Sunday, September 8, 2024
Ranchi Jharkhand

کب ہوگا رہبران قوم و ملت کا آپسی اتحاد ؟(ڈاکٹر عبید اللہ قاسمی)

 

ایسا لگتا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے نفرت کے ماحول کو دیکھ کر بھی رہبران قوم و ملت نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا, اقتدار کے نشے میں چور فرقہ پرست طاقتوں کے ذریعے پیدا کئے گئے موجودہ زہر آلود ماحول اور مسلمانوں کے  خلاف یکطرفہ سیاسی و سماجی اور قانونی کاروائی کئے جانے اور پورے ملک کے مسلمانوں کو مسلسل کسی نہ کسی بہانے خوف و ہراس  احساس کمتری اور ڈر اور خوف کے ماحول میں مبتلا کئے جانے کے باوجود جو قیادت غیر مہذب طریقہ کار اپنا رہی ہو جن کی قیادت کسی خاص مسلک پر مشتمل ہو, وہ صرف اپنے مسلک کو اجاگر کرنے کے لئے کسی تحریک کی قیادت کر رہی ہو تو ایسی صورت میں ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یہ طریقہ کار غلط ہے, ہر دور میں عام مسلمان تو ایک رہے ہیں لیکن مذہبی قیادت ایک نہیں رہی , مسلمانوں میں طبقاتی  و جماعتی اور گروہی اختلاف و انتشار ہمیشہ اوپر سے نیچے آتا ہے, کوئی بھی اختلاف و انتشار عام مسلمانوں کے ذریعے مذہبی قائدین اور علماء طبقہ میں نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ علماء اور رہبران قوم و ملت کا آپسی اختلاف اوپر سے نیچے  عام مسلمانوں میں پیدا ہوتا ہے اور خواص کے اختلاف و انتشار کا اثر اندھی تقلید اور شخصیت پرستی کی بنیاد پر عام مسلمانوں میں پھیل جاتا ہے جس کی عملی تصویر آپسی مسلکی و جماعتی ٹکراؤ میں صاف نظر آتی ہے , بہت سارے لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا جب قیام عمل میں آیا تو اس وقت ہندوستان کے جید علماء حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب, حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی صاحب, اور حضرت مولانا شاہ منت اللہ رحمانی صاحب رحمہم اللہ کی موجودگی میں ہندوستانی مسلمانوں کے سبھی مسلک کے لوگوں کو نمائندگی دی گئی, خاص طور پر شیعہ حضرات اور بریلوی حضرات کو تو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائبین صدر کے عہدوں سے بھی نوازا گیا, مسلمانوں کا یہ متحدہ پلیٹ فارم حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام علیہ الرحمہ کے دور تک بڑی طاقتور ,منظم, مربوط اور اسلام اور مسلمانوں کی حمایت و تائید میں حکومت وقت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی طاقت و ہمت و جرات اور حوصلہ رکھتا تھا لیکن قاضی مجاہد الاسلام قاسمی علیہ الرحمہ کے بعد بورڈ کی قیادت میں زوال آتا گیا,اب تو ہماری قیادت اور وہ بھی مذہبی قیادت کا یہ حال ہے کہ اگر ہمارا کوئی قائد آگے بڑھ کر حکومت یا فرقہ پرست قوتوں کی جانب سے بالواسطہ یا بلاواسطہ مسلمانوں پر کئے جارہے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو دوسرا قائد فورا اس کی تردید کردیتا ہے جیسا کہ ابھی گزشتہ ماہ  پولس کی موجودگی تین غنڈوں کے ذریعہ عتیق احمد کے قتل پر ایک مجلس میں مولانا سجاد نعمانی صاحب نے مظلوم کے حق میں دعا اور ظالم کے ظلم کے خلاف بارگاہ الہی میں بد دعا کرتے ہوئے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا اور مظلوم عتیق احمد اور ان بھائی اور بیٹے کے لئے دعاء مغفرت کی تو گودی میڈیا میں بھونچال آگیا جس کے بعد بورڈ کے ایک رکن قاسم رسول الیاس صاحب کے ذریعہ بورڈ کے لیٹر پیڈ پر تردیدی بیان جاری کردیا گیا کہ مولانا سجاد نعمانی صاحب کی دعا اور بد دعا سے بورڈ کا کوئی تعلق نہیں ہے وہ ان کا ذاتی بیان ہے, حالانکہ مولانا سجاد نعمانی صاحب نے اپنے دعا اور بد دعا میں مسلم پرسنل لا بورڈ کا کہیں ذکر تک نہیں کیا, بورڈ کو کیا ضرورت تھی قاسم رسول کے ذریعہ تردیدی بیان جاری کرنے کی, ڈر, بزدلی, کم ہمتی, احساس کمتری,فرقہ پرست قوتوں کا ڈر اور خوف اور دوسروں کے ہمت و حوصلہ اور قومی و ملی جذبہ کو توڑنے اور زیر کرنے کا یہ حال  ہماری سب سے بڑی متحدہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا ہے, کچھ ایسا ہی حال اوپر سے نیچے آتے ہوئے ہر جگہ کے چند مقامی و علاقائی مفاد پرست,موقع پرست اور ضمیر فروش علماء کا ہے ,جس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ عام مسلمان تو ایک ہیں لیکن علماء ایک نہیں ہیں جس کی تصویر آپسی مسلکی ٹکراؤ میں صاف نظر آتی ہے, آج کل تو کچھ علماء کا حال یہ ہے کہ بغیر مانگے فتوی دے دیتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کو یہ موقع فراہم کرادیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے اوپر زیادہ سے زیادہ چھینٹاکشی کرے اور اسلام و مسلمانوں کا مذاق اڑائے, یہ سب اس لئے ہورہا ہے تاکہ  یہ مفاد پرست, موقع پرست اور ضمیر فروش علماء اپنی مشتہری, عوامی مقبولیت اور کسی کو اس کے مقام سے گرانے کر خود کو اوپر اٹھ سکیں, اسی قسم کے مفاد پرست, خود غرض اور ضمیر فروش علماء مسلمانوں کو یہ مشورہ دیتے ہوئے نہیں تھکتے کہ اتنا کما لو کہ دال روٹی چل سکے بقیہ اللہ اللہ کرو اور خود عالیشان زندگی گزارنے کا کوئی موقع ضائع کرنا نہیں چاہتے ہیں, ان موقع پرست, مفاد پرست اور ضمیر فروش علماء نے کبھی بھی مسلمانوں کے مسائل پر سنجیدگی سے نہیں سوچا اور نہ ہی مسلکوں کو اپنے گھر میں رکھ کر مشترکہ مسائل پر ایک ہونے کے لئے تیار ہوئے اور نہ ہی کبھی مسلمانوں کو ہندوستان کے دستور میں دئے گئے حقوق کو سمجھنے اور قوم کو سمجھانے کی ضرورت سمجھی, اس کے برعکس مسلمانوں کو یہ مشورہ دیتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں کہ مسلمان اپنے کو سیاست سے دور رکھیں, سیاست اچھی چیز نہیں ہے لیکن جب چناؤ کا موقع آتا ہے تو پھر انہیں خود غرض اور مفاد پرست علماء کے لئے سیاست ایک فائدے مند سودا ثابت ہوجاتی  ہے , آج اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نئے نئے فتنے کھڑے کئے جا رہے ہیں, ان کے مذہبی عقائد اور مذہبی کتابوں پر حملے ہو رہے ہیں, ان کے علماء حق کو نشانہ بنایا جا رہا ہے, مسلمانوں کو ڈر اور خوف کے ماحول میں جینے پر مجبور کیا جا رہا ہے, مسلمان عوام پریشان ہیں کہ کیا کریں؟ اور کیا نہ کریں, کس کی سنیں؟  اور کس کی نہ سنیں ؟ ملکی, ریاستی, ضلعی اور مقامی جماعتوں اور اداروں کا سیلاب آیا ہوا ہے اس کے باوجود جان و مال, عزت و آبرو, دین و ایمان, مساجد و مقابر, مدارس و مکاتب اور سب کچھ داؤں پر ہے اور ہماری زبوں حالی کی انتہا یہ ہے کہ  مسلک, جماعت, فرقہ, گروہ, ذات برادری اور علاقائیت غرض کہ جتنے اقسام کی خصوصیات زوال کے ممکن ہیں ہم ان سب پر عمل پیرا ہیں اور زندہ ہیں, بہت ممکن ہے کہ حضور اقدس صل اللہ علیہ و سلم کی دعا کہ ” اجتماعی عذاب سے امت کو محفوظ رکھا جائے ” ہم لوگ اسی صدقے میں زندہ ہیں, مگر بہت تیزی سے اپنی شناخت اور پہچان کھوتے جا رہے ہیں, اس جرم میں کسی ایک گروہ یا طبقہ کو سامنے نہیں رکھا جا سکتا ہے, اس حمام میں تو سبھی ننگے نظر آتے ہیں, بہر حال اللہ جب تک اپنی حفاظت میں رکھے ہم مسلمان زندہ ہیں, مگر ہر طبقہ خصوصاً مختلف مذہبی تنظیم اور ان کے قائدین کو اپنی کارکردگی اور سرگرمی کا جائزہ لینا چاہئے اور موجودہ حالات سے نبروآزمائی کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے,

مضمون نگار: مولانا ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی سابق خطیب اقرا مسجد وسابق جنرل سیکرٹری مرکزی مجلس علماء جھارکھنڈ 

Leave a Response