیشہ راضی برضا رہے، جب تک جسم میں رمق باقی رہی ،حوصلوں کو ہمیشہ بلند رکھا، ،اور اپنی زندگی کے لمحے لمحے کو دین کی سربلندی اور قال اللہ اور قال الرسولؐ کی امانت آئندہ نسل تک پہنچانے میں صرف کیا، اور جب تک اٹھنے بیٹھنے کی سکت جسم میں باقی رہی، مسند حدیث کو سجائے رکھا،صحیح مسلم کا درس آپ کا محبوب ترین درس تھا، جس دن اس کا ناغہ ہوتا تھا تو  اس دن پژمرگی چھا جاتی تھی، آخری دو چار سال بڑے امتحان میں گذرے، جب وقفے وقفے سے دل کے دورے بھی پڑتے رہے، اور آئی سی او میں داخلے کی ضرورت پیش آتی رہی، آخر بلاوا آہی آگیا، اور زندگی کا تھکا ہارا مسافر دائمی سفر پر روانہ ہوگیا۔ 
مولانا ئے مرحوم سے ہماری بالمشافہ ملاقات ۵ دسمبر ۲۰۲۰ء کو دیوبند میں ہوئی تھی،یہ ملاقات پہلی بھی تھی آخری بھی، ملاقات بھی چند لمحوں کی ،جو تشنگی اور بڑھاگئی، اس ملاقات کے چند لمحے صدیوں کو سموئے  ہوئے تھے، سچ تو یہ ہے کہ اس میں اپنائیت کا جو احساس ہوا،وہ ہمیں  زندگی میں ہمیں خال خال ہی نظر آیا،ا بیمار اور کمزور تھے، لیکن زحمت اٹھا کر صرف اس ناچیز کی ملاقات کے لئے تشریف لائے تھے،  ایسے ٹوٹ کر چاہنے والی شخصیت سے ابتک ملاقات سے محرومی کا  ہمیں بھی شدید احساس ہوا، وہ اس  ایک گم نام کے بارے میں کہ رہ رہے تھے کہ آپ سے ملاقات کا تو پچیس سال سے اشتیاق تھا، حضرت مولانا محمد سالم قاسمی علیہ الرحمۃ نے آج سے ربع صدی پیشتر دبی کا جب سفر کیا تھا تو آپ کا فون نمبر  یہ کر دیا تھا، اور کہ یہ ہمارے تعلق والے ہیں، وہ نمبر آج تک ڈائری میں محفوظ ہے، کئی بار  کویت جانا ہوا، لیکن اس دوران دبی میں کبھی ٹہرنے کا موقعہ نہیں آیا، اب مولانا سے  دوبارہ ملاقات کی حسرت ہی دل میں رہ گئی اور آپ آخری سفر پر روانہ ہوگئے، اللہ نے اگر قسمت میں رکھا تو آئندہ وہیں ملاقات ہوگی،لیکن کیا ہم وہاں پہنچ بھی پائیں گے؟ہم جو گنہ گار ٹہرے، مولانا تو اس وقت صدیقین وصالحین کے جلو میں ہونگے ان شاء اللہ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا سے کہنے سننے کی بہت سی باتیں تھیں، یہ باتیں ہفتوں ساتھ رہتے تب بھی ختم نہ ہوپاتیں، ان کی شاخیں اور کونپلیں نکل آتیں۔ انسان کو زندگی میں کئی ایک ایسے دوست و احباب کی ضرورت ہوتی ہیں جن سے دل کی بات کہ سکے، دکھ درد بیان کرسکے، وہ باتیں کہ سکے جو ہرایک سے کہ نہیں سکتے، مرحوم کچھ ایسے ہی دوست اور رفیق بن سکتے تھے، لیکن ہم تو دیوبند، نائطی کہاوت کے مطابق گھوڑے کی پیٹھ پر سوار  گئےتھے،ہمیں پیٹھ سے اترنے کا موقعہ ہی نہیں ملاتھا۔ 
مولانا کو اللہ تعالی نے بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا، ایک تو یہ  کہ ان کی نظر مستقبل پر رہتی تھی، انہیں  ماضی کے حصار میں اسیر رہنا پسند نہیں تھا، کسی سے انہیں تکلیف پہنچی ہو تو انہوں نے دل میں اس کا گھاؤ نہیں پالا۔، انتقام اور نفرت کا جذبہ نہیں رکھا۔  زندگی مین کئی ایک سے انہیں بہت اذیتیں پہنچیں، لیکن انہوں نے انہیں دل میں ترازو بننے نہیں دیا، پہئے کو پیچھے کی طرف گھمانے کی کوشش نہیں کی، انہوں نے لوگوں کے نیک کاموں کو بھی یاد رکھا، قابل تعریف کاموں کی انہوں نے بھر پور انداز میں ستائش کی۔ اور اپنے دل کے زخموں کو کریدنے کے بجائے ان پر پھایا رکھنا ضروری سمجھا۔
مولانا سے ہمارے تعارف کی تجدید ۲۰۱۶ء میں علم وکتاب واٹس اپ گروپ سے شروع میں ہوئی تھی ۔ویسے یہ گروپ ابتداء  میں مدارس دینیہ  کے وابستگان میں کتب بینی کا ذوق اور ادب کے فروغ کے لئے بنا تھا، لیکن جب   گنگوہ سے مولانا مفتی ساجد کھجناوری وابستہ ہوگئے تو یہ اہل علم کی ایک موقر بزم بن گیا، قوس قزح کے رنگوں کی طرح مختلف طبیعتوں اور مزاج کے اہل علم کو انہوں نے اس بزم سے ملا دیا۔ مولانا محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمۃ انہی سابقین اولین میں تھے۔اس ناچیز کی مشکل رہی یہ ہے کہ الٹے سیدھےکچھ لکھ تو دیتے ہیں، لیکن خاکہ بناکر یا فرمائش پر کوئی ڈھنگ کا مضمون لکھنا آج تک نہیں آیا۔ کوئی تحریک ہوتی ہے تو پھر چند سطریں  برجستہ سے نکل آتی ہیں، لوگ شکایت بھی کرتے ہیں کہ جب ضرورت پڑتی ہے تو سستی دکھاتے ہو، اور وقت گزرنے کے بعد لکھتے ہو۔ علم وکتاب گروپ کے آغاز میں عرصہ تک ہم نے اس میں کچھ نہیں لکھا تھا، خود کو صوتیات اور مضامین پوسٹ کرنے  تک محدود رکھا، لیکن کبھی کسی تحریک سے کچھ جملے نکلے اور مرحوم کی ان پر نظر پڑی تو پھر انہوں نے اسے دانتوں سے پکڑ لیا۔ اورلگے ہمت افزائی کرنے، خردوں کی ہمت افزائی کرنے والی ایسی شخصیات ہمیں شاذ ونادر نظر آتی ہے، چاہے فیس بک ہو یا واٹس اپ جب تک آپ  کی انگلیاں کی بورڈ پر  چلنے کے قابل رہیں ، شاید ہماری کوئی  پوسٹ نہیں بچی جس پر آپ نے اپنے تاثرات سے ہمت نہ بڑھائی ہو، یہی وہ لوگ ہوتے ہیں ،جو شخصیت ساز ہوتے ہیں، یہ ہمارے اداروں او تعلیم گاہوں کے لئے نعمت غیر مترقبہ ہوتے ہیں، حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کے بقول یہ کان کی نمک ہیں، ان کی قدر کرو۔ 
صاحبزادہ ابن الحسن عباسی مرحوم جو علم وکتاب گروپ کے رکن رکین تھے، انہوں نے اپنی رحلت سے قبل مجلہ النخیل کے مطالعہ نمبر کی ڈول ڈالی تھی،آپ کی رحلت کے بعد عزیزی مولوی بشارت نواز نے ناتجربہ کاری کے باوجود جب اس منصوبہ کو مکمل کرنے کا تہیہ کرلیا تو جن شخصیات نے ان کی مسلسل ہمت افزائی کی اور قابل قدر مضامین کی فراہمی میں بھر پور ساتھ دیا ان میں مولانا کا نام سر فہرست ہے۔ مولوی بشارت اس ناچیز سے اپنی محسن کتابوں کے سلسلے میں مضمون لکھنے کی فرمائش کرکے جب تنگ آگئے تو مولانا کو پیچھے لگادیا، اور ہمیں بھی آپ کو انکار کرتے ہوئے حیا سی  آگئی اور ا ہار مان لی، بعض نزاکتوں کی وجہ سے محسن کتابوں والا مضمون تو چھوڑیا، البتہ مطالعہ کتب کیوں اور کس طرح؟ کے عنوان سے ایک مضمون لکھنا نصیب ہوا، اب شاید یہ مولانا کی محبتوں اور توجہات کا اثر تھا کہ قارئین کو یہ پسند بھی آگیا۔ ایسے مشفقین کو ہم اب کہاں تلاش کریں؟۔ یہی تو وہ لوگ ہیں جن سے نسلیں پروان چڑھ کر معاشرے اور سماج کے لئے مفید بننے کے قابل بنتی ہیں۔ 
آپنے دار العلوم دیو بند سے دورۂ حدیث کی تکمیل (۱۹۷۱ء) میں کی تھی، جسکے بعد تکمیل ادب عربی، عربی و اردو خوش نویسی اور دار الافتاء کے شعبے سے فراغت حاصل کی اور دارالعلوم دیوبند ہی میں ملازمت سے منسلک ہوگئے، ۱۹۷۶ ء مطابق ۱۳۹۶ھ میں دار العلوم دیو بند سے پندرہ روزہ عربی رسالے ”الداعی “ کا اجراء ہوا ، اس کی ادارت حضرت مولانا وحید الزماں کیرانویؒ کے سپرد تھی، انھوں نے دو معاون طلب کئے، دوسرے معاون کے طور پر آپ کا تقرر ہوا اور یہ ملازمت ۱۹۸۲ ء تک جاری رہی۔ دار العلوم میں ہنگا مے اور قضیہ نامرضیہ کے بعد آپ نے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب علیہ الرحمہ کے ساتھ وقف دار العلوم دیوبند سے وابستگی اختیار کر لی تھی ،الداعی میں ملازمت کے دوران ہی انگریزی سیکھی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہائی اسکول اور پری یونیورسٹی  کے امتحانات پاس کئے، اور ۱۹۹۰ میں آگرہ یو نیورسٹی سے ایم اے اردو کی تکمیل کی ۔
 آپ کی تعلیمی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں، توآپ کے اساتذہ ومشائخ میں اساطین علم ،علماء و اکابر کا ایک ایسا طبقہ ملتا ہے، جس کی مثال پھر نظر نہیں آئی، کئی دہائیوں سے علوم نبوت کے ایسے  جلیل القدر مسند نشین نظر  ناپید نظر آرہے ہیں ، آپ نے ” دیوبند کے سند حدیث شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی کے شاگر درشید محدث زمانہ حضرت مولانا فخر الدین مراد آبادیؒ سے بخاری شریف کا درس حاصل کیا، امام النحو علامہ صدیق کشمیریؒ سے شرح جامی پڑھی، اور عربی کے شیخ الادب حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی سے عربی زبان و ادب کا شعور لیا، جو آپ کی امتیازی شناخت کا عنوان بن گیا، ترجمان مسلک دیوبند حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب علیہ الرحمہ مہتمم دارالعلوم دیوبند کے درس وافادات سے مستفید ہونے کا بھی آپ کو شرف ملا اور عالم عرب کے معروف محدث و فقیه و مصنف شیخ عبد الفتاح ابو غدہ سے علمی استفادہ اور سند حدیث آپ کے لئے باعث افتخار بنے رہے” ، اس طرح آپ نے حضرت مولانا مفتی ٘محمود الحسن گنگوہیؒ اور حضرت مولانا مفتی نظام الدینؒ سے افتاء اور مولانا اشتیاق احمد دیوبندیؒ سے خطاطی کی مشق کی۔ 
 تعلیم وتربیت اور علم وادب کے اس مقام تک آپ ایک دو روزمیں نہیں پہنچے تھے، بلکہ آپ نے اس کے لئے وہی سفر کیا  تھا جو وسائل سفر نے بیل گاڑی سے ہوائی جہاز تک پہنچنے کے لئے کیا تھا۔
آپ کی پیدائش مورخہ ۱۶ فروری ۱۹۵۴ء (موضع راجہ بھیٹا ، ضلع دمکا، جامتاڑا، جھارکنڈ) میں  ہوئی تھی، یہ خالص مسلم آبادی تھی،اور علاقے کی بڑی بستی شمار ہوتی تھی۔جس معاشرے میں آپ نے آنکھیں کھولی تھیں ، اس میں تعلیمی پستی کا یہ حال تھا کہ آپ کے خاندان میں دادا مرحوم کے ایک بھتیجے نے اتنا پڑھ لیا تھا کہ وہ اٹک اٹک کر قرآن شریف پڑھ لیا کرتے تھے، ان کے علاوہ سب لکھنے، پڑھنے سے نا آشنا تھے ، اس لیے جب آپ کی عمر چار، پانچ سال کی ہوئی تو گھر والوں نے بچے کو اپنی ضرورت اور فہم کے مطابق گھر کی بکریوں کو چرانے کی تربیت دینے کی کوشش شروع کر دی مگر اللہ مسبب الاسباب اور مقلب القلوب ہے،آپ کی والدہ نے کہہ دیا کہ میرا بیٹا تعلیم حاصل کرے گا۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز ۔ اس عظیم خاتون کی اس بات کا مذاق اڑایا گیا ، آخر بچہ پڑھے گا کہاں؟ اور کس سے؟ گاؤں میں نہ کوئی اسکول، نہ صاحب مکتب اور نہ کچی مسجد میں متعین امام صا حب !!
قریب تین کیلو میٹر دور ایک بہت چھوٹا گاؤں غیر مسلم آبادی پر مشتمل تھا رام پور ،وہاں مڈل اسکول جاری تھا، ایسے وقت میں ایک مولوی صاحب مسلمان گاؤں والوں کے اصرار پر بچوں کو دینیات پڑھانے کے لیے مقیم ہو گئے تھے، اس طرح مکتب کی ابتدا ہوگئی ، اسی مکتب میں آپ کی نانی نے آپ کو ” قاعدہ بغدادی‘ دے کر بٹھا دیا۔ یہاں مولوی حاجی لقمان مرحوم نے آپ کی بسم اللہ خوانی کی، مرحوم فارسی کے بڑے ماہر  استاد تھے، مگر تجوید ومخارج پر  آپ کی دسترس واجبی سی تھی۔ یہاں آپ  قاعدہ بغدادی، عم پارہ اور اردو قاعدے پڑھ کر قرآن شریف ناظرہ کی جماعت میں شامل ہوگئے تھے، قرآن شریف مکمل ہوا، اردو کی پہلی اور دوسری کتاب ختم ہوئی، دینی تعلیم کا رسالہ کے چند حصے ختم کئے ۔
 اب درجہ فارسی میں داخلے کا وقت تھا۔ واضح رہے کہ اس پورے خطے میں تقریباً سو کیلو میٹر کے رقبے میں کوئی دینی مدرسہ نہیں تھا ضلع ہزار باغ کے ایک شہر گریڈ یہہ میں جامعہ حسینیہ” نام کا ایک مدرسہ جاری تھا، یہاں حضرت شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنیؒ  کے قدم پڑنے کے بعد اس ادارے کا قیام عمل میں آیا تھا،  ایک وقت میں مفتی بلال احمدؒ وقاری شوکتؒ ( بھاگلپور ) حضرت مولانا افتخار صاحب اعظمیؒ ، حضرت علامہ عثمان غنیؒ ( سابق شیخ الحدیث مظاہر علوم وقف سہارن پور ) حضرت مولانا عبدالحق اعظمیؒ ( سابق محدث کبیر و نائب شیخ الحدیث دار العلوم دیو بند ) اور حضرت مولانا قاری محمد ایوب مظاہریؒ قاضی شریعت ضلع گریڈیہہ جیسے اساتذہ و اکابر علماء کی تدریسی خدمات اسے حاصل رہی تھیں۔ ۱۹۶۲ء میں اس مدرسے میں مولانا کا داخلہ ہوا۔
 یہاں سے آپ نے مدرسہ حسینیہ ، چلمل، ضلع بیگو سرائے کا رخ کیا، لیکن جب معلوم ہوا کہ یہاں سے علامہ عثمان غنیؒ جیسے جید اساتذہ نکل چکے ہیں تو پھر اپنے وطن سے قریب تر علاقے کے اشرف المدارس  کلٹی (بردوان۔ بنگال )کی طرف  ۱۹۶۴ء میں توجہ ہوئی،یہاں آپ کو حضرت مولانا عبد الرشید رانی ساگری رحمۃ اللہ جیسے عارف باللہ کا فیض نصیب ہوا۔ 
۱۹۶۷ء میں آپ نے مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور میں داخلہ لیا جہاں شرح جامی کی جماعت میں آپ کو داخلہ ملا، یہاں آپ کو علامہ صدیق احمد کشمیریؒ سے شرح ملاجامی پڑھنے کا موقعہ ملا، مولانا کشمیریؒ نے پچاس سال تک نحو کی یہ مشکل  کتاب پڑھائی تھی، اور آپ کو بجا طور پر امام الںحو کہا جاتا تھا۔ مولانا اسلام صاحب نے علامہ کے شرح ملا جامی کے درسی افادات کو قلمبند کیا تھا، اور جب  آپ  کو شرح جامی پڑھانے کا موقعہ ملا،  تو سالہاسال تک آپ کو اس کی عبارتیں ازبر یاد رہی تھیں۔یہاں آپ نے مولانا مفتی عبد القیوم مظاہریؒ سے کنز الدقائق پڑھی، مفتی صاحب قریبی دور کے  اہل اللہ میں تھے،اور حضرت مولانا عبد القادر رائے پوریؒ کے خلیفہ مجاز تھے، مظاہر علوم میں اختلافات رونما ہوئے تو دل برداشتہ ہوکر علحدگی اختیار کی اور یکسوئی سے حضرت رائے پوری کی خانقاہ کے کاموں کو سنبھال لیا تھا۔ 
۱۹۶۸ء میں آپ کا داخلہ دارالعلوم دیوبند میں ہوا۔ اس وقت تک دارالعلوم کے نصاب تعلیم میں جماعت بندی نہیں ہوئی تھی۔ یہاں   آپ کا داخلہ مختصر المعانی، شرح وقایہ اور مقامات حریری کی جماعت میں  ہوا، اور یہیں سے داخلے کے چار سال بعد آپ نے دورہ حدیث مکمل کیا۔دارالعلوم میں آپ کی تعلیم کی ترتیب اس طرح تھی:
داخلہ: ۱۹۶۸ء۔فراغت ودورہ حدیث: ۱۹۷۱ء۔تکمیل ادب عربی: ۱۹۷۲ء۔تکمیل کتابت(اردو عربی خطاطی): ۱۹۷۳ء۔
تکمیل افتاء نویسی: ۱۹۷۵ء۔
یہاں سے آپ نے چالیس سال سے زیادہ عرصہ  طالبان علوم نبوت کی خدمت میں گذارا، اور آپ کے سامنے ہزاروں تشنگان علم نے اپنے زانوئے تلمذ تہ کئے-  آپ نے کئی ایک کتابیں بھی یاد گار چھوڑیں۔ جن میں سے چند  ایک اہم کتابیں یہ ہیں۔
دار العلوم کی ایک صدی کا علمی سفرنامہ، دارالعلوم دیوبند اور حکیم الاسلام قاری محمد طیب،مقالات حکیم الاسلام۔خانوادۂ قاسمی اور دار العلوم دیوبند۔درخشاں ستارے: میرے اساتذہ، میری درسگاہیں۔ رمضان المبارک: فضائل ومسائل۔زکوۃ و صدقات: اہمیت و فوائد۔متعلقات قرآن اور تفاسیر۔ضمیمہ المنجد عربی اردو۔جمع الفضائل شرح اردو شمائل ترمذی۔منہاج الابرار شرح اردو مشکوۃ الآثار۔جدید عربی میں خط لکھیے عربی اردو۔القراءۃ الراشدہ ترجمہ اردو ۔ترجمہ مفید الطالبین۔
طویل بیماری نے آپ کو توبہ و رجوع الی اللہ کا  خوب موقع دیا، اور جب اس دنیا سے گئے تو جسم گناہوں کی آلائشوں سے پاک تھا، پوری زندگی قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں بلند کرنے میں گذاریں، اللہ تعالی آپ کی مغفرت کرے ، اور اعلی علیین میں مقام عطا کرے۔ آمین۔
2023-06-17
WA: 00971555636151
 https://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/

Leave a Response