جواں سال عالم دین جناب مولانا نجم الدین قاسمی چمپارنی رح کا سانحہ ارتحال
ویراں ہے میکدہ خم وساغر اداس ہیں تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
زمانہ طالب علمی کے چند رفقاء پوری زندگی یاد رہتے ہیں،
سچی بات یہ ہے کہ عام طور پر وہ زندگی بھر کے رفیق ہو جاتے ہیں، خوشی وغم اور دنیا کی حسین چھاؤں اور بڑی سے بڑی مشکلات میں ان کی رفاقت سہارا کا کام دیتی ہے، جہاں پر تمام اپنےاجنبی بن جاتے ہیں، یہی چند دوست زندگی کے اندھیروں میں روشنی بن کر نمودار ہوتے ہیں، اچھے دوست اللہ کی بڑی نعمت ہوتے ہیں۔ ان کی ہمیشہ قدر کرنی چاہیے ۔
انہی میں سے ایک نام جناب مولانا نجم الدین قاسمی چمپارنی کا ہے جنہوں نے دو مہینے کی علالت کے بعد آج دوپہر کے وقت بعد نماز ظہر ہم تمام رفقاء کو داغ مفارقت دے کر رمضان کریم جیسے بابرکت مہینے میں اپنےرب کریم سے جا ملے۔
اناللہ واناالیہ راجعون ۔
موصوف مرحوم میرےمادر علمی میں درجہ ہفتم اور دورۀ حدیث کے ساتھی رہے ۔
دارالعلوم دیوبند کی علمی اور روحانی فضا چھوٹے چھوٹے مدارس کے طلبہ کے لیے داخلے کے وقت ایک بڑی کائنات معلوم ہوتی ہے ،اس بھیڑ میں چند احباب فطری طور پر آپ کے اخلاق و ادا سے متاثر ہو کر آپ سےبےحدقریب ہو جاتے ہیں۔جو کہ ایک فطری امر ہے ۔
زمانہ دارالعلوم میں بندے کا تعارف طلباء کے درمیان ایک نو آموز شاعر کی حیثیت سے تھا، میرا درجہ اقلیم سخن میں ایک نوواردطفل کی مانند تھا؛ مگر طلبہ دارالعلوم دیوبند کی یہ ایک منفردخصوصیت ہے کہ وہ اپنے احباب کی بڑھ چڑھ کر حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔چنانچہ دیگر احباب کے ساتھ مولانا نجم الدین قاسمی مرحوم بھی میری بھرپور حوصلہ افزائی کرتے ۔رفتہ رفتہ یہ رسمی ملاقات گہری دوستی میں تبدیل ہو گئی ۔مولانا مرحوم کانکاح دارالعلوم جانے سے پہلے ہی ہو چکا تھا، آپ اس وقت صاحب اولاد تھے آپ کے والد ماجد جناب خواجہ صاحب ڈھاکہ چمپارن علاقے کے مشہور بزرگوں میں ہیں جو حضرت مولانا اسعد مدنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دست گرفتہ ہیں۔ آپ دارالعلوم دیوبند، جمعیت علماءہند اور خانوادہ مدنی کے بے حد قدر دانوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اسی کافیض ہے کہ آپ نے اپنے کئی بچوں کو عالم اورحافظ بناکردین کی خدمت کے لیے تیار کیا ہے، معاشی طور پر آپ تجارت کرتے ہیں۔ جب مولانا نجم الدین قاسمی صاحب دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم تھے تو ان کے بال بچوں کی کفالت آپ کےوالدحضرت خواجہ صاحب خودفرمارہےتھے ۔
مولانا نجم الدین صاحب مرحوم کا سراپا ایسا تھا کہ ہر دیکھنے والے کی آنکھوں میں اترجاتا، درمیانہ قد ،گٹھیلا بدن ،چوڑی پیشانی، مسکراتا چہرہ اور شہد میں ڈوبا لہجہ سامنے والے کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا، موصوف رفیق اساتذہ اور بزرگوں کی قدر سے دل کو ہمیشہ لبریز رکھتے ،میرے فکری اختلاف کے باوجود بھی وہ مجھے زبردستی حضرت مولانا اسعد مدنی صاحب نور اللہ مرقدہ کی مجلس میں لے جاتے، مولانا مرحوم اچھے کاتب اور عمدہ خوش نویس تھے ،طبیعت میں حد درجہ موزونیت ،درداوروگھلاوٹ تھی، جب ان کےہاں دوسرا لڑکا پیدا ہوا ؛تو ان کا نام رکھنے کے لیےمجھے لے کر استاذ محترم حضرت مولانا عبدالخالق مدراسی صاحب حفظہ اللہ کی خدمت میں تشریف لے گئے، حضرت نےنو مولود کا نام رکھا؛ پھر حضرت نے بچے کو دعائیں دیں۔
فراغت کے بعدرفیق مکرم تجارت سے وابستہ ہو گئے تھے ، مولانا مرحوم کوزمانہ طالب علمی ہی سے تجارت سے بڑی رغبت تھی، انہوں نے اس میں مہارت حاصل کرنے کے لیے بندے کے مشورے پر ریاست کرناٹک کا بھی سفر کیا؛ پھر واپس آکر والد بزرگوار کی پیرانہ سالی کو دیکھتے ہوئے تجارت میں ان کے دست و بازو بن گئے، درمیان میں آپ نے کچھ قیمتی عرصہ حجاز مقدس میں بھی گزارا اور وہاں مقیم عجمی طلبہ کو تعلیم دی؛ پھر پانچ چھ سالوں قبل وطن آکر ڈھاکہ چمپارن میں مستقل طور پر تجارت کواپنا ذریعہ معاش بنا لیا تھا اس کے ساتھ دینی ملی اور تعلیمی کاموں میں بھی کچھ وقت دیتے ۔ایک سال قبل مشرقی چمپارن میں جب بندہ کی قیادت میں امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ پھلواری شریف پٹنہ کی جانب سے دعوتی و اصلاحی دورہ ہوا؛ تو مولانانجم الدین قاسمی صاحب نے امارت شرعیہ کےوفدکا بھرپور ساتھ دیا اور اس کے اعزاز و اکرام میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کثرت اسفار کی وجہ سے بندے کی طبیعت ان دنوں خراب چل رہی تھی، محترم مولانا نجم الدین قاسمی صاحب مرحوم مستقل میری تیمارداری میں کھڑے رہے (فجزاہ اللہ خیر الجزا ء )
ماہ دسمبر 2023 ءکے درمیان میں اچانک ان کا فون آیا کہ میری طبیعت کچھ دنوں سےناساز ہے،مستقل بخار رہتا ہے اور بدن میں کمزوری کا احساس ہے ، مجھے آئی جی ایم ایس پٹنہ میں ڈاکٹر سے دکھانا ہے، آپ کا تعاون چاہیے، بندہ نے فورا وہاں رابطہ کر کے آئی جی ایم ایس میں ایک بیڈ کا بندوبست کرایا اور ابتدائی تمام تشخیص مکمل کرلی گئی، ایک رپورٹ جو ایک ہفتہ کے بعد آئی ؛اس میں بلڈ کینسر ثابت ہوگیا،یہ رپورٹ اولا مولانا سے مخفی رکھی گئی،تاہم یہ اندوہناک رپورٹ سنتے ہی مرحوم کے اہل خانہ اسی وقت ٹوٹ سےگئے، اس جاں گسل خبرسےبندے کے حواس بھی جاتے رہے اور سمجھ میں نہیں آیا کہ اب کیا کیا جائے؟ بالآخر گھرکےمشورہ سےدہلی ایمس لے جایا گیا ،وہاں چند دنوں کے علاج کے بعد ڈاکٹروں کے مشورے سے ٹاٹا ہاسپٹل ممبئی منتقل کیا گیا، بیڈ کی قلت کی وجہ سے خارجی طور پر علاج جاری تھا۔
مولانا مرحوم کی فراغت 2006ء کی ہے، اس سن فراغت کے تمام طلباء نے مولانا مرحوم کی صحت یابی کے لیے ہر طرح سے جدوجہد کی ،دعاء اور دوا ہر دو شکل اختیار کی گئی؛ مگر تقدیر غالب آگئی ، چند دنوں قبل ان کے اہل خانہ کا مشورہ ہوا کہ رمضان میں انہیں گھر لے کر چلتے ہیں ۔گزشتہ کل 15 مارچ کو ان کے صاحبزادے حافظ مدثر عزیز سے بات ہوئی کہ والد صاحب کی طبیعت بہتر تو ہے؛ مگر ابھی بے ہوشی کی کیفیت ہے، بندہ نے تسلی دلائی۔ مگر آج بوقت ظہر یکایک فون آیا کہ مولانا نجم الدین قاسمی صاحب اب دنیا میں نہیں رہے اللہ رمضان کریم کی برکت سے مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے ان کے درجات کو بلند فرمائے ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔
یہ چمن یوں ہی رہے گا اور ہزاروں بلبلیں ۔
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑجائیں گی
از احمد حسین قاسمی مدنی معاون ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ