Saturday, July 27, 2024
Jharkhand News

کیا ہمارے اداروں ,مدرسوں اور خانقاہوں میں خاندانی وراثت صحیح ہے؟ (ڈاکٹر عبید اللہ قاسمی)

 

 مسلمانوں کی سیاسی و سماجی, تعلیمی و مذہبی اور اخلاقی و عملی اصلاح اور فلاح و بہبود کیلئے ہمارے اکابرین نے ملک کی آزادی سے قبل اور بعد میں بھی کئی تنظیمیں اور ادارے قائم کئے جن میں کچھ نے آزادی کے بعد دم توڑ دئے تو کچھ آج بھی اپنی بے اثری کے باوجود قائم ہیں,آزادی کے بعد مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے نام قائم ہونے والے ریاستی اور ملکی سطح پر قائم ہونے ادارے اور تنظیموں کی کوئی تعداد متعن نہیں ہے,لیکن کچھ تنظیم اور ادارے ہمارے اکابرین نے آزادی سے پہلے  اور بعد میں بھی ایسے قائم کئے جس کا اثر و رسوخ حکومت اور عوام دونوں کے اوپر یکساں طور پر اس وقت تک قائم رہا جب تک ان اداروں اور تنظیموں کی قیادت و سیادت موروثیت کے بجائے باصلاحیت, حوصلہ مند, نڈر اور بیباک قائد کے ہاتھوں میں رہی, جن میں دارالعلوم دیوبند, مظاہرالعلوم سہارنپور, ندوۃ العلماء لکھنؤ, علیگڑھ مسلم یونیورسٹی, عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی ,جمیعۃ العلماء ہند, تبلیغی جماعت, جماعت اسلامی ہند, امارت شرعیہ بہار بنگال اڑیسہ و جھارکھنڈ, آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ, مسلم مجلس مشاورت, آل انڈیا ملی کونسل وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں, ان مذکورہ اداروں میں کئی ادارے الحمداللہ موروثیت و اجارہ داری اورآپسی اختلاف و انتشار کی بنیاد پر ٹوٹ پھوٹ و تقسیم کی لعنت سے محفوظ ہیں لیکن ہمارے کئی بڑے ادارے موروثیت اور اجارہ داری کی بنیاد پر ٹکڑوں میں تقسیم ہوگۓ, ان ٹوٹے ہوئے اداروں, تنظیموں اور جماعتوں کو جوڑنے اور ایک کرنے کی ساری محنتیں اور کوششیں مخلصین اور محبین کی بے اثر اور بیکار ہو گئیں, ضد اور ہٹ دھرمی نے آخر کار عوام کو بھی تقسیم کر دیا, اکابر کی ضد اور ہٹ دھرمی پر پردہ ڈالتے  ہوئے ہم نے کہنا شروع کردیا کہ ” اللہ کو یہی منظور تھا ” دونوں اداروں اور دونوں جماعتوں سے کام ہورہا ہے اور عوام و طلباء کو فائدہ پہنچ رہا ہے ” اس تقسیم میں بھی اللہ کی مصلحت پوشیدہ ہے” وغیرہ وغیرہ, حتی کہ اپنی نفسانیت اور جاہ پرستی پر مبنی اختلافات کو ہم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اختلافات سے جوڑ کر اپنے دل کو مطمئن کرلی(پہلا قسط) (جاری )

Leave a Response