حاجی محمد عمر بھائی ھند پیڑھی ایک مثالی شخصیت ( ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی 7004951343 )


رانچی شہر میں مذہبی ، تعلیمی ، سیاسی و سماجی خدمات کے اعتبار سے کئی ایسے لوگ ہوئے جنھوں نے اپنی ساری زندگی کے کردار و عمل سے معاشرے میں اپنی ایک الگ شناخت اور پہچان بنائی ہے اور انفرادی یا سماجی اداروں میں کام کرنے والوں کے لئے ایک مثال قائم کیا ہے ، ایسے ہی لوگوں میں ایک مثالی شخصیت ہند پیڑھی کے حاجی محمد عمر بھائی کی رہی ہے ، حاجی محمد عمر بھائی جیسے لوگوں اور ان کے ذریعے کی گئی سیاسی و سماجی خدمات کو فراموش کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے ،
حاجی محمد عمر بھائی بنیادی طور پر ہند پیڑھی رانچی کے رہنے والے ہیں اور ادریسیہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں جن کی پیدائش 1947 میں اس وقت ہوئی جب ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو چکا تھا ، وہ مختلف مجلسوں میں اس بات کا فخریہ انداز میں ذکر کرتے ہیں کہ میں ایک غلام ملک میں نہیں بلکہ ایک آزاد ملک میں پیدا ہوا ، ان کی ابتدائی تعلیم بڑی مسجد کے سامنے واقع ہند پیڑھی اردو مڈل اسکول سے ہوئی اور میٹرک تک کی تعلیم انھوں نے آزاد ہائی اسکول سے حاصل کی جبکہ گریجویشن کی تعلیم ڈورنڈہ کالج سے حاصل کیا ، حاجی محمد عمر بھائی طالب علمی کے زمانے سے ہی انقلابی اور تحریکی رہے ہیں ، طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ ہمیشہ انقلابی ، تحریکی اور اصلاحی کاموں سے جڑے رہے ، آج تو پیشہ ور مقررین اور پولس کے ڈر سے اپنوں کو چھوڑ کر دیوار پھاند کر بھاگنے والے اداروں کے ذمےدار مولوی اصلاح معاشرہ پر صرف بیان بازی کی حد تک محدود ہوتے ہیں لیکں جب عمل کا موقع آتا ہے تو میدان چھوڑ کر اور دیوار پھاند کر بھاگ جاتے ہیں ، آج اصلاح معاشرہ کے جلسے میں صرف بڑی بڑی باتیں ہوتی ہیں ، اصلاح معاشرہ کا عملی کام تو حاجی محمد عمر بھائی جیسے لوگوں نے کیا ہے جس کی جھلک آپ نیچے کی تحریر میں ملاحظہ فرمائیں گے ، بیباکی ، بے خوفی اور حق گوئی ان کے مزاج میں شامل رہی ہے ، انھوں نے ناحق کا کبھی ساتھ نہیں دیا اور باطل سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے اور نہ ہی کبھی اس سے سمجھوتہ کیا ، حق بات پر مضبوطی سے جم جانے والے اور ناحق کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہو جانے والے حاجی محمد عمر بھائی ہند پیڑھی کی ایک مثالی شخصیت کا نام ہے ، حاجی محمد عمر بھائی کی زندگی کے تین اہم پہلو ہیں ، (1) سیاسی (2) سماجی اور (3) تعلیمی ، ان کی ساری زندگی انھیں تین پہلوؤں پر گردش کرتی رہی ،
(1) سیاسی طور پر وہ مختلف سیاسی پارٹیوں سے منسلک رہے ، سب سے پہلے وہ جھارکھنڈ کے قد آور لیڈر اور جھارکھنڈ پارٹی کے بانی این ، ایی ہورو کے ساتھ رہے اور جھارکھنڈ ریاست کی تحریک میں شامل رہے ، متحدہ بہار کے وقت رانچی اسمبلی سیٹ سے جھارکھنڈ پارٹی کے ٹکٹ سے چناؤ بھی لڑا لیکن جیت نہیں پائے ، اسمبلی چناؤ میں کھڑے ہو کر انھوں نے اپنے سیاسی عزائم اور بلند حوصلے کا اظہار کر دیا ، جھارکھنڈ ریاست کی تشکیل سے قبل حاجی محمد عمر بھائی نے ہند پیڑھی کے وارڈ نمبر 12سے وارڈ کمشنر کا چناؤ لڑا اور سب سے زیادہ ووٹ سے تاریخی کامیابی حاصل کی ، اس بڑی کامیابی پر فتح جلوس نکالنے کی اجازت انتظامیہ نے صرف آپ کو ہی دیا ، آپ تقریبآ پندرہ سالوں زائد وارڈ کمشنر رہے ، وارڈ کمشنر رہتے ہوئے آپ نے عوامی مسائل اور اس کے حل کے لئے ہمیشہ جہدوجہد جاری رکھا ، ضلع اسکول میں موجودہ جل مینار آپ کی محنت و کوشش اور تحریک کا نتیجہ ہے ، جھارکھنڈ آندولن کو کھڑا کرنے اور اس کو آگے بڑھانے میں حاجی محمد عمر بھائی کا اہم ترین کردار رہا ہے جسے موجودہ جھارکھنڈ سرکار نے بھی تسلیم کرتے ہوئے حاجی محمد عمر بھائی کا نام جھارکھنڈ تحریک کاروں میں شامل کیا ہے جو جھارکھنڈ تحریک کی تاریخ اور اس کے ریکارڈ میں ہمیشہ شامل رہے گا ، جب ہورو صاحب کی جھارکھنڈ پارٹی تقسیم ہوگئی تو حاجی محمد عمر بھائی نے کانگریس کا دامن تھام لیا اور کانگریس کے بڑے اور قد آور لیڈر روشن لال بھاٹیا جی سے اتنا گہرا رشتہ بنالیا کہ روشن لال بھاٹیا عمر بھائی کے لئے اور عمر بھائی روشن لال بھاٹیا کے لئے لازم و ملزوم ہو گئے ، دونوں کے درمیاں گھریلو رشتہ قائم ہوگیا جو آج بھی قائم اور باقی ہے ، سیاسی اعتبار سے روشن لال بھاٹیا جی حاجی محمد عمر بھائی کی ہمیشہ سیاسی رہنمائی کرتے رہے ، درمیان میں چند سالوں کے لئے جھارکھنڈ کے پہلے وزیر اعلیٰ بابو لال مرانڈی اور ان کی پارٹی ” جھارکھنڈ وکاس مورچہ ” سے بھی جڑے رہے لیکن بابو لال مرانڈی کی فرقہ وارانہ ذہنیت کو دیکھتے ہوئے چند سالوں میں ہی بابو لال مرانڈی اور ان کی پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لیا جسے عمر بھائی کی سیاسی دور اندیشی کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا ، رانچی اسمبلی اور لوک سبھا چناؤ میں سیکولر سیاسی جماعت اور ان کے اُمیدوار کو کامیاب کرانے میں حاجی محمد عمر بھائی کا کردار ہمیشہ قابل ستائش رہا ہے ،
(2) حاجی محمد عمر بھائی کی زندگی کا سب سے نمایاں اور روشن پہلو سماجی پہلو رہا ہے ، انھوں نے اپنی پوری زندگی سماجی خدمات کو انجام دینے میں لگادی جس کی ایک طویل فہرست ہے ، حاجی محمد عمر بھائی نے شہر رانچی میں امن و امان قائم کرنے اور ہندو مسلم اتحاد قائم کرنے میں ہمیشہ نمایاں کردار ادا کیا ہے ، جس کی بنیاد پر پولیس انتظامیہ میں آپ کی اچھی خاصی پکڑ تھی ، انہوں کئی بار اپنی سماجی جہدوجہد اور محنت و مشقت سے رانچی کو نفرت اور فرقہ پرستی کی آگ میں جلنے سے سے بچایا ہے ، ایک مرتبہ روزنامہ ہندی اخبار ” آج ” نے اخبار کے ایک صفحہ پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اسکیچنگ تصویر بنادی جسے دیکھ کر مسلمان مشتعل ہو گئے اور مین روڈ پر واقع ہندی اخبار ” آج ” پریس کو اگ لگانے کے لئے لوگوں کی بھیڑ جمع ہو گئی ، قریب تھا کہ پورے پریس کو آگ لگا دی جاتی اور شہر میں فرقہ وارانہ فساد ہو جاتا لیکن جیسے ہی حاجی محمد عمر بھائی کو معلوم ہوا وہ فورآ موقع واردات میں پہنچ گئے اور اپنی جان اور لوگوں کی لعنت و ملامت کی پرواہ کئے بغیر ” آج پریس ” کو آگ لگنے سے بچا لیا جو در حقیقت رانچی کو آگ میں جلنے سے بچا لینا تھا ، بعد میں لوگوں نے اور ضلع انتظامیہ نے حاجی محمد عمر بھائی کے اس سماجی خدمت اور ان کے اس بہادرانہ کردار کو خوب سراہا ، واضح رہے کہ حاجی محمد عمر بھائی رانچی ضلع شانتی سمیتی کے اہم رکن رہے ہیں ، ملک کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پورے ملک میں سکھوں کے خلاف ایک عام نفرت کا ماحول پیدا ہو گیا تھا جو 1984 کے سکھ فساد کے نام سے مشہور ہے ، اس وقت بھی ہند پیڑھی سے متصل پی ، پی ، کمپاونڈ علاقے میں رہنے والے سکھوں کی جان و مال کی حفاظت جناب حاجی محمد عمر بھائی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کی ، سکھوں کے لئے کھانے پینے کا انتظام کیا ، اس مشکل ترین کام میں جناب حاجی محمد ابراھیم ( بایاں) نے حاجی محمد عمر بھائی کا بھر پور ساتھ دیا ، 1984 کے سکھ دنگا میں سکھوں کی حفاظت کے لئے اگر حاجی محمد عمر بھائی اور حاجی محمد ابراھیم صاحب کھڑے نہیں ہوتے تو ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح ہند پیڑھی اور مین روڈ سے متصل پی ، پی ، کمپاونڈ میں رہنے والے سکھ برادری کے لوگ بھی مارے جانے اور سکھوں کا بھاری جانی و مالی نقصان ہوتا ، جس کا اعتراف آج بھی رانچی میں رہنے والے سکھ برادری کو ہے ، اسی طرح ایک مرتبہ رانچی شہر کے دو الگ الگ برادری سے تعلق رکھنے والے دو باہوبلی آپس میں بھڑ گئے ، ایک باہوبلی نے دوسرے باہوبلی کے بہنوئی جناب حاجی معشوق محمد صاحب کا قتل بڑی بے رحمی سے ہزاری باغ روڈ میں واقع ان کی دوکان پر ہی کردیا ، حاجی معشوق صاحب ایک بہت ہی نیک اور شریف انسان تھے ، سارے لوگ چاہتے تھے کہ ہوسٹ مارٹم کے بعد ان کا جنازہ ان کے گھر سے نکلے مگر حاجی محمد عمر بھائی نے ایسا نہیں ہونے دیا لوگوں کی تنقید اور لعنت ملامت کی پرواہ کئے بغیر حاجی محمد عمر بھائی نے پوسٹ مارٹم کے بعد حاجی محمد معشوق صاحب کے جنازے کو براہ راست قبرستان لے گئے ، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اگر حاجی معشوق صاحب کا جنازہ ان کے گھر ہند پیڑھی لایا گیا تو علاقے میں ایک کہرام مچ جائے گا اور وہی ہوگا جو قاتل باہوبلی چاہتے ہیں ، انھوں نے اپنی اس ذاتی لڑائی کو برادریت کا رنگ دینا چاہا جس میں وہ حاجی محمد عمر بھائی کی سیاسی و سماجی سوجھ بوجھ اور دانش مندی کی وجہ کر کامیاب نہیں ہو سکے ، حاجی محمد عمر بھائی ہمیشہ غریبوں ، کمزوروں اور دبے کچلے لوگوں کی آواز بن کر کھڑے رہے ، جناب محمد سعید صاحب جب انجمن اسلامیہ رانچی کے صدر ہوئے تو حاجی محمد عمر بھائی انجمن اسلامیہ رانچی کی مجلس عاملہ کے رکن رہے اور انجمن اسلامیہ کے پلیٹ فارم سے بھی سماجی خدمات انجام دیتے رہے ،
(3) جناب حاجی محمد عمر بھائی کی تعلیمی خدمات بھی قابل ستائش رہی ہیں ، شروع سے ہی ان کو تعلیم سے ایک خاص تعلق اور لگاؤ رہا ہے ، مالداروں کے بچوں کے لئے اعلیٰ اور معیاری تعلیم حاصل کرنا کبھی بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا لیکن معاشی اعتبار سے کمزور اور پسماندہ طبقات کے بچوں کے لئے اعلیٰ اور معیاری تعلیم حاصل کرنا ہمیشہ مشکل اور ان کے دسترس سے باہر رہا ہے ، وہ ہمیشہ اس بات کہ لئے کوشاں رہے کہ غریبوں اور پسماندہ طبقات کے بچے بھی اعلیٰ اور معیاری تعلیم حاصل کریں اور احساس کمتری سے باہر نکلیں ، یہی وجہ ہے کہ ہند پیڑھی گوالہ ٹولی روڈ میں ادریسیہ تنظیم اردو مڈل ہائی اسکول قائم کیا گیا تو آپ نے اس اسکول کو چلانے ، آگے بڑھانے اور ترقی دینے میں اپنی قوت صرف کردی ، ہمیشہ اسکول کی نگرانی اپنی اولاد سے بڑھ کر کرتے رہے ، ادریسیہ اسکول کو چلانے اور اس کو آگے بڑھانے اور ترقی دینے میں حاجی محمد عمر بھائی کی نیک نیتی اور ان کے خلوص پر کوئی سوال کھڑا نہیں کیا جا سکتا ہے لیکں اگر حاجی محمد عمر بھائی نے اپنی ہی برادری کے پڑھے لکھے لوگوں کو ملا کر ایک تعلیمی کمیٹی اپنی ہی نگرانی و رہنمائی میں بنا کر اسکول چلایا ہوتا تو اسکول کو مزید ترقی اور عروج حاصل ہوا ہوتا ، اس لئے کہ معاشرے میں مختلف صلاحیتوں کے لوگ ہوتے ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ، ایک آدمی خواہ کتنا ہی باصلاحیت اور فعال و متحرک کیوں نہ ہو ، ایک نہ ایک دن اس صلاحیتیں کمزور پڑنے لگتی ہیں اور اعصاب جواب دینے لگتے ہیں اور آدمی اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگتا ہے لیکن جب مختلف صلاحیتوں کو جماعت اور ٹیم کی شکل دے کوئی بھی اصلاحی و سماجی اور تعلیمی کام کیا جائے تو کسی بھی ادارے اور تنظیم کو مختلف صلاحیتوں کا فایدہ حاصل ہوتا رہتا ہے اور ادارے کو آگے بڑھانے اور ترقی دینے میں مدد ملتی ہے ، نصف صدی سے زائد مسلسل سیاسی ، سماجی ، اصلاحی اور تعلیمی میدان میں اپنی خدمات انجام دینے دیتے اور کام کرتے کرتے اب حاجی محمد عمر بھائی گویا تھک سے گئے ہیں اور اب وہ اپنی زندگی کے آخری دور میں ایک تھکے ہوئے مسافر کی طرح نظر آنے لگے ہیں ،
حاجی محمد عمر بھائی کے چھہ لڑکے ہیں ، شاھد عمر ، ساجد عمر ، زاھد عمر ، مجاھد عمر ، ماجد عمر اور خالد عمر ،
۔ماشاءاللہ سب کے سب برسر روزگار اور خودکفیل ہیں ، مجاھد عمر ایک باصلاحیت ٹیچر ہیں اور والد کی جگہ ادریسیہ اسکول میں پڑھاتے ہیں اور اسکول نگرانی اور دیکھ بھال بھی کرتے ہیں ، حاجی محمد عمر بھائی ایک منجھلے لڑکے ساجد عمر اور سب سے چھوٹے لڑکے خالد عمر اپنے والد کی سیاسی و سماجی خدمت کی وراثت کو سنبھالنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ، ساجد عمر کے اندر سماجی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ، ہر سماجی و اصلاحی کاموں میں ساجد عمر صاحب آگے بڑھ کام کرتے نظر آتے ہیں ، برسوں سے حاجیوں کی خدمت کرتے آرہے ہیں ، چھوٹے لڑکے خالد عمر بھی اصلاحی اور سماجی خدمات کرتے نظرآتے ہیں ، ان کا حوصلہ اور جذبہ ہے کہ اگر وہ وارڈ پارشد کا چناؤ عوامی حمایت سے جیت گئے تو علاقے کے غریب ، کمزور اور دبے کچلے لوگوں کے لئے بڑھ چڑھ کر کام کریں گے ، دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ حاجی محمد عمر بھائی کو صحت و تندرستی عطا فرمائے اور ان کی تمام اولادوں کو ان کے نقش قدم پر چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
