Saturday, July 27, 2024
Jharkhand News

کیا آپ جانتے ہیں کہ رانچی سے نکالا تھا جھارکھنڈ کا پہلا اردو اخبار سال 1967 میں

 

رانچی میں اردو صحافت کی تاریخ ثمر الحق کے بغیر نامکمل ہے۔ جنھوں نے تاحیات اردو کو اس کا مقام دلانے کے لئے زبر دست قربانیاں دیں ۔ اردو کے لئے جیل بھی گئے ، اذیتیں بھی برداشت کی ، تکلیفیں بھی اٹھا ئیں۔ مگر کبھی اس کا صلہ نہیں چاہا۔

 اردو کے معتبر صحافی شمر الحق جن کی ادارت میں رانچی سے جھارکھنڈ کا پہلا اردو اخبار چھوٹا ناگپور میل ہفتہ وار ، 15 اگست 1967 میں منظر عام پر آیا۔ اور لگا تار کئی سالوں تک شائع ہوتا رہا۔ 1967 سے اردو آبادی کے مسائل پر لوگوں کو بیدار بھی کرتے رہے۔ لیکن ہم نے ایسی قابل قدر شخصیت کو فراموش کر دیا۔
ان کی پیدائش 3 فروری 1929 کو رانچی کے کر بلا چوک واقع چرچ روڈ میں ہوئی ۔ 

والد زین العابدین جنگ آزادی کے سپاہی رہے۔ تحریک آزادی میں جیل بھی گئے ۔ ثمر الحق نے اپنی شروعاتی تعلیم چرچ روڈ کے پرائمری اسکول میں حاصل کی ۔ اپر پرائمری کے امتحان میں وہ چھوٹا ناگپور میں اول آئے، انعام کے طور پر 3 روپیہ ہر ماہ اسکالرشپ ملنے لگی ۔ مڈل کے امتحان میں انھوں نے پورے بہار میں اول مقام حاصل کیا ۔ انھیں 15 روپیہ ہر ماہ اسکالر شپ ملنے لگی۔ جو کہ میٹرک تک جاری رہی ۔ رانچی کے ضلع اسکول سے انھوں نے میٹرک کا امتحان 1944 میں پاس کیا ۔ 1946 میں سنت زیویر کالج رانچی میں داخل ہوئے۔ اس دوران وہ اردو میں مضامین، افسانچے اور نظمیں لکھا کرتے تھے۔ جو مختلف اخبار ورسائل میں شائع ہوئے ۔

 1953 میں الجمعیۃ اردو اخبار میں سیاسی وسماجی مسائل کے عنوان سے عمدہ مضمون پر 100 روپے کے انعام سے نوازے گئے ۔ 1953 سے وہ سرکار کے منظور شدہ اخبار نویس کی حیثیت سے کام کرنے لگے ۔ رانچی سے نکلنے والے تقریباً کیٔ اخبار سے وقتاً فوقتاً جڑے رہے۔ دیوی پر ساد داس گپتا کے زیرنگرانی سنڈے پر یس“ اور ”ڈیلی پریس ، میں بھی خدمت انجام دیا۔ 1976 میں مولانا آزاد کی 18 ویں یوم
وفات پر ثمر الحق کی ادارت میں ہندی اردو اور انگریزی کا ایک مجلہ نکلا ۔ اس مجلہ میں مولانا آزاد کے رانچی قیام سے متعلق مستند تخلیقات کو یکجا کرنے کا کام کیا۔ ان کی اس خدمت کے لئے ”مولانا آزاد شتابدی سماروہ میں جس کا انعقاد خدا بخش لائبریری نے کیا تھا، ثمر الحق کو بہار کے موجودہ گورنر سے سند دیکر عزت افزائی کی۔ ثمر الحق کے اندر خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔

  مدرسہ عراقیہ عراقی گرلس اسکول ، انجمن اسلامیہ اسپتال ، آزاد کالج کے قیام میں ان کی فعال حصہ داری رہی ۔ سالوں تک انجمن اسلامیہ کے جوائنٹ سکریٹری کے عہدے پر فائز بھی رہے ۔ انجمن پلازہ مارکیٹ ان کے دور میں تعمیر ہوا ۔ ہندو مسلم ایکتا کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے ۔ 1947 کے دنگے میں اجڑے ہوئے لوگوں کو بسانے میں موجودہ سرکار سے لڑکر ان کا حق دلوایا ۔ مالی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے 1988 میں اخبار بند کرنا پڑا ۔ 1990 میں سید شہاب الدین کے مسلم انڈیا سے وابستہ ہوئے اور کئی سالوں تک اس سے جڑے رہے۔ “پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے
کا جگر “اور “برا نہ مانیں“ کے نام سے کالم رانچی ایکسپریس ” اور ” رانچی ٹائمنز میں چھپتا تھا ۔ آخری کے چند سال وہ بیمار رہے اور 16 ستمبر 2012 کو آخر کار اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ۔ رانچی میں انھوں نے اردو صحافت کو ایک پہچان دلائی۔
ثمر الحق ایک بے خوف اردو صحافی اور اردو کے ایک بے لوث خدمت گار کے طور پر ہمیشہ یادر کھے جائیں گے۔
معلوم ہوکہ انکے صاحبزادے جناب سیف الحق صاحب اس وقت جمعیت العراقین پنچایت کمیٹی کربلا چوک رانچی کے جنرل سیکرٹری ہیں۔

Leave a Response