حاجی ظہور علی صاحب کی شخصیت اور ان کی سیاسی و سماجی خدمات (ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی)


عام انسان اپنی زندگی میں جو کچھ کرتا ہے اس کی کوئی خاص حیثیت نہیں ہوتی ، اس کا عمل اس کی ذات تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے لیکن جب معاشرے کا کوئی مخصوص فرد کوئی ایسا کام کرتا ہے جو اس کی ذات تک محدود نہ ہو کر پورے سماج کو متاثر کرتا ہے تو ایسے لوگوں کی شخصیت اور ان کی خدمات تاریخ کا ایک حصہ بن جاتی ہیں ، ایسی شخصیتوں پر مضامین اور مقالے لکھے جاتے تھے ، ان کی شخصیت اور ان کی خدمات کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق و تفتیش کی جاتی ہے ، ایسی شخصیتیں آنے والی نسلوں کے لئے آئیڈیل اور نمونہ ہوتی ہیں ، ایسی ہی شخصیتوں میں ایک بہت ہی اہم اور نمایاں شخصیت جناب ظہور علی صاحب کی ہے جن کی سیاسی و سماجی خدمات کے مختلف گوشوں پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے اور لکھا جا چکا ہے اور آئیندہ بھی لکھا جاتا رہے گا ، ظہور علی صاحب تو بنیادی طور پر رانچی شہر کے رہنے والے تھے مگر وہ پوری زندگی دیہی حلقے کے لوگوں اور ان کے مسائل سے بھی جڑے رہے یہی وجہ تھی رانچی ہی نہیں بلکہ پورے چھوٹا ناگپور میں ان کی سیاسی و سماجی پکڑ بہت مضبوط تھی ، تحریک آزادی کی لڑائی میں جہاں انہوں نے جھارکھنڈ علاقے سے جنگ آزادی کی قیادت کا جھنڈا بلند کیا اور اس کے لئے ہمیشہ پیش پیش رہے ، وہیں آزادی کے بعد جھارکھنڈ علاقے کی تعمیر و ترقی کے لئے جئے پال سنگھ کے ساتھ مل کر الگ جھارکھنڈ ریاست کی مانگ کو ریاستی و مرکزی حکومت کے سامنے زور و شور سے اٹھایا اور الگ جھارکھنڈ ریاست کی تحریک کو مضبوطی دینے کی غرض سے ” جولھا کولھا ” کا وہ مشہور نعرہ دیا جو آج بھی استعمال ہوتا اور بہت مشہور ہے ، رانچی شہر کے قلب مین روڈ میں واقع آر ، علی ، صاحب کے مکان میں بڑے بڑے سیاسی و سماجی رہنماؤں کے آنے جانے کا سلسلہ اس طرح جاری ریتا تھا جیسے یہ پٹنہ کا ” صداقت اشرم” ہو ، آر ، علی، صاحب کا یہ مکان کئ تاریخی یادوں اور روایتوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ، آر ، علی ، صاحب کا شمار رانچی شہر کے بڑے تاجروں اور رئیسوں میں ہوتا تھا ، سن 1937سے 1936عیسوی تک رانچی سے جمیعۃ المومنین کے ٹکٹ پر پر چناؤ لڑ کر اور مسلم لیگ کو شکست دے کر انگریزی سرکار کے دور میں عبوری حکومت کے ممبر (M L A ) رہے ، آر ، علی ، صاحب لیجسلیٹو کونسل کے ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے سماجی خدمت گار اور غریبوں کے مسیحا کی شکل میں جانے جاتے تھے ، آر ، علی ، مرحوم کی کوئی اولاد نہیں تھی اس لئے انھوں نے اپنے سالا کے بیٹے کو بچپن میں ہی گود لے لیا تھا جس کی پیدائش 1926 کو ہوئی تھی ، یہی بچہ آگے چل کر مجاہد آزادی اور غریبوں کے مسیحا اور قومی یک جہتی کا علمبردار کی شکل میں جانا جانے لگا ، ظہور علی کی پیدائش باکل شاہانہ انداز میں ہوئی ، بہتر تعلیم و تربیت اور مختلف علوم و فنون کی تعلیم دی گئی تھی ، سماجی خدمات کا جذبہ تو اپنے والد محترم سے وراثت میں ملا تھا ، ظہور علی صاحب کے عین عنفوان شباب کے وقت گاندھی جی کی قیادت میں پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی کی لڑائی چل رہی تھی ، 1942–43 میں ” انگریزوں بھارت چھوڑو ” کے نعرہ سے متاثر ہوکر ظہور علی صاحب بھی آتما رام بودھیا اور موتی لال امیٹھیا کے ساتھ مل کر آزادی کی تحریک میں شامل ہوگئے ، اس کی پاداش میں انہیں کئی بار جیل بھی جانا پڑا ، انگریزوں کے ظلم و استبداد کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر وہ آزادی کی تحریک سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے ، 1947 میں بھارت کی آزادی کے بعد انہوں نے اپنی پوری توجہ سماجی خدمات میں مرکوز کردی ، جناب حاجی ظہور علی مرحوم صاحب کی سماجی و فلاحی کاموں میں دلچسپی جنون کی حد تک تھی، جس کا اندازہ مختلف سماجی و فلاحی تنظیموں اور اداروں میں ان کی شمولیت سے ہوتا ہے ، وہ رانچی جمیعۃ المومنین کے صدر رہے ، ہائیر مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی آف انجمن اسلامیہ رانچی جس کے ماتحت مولانا آزاد کالج چلتا ہے کے فاؤنڈر ممبر رہے ، اٹالین میتری سنگھ بہار کے جنرل سکریٹری رہے ، اردو لائبریری رانچی کے ٹرسٹی رہے ، چھوٹا ناگپور اقلیتی کانگریس کے سرپرست رہے ، رانچی ضلع شہری مورچہ کے صدر رہے ، رانچی سنگھرش سمیتی کے سکریٹری رہے ، رانچی مینٹل ہاسپیٹل ، راجندر میڈیکل کالج اور ہاسپیٹل ، صدر ہاسپیٹل ، رانچی جیل اور اٹکی ٹی ، بی ، سنٹوریم کے نگراں رہے ، دکھنی ریلوے کے ممبر ، چھوٹا ناگپور کرشچن سہکاری بینک رانچی کے سکریٹری ، یونانی کالج پٹنہ کے سکریٹری ، رانچی کالج کے ممبر ، رانچی ٹیلیفون ایکسچینج کے ممبر اور رانچی امپاورمنٹ ٹرسٹ کے ٹرسٹی رہے ، ان تمام عہدوں کی ذمےداریوں کو آپ بڑی حسن وخوبی کے ساتھ انجام دیا کرتے تھے ، ان کی ایک سب سے بڑی سماجی خدمت ” بنکر ہینڈلوم سنٹر اربا” کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی ، جناب حاجی ظہور علی صاحب غریب بنکروں کی معاشی حالت سدھارنے کے لئے ہمیشہ فکرمند اور کوشاں رہا کرتے تھے ، اس کے لئے انھوں نے کافی محنت و مشقت اور تک و دو کے بعد اربا میں بنکر ہینڈلوم سنٹر کا قیام کرایا ،ظہور علی صاحب اس کے پہلے بانی صدر بنے ، آج اس سنٹر سے ہزاروں کی تعداد میں انصاری برادران اپنے اور اپنے خاندان کی پرورش کر رہے ہیں ، 1962 میں ظہور علی پہلی بار مانڈر اسمبلی حلقہ سے کانگریس کے ایم ، ایل ، اے ، منتخب ہوئے ، اپنے پانچ سالوں کی کارکردگی میں انھوں نے مانڈر اسمبلی علاقے کے لوگوں کے مسائل بہت ہی زور دار انداز میں اٹھایا جس سے وہ پورے ملک میں چھاگئے ، آپ کی سیاسی دور اندیشی اور سیاسی فکر و نظر سے بعد کے بہت سارے سیاسی و سماجی رہنماؤں نے بہت فائدہ اٹھایا اور آپ کی سیاسی و سماجی تجربات سے فائدہ اٹھا کر اس میدان میں آگے بڑھے ، ظہور علی صاحب کی بڑھتی ہوئی عوامی شہرت و مقبولیت کچھ سیاسی و سماجی بازیگروں کو راس نہ آئی اور انھیں آپ سے حسد و جلن ہونے لگی جیسا کہ ہر دور میں ہوتا ہے اور ان حاسدین نے سیاسی داؤ پیچ کرکے ماندر اسمبلی حلقہ کو ریزرو کروا دیا اور ان کے چناؤ لڑنے کا راستہ بند ہوگیا ، جناب حاجی ظہور علی صاحب کو مذہبی تشدد سے سخت مخالف تھے ، ان کا کہنا تھا کہ مذہب کو گندی سیاست کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ اب ہمارے زمانے ہورہا ہے ، سماجی منافرت اور مذہبی کشیدگی پھیلانے کے خلاف بلا کسی خوف و خطر کے ظہور علی صاحب آگے بڑھ کر ان غیر سماجی عناصر کا مقابلہ کرنے اور ماحول کو پُرامن بنانے میں اپنی پوری محنت و کوشش لگا دیتے تھے ، اس معاملے میں وہ اتنا منہمک رہتے تھے کہ وہ بھوک پیاس کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے ، مذہبی آہنگی اور قومی یک جہتی قائم کرنے میں تو انھوں اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کی ، 1967 کے رانچی فساد میں جب سارا شہر جل رہا تھا تو سارے خود ساختہ رہنما اپنے اپنے گھروں میں بند تھے مگر ظہور علی صاحب اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر مسلمانوں کے کے بیچ جاکر کر انھیں سمجھانے کا کام کیا ، انھوں ہندو مسلم دونوں کے امن پسند ذمےدار لوگوں کی اپنے گھر میں بیٹھک کرائی جس میں ضلع انتظامیہ کے اعلیٰ افسران بھی تھے اور رانچی کے ماحول کو پُرامن بنانے کے لئے اس وقت کوشاں رہے جب تک کہ نفرت کی آگ بجھ نہیں گئی ، جناب ظہور علی صاحب بڑی نفاست پسند اور صاف ستھرا رہنے والے انسان تھے ، جھوٹ سے ان کو سخت نفرت تھی ، سچائی کے ساتھ ہمیشہ کھڑے نظر آتے تھے ، جناب ظہور علی صاحب کا انتقال 16 / نومبر 1988 ہوا ، جناب حاجی ظہور علی آج ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی سیاسی و سماجی خدمات کی یادیں ہمارے پاس ہیں جو انے والی نسلوں کو یاد دلاتی رہیں گی کہ ہمارے بزرگوں نے ہمارے لئے جو مشعل راہ چھوڑا ہے اسے لے کر آگے بڑھتے رہنا ہم سب کی ذمےداری ہے ،
