مولانا امداداللہ قاسمی اسلاف واکابر کے علم وعمل کے امین تھے/مفتی محمد شہاب الدین قاسمی
مولانا رحمہ اللہ کے سانحۂ ارتحال پر جمعیۃ علماء جھارکھنڈ کا اظہارِتعزیت
رانچی 7 مئی
جھارکھنڈ کی علمی اور روحانی شخصیت مفسرِ قرآن مجید مولانا امداد اللہ قاسمی کے سانحۂ ارتحال پر جمعیۃ علماء جھارکھنڈ نے اپنے گہرے دکھ اور درد کا اظہار کرتے ہوئے ان کے اہلِ خانہ سے تعزیتِ مسنونہ پیش کیا ہے۔
جناب مفتی محمد شہاب الدین قاسمی جنرل سیکرٹری جمعیۃ علماء جھارکھنڈ نے اپنے ایک اخباری بیان میں کہا کہ مولانا امداداللہ قاسمی کی رحلت بالخصوص جھارکھنڈ کے لیے بڑا علمی اور روحانی خسارہ ہے، انہوں نے کہا کہ مولانا رحمہ اللہ اپنے دور کے ممتاز علماء میں تھے، انہوں نے اپنی پوری زندگی تعلیم، اصلاحِ عقیدہ اوربندگانِ خدا کو اللہ کے ساتھ جوڑنے میں گزاری، جس کے مفید اثرات ونتائج ان کے علاقے سرائے کیلا اور مشرقی سنگھ بھوم میں آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
مفتی محمد شہاب الدین قاسمی نے کہا مولانا رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند کے سابق معین المدرسین تھے، ان کی علمی اور تدریسی صلاحیتوں سے اکابر اساتذۂ دارلعلوم بھی خوب معترف تھے، چنانچہ 1979 میں مشکوۃ شریف میں اور 1980 میں تکمیلِ ادب میں دارالعلوم دیوبند میں اول پوزیشن حاصل کی، 1982 میں تخصص فی الادب العربی میں داخلہ لیا اور 1983 میں دارالعلوم دیوبند میں بحیثیت معین المدرسین دارالعلوم دیوبند منتخب ہوئے۔
مولانا رحمہ اللہ حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی رحمہ اللہ کے خادمِ خاص تھے، ان کے ہی مکان میں رہ کر انہوں نے ان سےعربی زبان ادب میں مہارت پیدا کی۔ اپنے دور کے جن ممتاز اکابروساتذہ سے کسبِ فیض کیا ان میں شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا، حکیم الاسلام حضرت قاری طیب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا اسعداللہ سابق ناظم مدرسہ مظاہرالعلوم سہارنپوراور اس دور کے دیگرکباراساتذہ دارالعلوم دیوبند اور مظاہرّ علوم سہارنپور خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں، جب کہ 1979میں حضرت مفتی محمود الحسن گنگوہی سے بیعت ہوئے۔
مولانا امداداللہ قاسمی رحمہ اللہ کی پیدائش 1959 میں ہوئی، ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں موڑیا میں مولانا عبدالباری سے حاصل کی، 1971 میں دارالعلوم شاہ بہلول سہارنپور میں داخل ہوئے، اس کے بعد مدرسہ خلیلیہ سہارنپور میں تعلیم حاصل کی، 1974 میں مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور میں کافیہ اور شرح جامی پڑھی، اس درمیان دوسال طبیعت کی ناسازگی کی وجہ سے مولانا کی تعلیم موقوف رہی، اور 1977 میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور تعلیم مکمل کی اور وہیں دوسال تدریسی خدمات انجام دیں۔
دارالعلوم دیوبند کے بعد کچھ عرصہ انہوں نے آندھرا پردیش کی مشہور دینی درسگاہ دارالعلوم پلمنیر میں تدریسی خدمات انجام دیں، پھر وطنِ مالوف لوٹ کر اپنے علاقہ کی مسجد موبھنڈار میں امات وخطابت کے فرائض انجام دیے، اور وہاں سے بدعات کا خاتمہ کیا، پھر جمشید پور کی مشہور مسجد آم بگان میں امامت کے فرائض انجام دیے، 2006 میں حج بیت اللہ کا فریضہ انجام دیا، اس کے بعد مکمل یکسوئی، سلوک اور فنا فی اللہ کی زندگی بسر کی۔
مولانا رحمہ اللہ اپنے علاقے کی تمام دینی، ملی، تعلیمی اور تصوف وسلوک میں مرجع کی حیثیت رکھتے تھے، اپنے علاقہ میں بدعات اور جہالت کو دیکھتے ہوئے 2012 میں مدرسہ امداد الاسلام موڑیا کو قائم کیا، اور اس میں ہدایہ تک کی تعلیم دی۔ وہ جمعیۃ علماء ضلع سرائے کیلاکے سرپرست اور مجلسِ منتظمہ جمعیۃ علماء جھارکھنڈ کے معزز رکن تھے، پچھلے دنوں جامعہ محمودیہ سرائے کیلا میں جمعیۃ علماء جھارکھنڈ کی مجلسِ منتظمہ کے اجلاس منعقدہ 21فروری 2024 میں شریک ہوکر اجلاس کی سرپرستی فرمائی۔
علم وعمل کا یہ پیکر 21 شوال المکرم 1445ھ تہجد اور نمازِ فجر سے فارغ ہوکر ذکرِ قلبی کرتے ہوئے اپنے معبودِ حقیقی سے جاملا۔
مفتی محمد شہاب الدین قاسمی نے کہا کہ ایسے باکمال اوربافیض عالمِ دین کا سایہ ہمارے سروں سے اٹھ جانا ایک سانحہ سے کم نہیں، اللہ تعالیٰ مولانا رحمہ اللہ کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے، اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، اور ان کے صاحزادگان مفتی اسداللہ، مولانا احمداللہ، مولانا محمد اللہ، محمد حبیب اللہ محمد وصی اللہ، محمد ولی اللہ، محمد مسیح اللہ کو اپنے والدِ مرحوم کے علمی اورعملی ورثہ کا امین وجانشین اور ان کا نعم البدل بنائے۔
جنرل سیکرٹری جمعیۃ علماء جھارکھنڈ نے بالخصوص صوبہ کے اربابِ مدارس ، ائمۂ مساجد،علماء کرام اور جمعیۃ علماء کے ذمہ داروں سے مولانا مرحوم کے لیے ایصالِ ثواب کی اپیل کی ہے۔