All India NewsJamshedpur NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand News

حضرت مولاںا ازھر صاحب علیہ الرحمہ کی شخصیت اور ان کی خدمات (ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی)

Share the post

ھزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
علامہ اقبال کا یہ شعر مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی کے بانی و مہتمم حضرت مولانا ازھر صاحب علیہ الرحمہ پر صادق آتا ہے ، مولاںا ازھر صاحب کی شخصیت اور ان کی خدمات کا پورا نقشہ مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی کو ایک بار دیکھ لینے سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے اور بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مولانا ازھر صاحب نے کڈرو رانچی میں مدرسہ حسینیہ قائم کرکے جھاڑکھنڈ اور خصوصاً رانچی کے مسلمانوں کیلئے دینی تعلیم و تربیت کا ایک ایسا علمی چشمہ جاری کردیا ہے جس سے رانچی ہی نہیں بلکہ جھارکھنڈ ، بہار ، بنگال اور اڑیسہ کے بچے اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں ، مولانا ازھر صاحب رحمۃ اللہ علیہ بنیادی طور پر بہار کے ضلع مدھو بنی کے رہنے والے تھے ، آپ کی پیدائش غالباً 1917 میں کمتول بلاک کے گاؤں رہتوس ضلع مدھو بنی بہار میں ہوئی ، آپ کی ابتدائی تعلیم محمود العلوم دملہ مدھوبنی بہار میں ہوئی اور فراغت 1954 میں مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے ہوئی ، آپ کے ساتھیوں میں قاضی مجاھد الاسلام قاسمی ، مولانا عبد الرحیم بستوی ، شیخ عبد الحق شیخ الحدیث دارلعلوم دیوبند اور مولانا احمد علی قاسمی وغیرہ جیسے جید علماء کرام تھے ، دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد چار سالوں تک آپ شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہے ، آپ حضرت مدنی کے خاص شاگرد و خادم تھے ، آپ کو حضرتِ مدنی سے بڑی قربت حاصل تھی ، آپ ہر وقت ان کی خدمت میں رہتے تھے ، حضرت مولانا ازھر صاحب علیہ الرحمہ 1958 کو حضرت مولانا قاری فخر الدین علیہ الرحمہ کے توسط سے رانچی تشریف لائے ، ہوا یوں کہ مدرسہ قاسمیہ گیا کے بانی و مہتمم حضرت مولانا قاری فخر الدین علیہ الرحمہ کا اپنے مدرسہ کے سلسلے میں رانچی آنا جانا لگا رہتا تھا ، انھوں نے دیکھا کہ رانچی شہر میں ایک بھی نہ کوئی مکتب ہے اور نہ کوئی مدرسہ ہے تو انھوں نے دیوبند میں حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے رانچی کا ذکر کرتے ہوئے اور حضرت مولانا ازھر صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت آپ اپنے اس خادم کو مجھے دے دیجئے میں ان کے ذریعے رانچی میں ایک مدرسہ قائم کرنا چاہتا ہوں ، حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے اجازت دے دی اور آس طرح ایک ولی کامل کی اجازت اور ان کی منشاء کے مطابق مولانا ازھر صاحب مولاںا قاری فخرالدین علیہ الرحمہ کے ساتھ رانچی تشریف لے آئے ، گویا حضرت مولانا ازھر صاحب علیہ الرحمہ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی منشاء اور دعاء کے ساتھ رانچی تشریف لائے ، رانچی میں ایک مدرسہ قائم کرنے کے سلسلے میں سب سے پہلی نشست شہر کے دردمند حضرات کی راعین مسجد یند پیڑھی رانچی میں ہوئی جس میں قاری فخر الدین صاحب علیہ الرحمہ اور مولانا ازھر صاحب علیہ الرحمہ بھی موجود تھے ، اس طرح کڈرو رانچی میں مدرسہ کھولنے کا متفقہ فیصلہ شہر کے دردمند حضرات کی موجودگی میں ہوا ، سب سے پہلے ابتدائی مرحلے میں ایک مکتب کڈرو رانچی کے حاجی شہود الدیں کے مکان کے باہری حصے میں ایک بچہ سے مولانا ازھر صاحب نے شروع کیا، چونکہ رانچی میں اس مدرسہ کے قائم کرنے میں ایک ولی کامل حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی اجازت اور ان کی دعاء شامل تھی اس لئے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت جلد یہ دینی مکتب مدرسہ حسینیہ کی شکل میں تبدیل ہو گیا اور چند ہی برسوں کے بعد مدرسہ اپنی زمین پر چھپر کی عمارت میں بیرونی طلباء کے قیام و طعام کے ساتھ حضرت مولانا ازھر صاحب علیہ الرحمہ کی انتھک محنت و کوشش سے چلنے لگا تو پھر اس کے بانی و مہتمم حضرت مولانا ازھر صاحب نے کبھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا ، آپ کی نظر ہمیشہ آگے کی منزل کے حصول کی طرف رہی ، کون کیا کہہ رہا ہے اس پر آپ نے کبھی دھیان نہیں دیا بس ساری زندگی اپنی دھن میں مگن رہے ، مدرسہ حسینیہ کی زمین سات قسطوں میں خریدی گئی ، آخری قسط کڈرو عیدگاہ کے بغل کا وہ میداں ہے جو بہار کے دبنگ وزیراعلی جناب لالو پرساد یادو کے دور میں ایک روپیہ میں رجسٹری کراکر مدرسہ حسینیہ میں شامل کیا گیا جس میں مدرسہ حسینیہ کے بانی و مہتمم حضرت مولانا ازھر صاحب کی محنت و کاوش کے ساتھ شہر کے کئی سیاسی و سماجی شخصیات کی بھی بھی محنت و کوشش رہی ہے ، مدرسہ کی عمارت کے سنگ بنیاد کی پہلی اینٹ فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی علیہ الرحمہ اور دوسری اینٹ حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ العالی کے ہاتھوں رکھی گئی ، چند سالوں کے بعد مدرسہ حسینیہ کے صدر گیٹ کے بغل کے میں ” شیخ الاسلام منزل” کی عالیشان عمارت جس کی آخری منزل پر گنبد بنا ہوا ہے 1963 میں تعمیر کی گئی جس کی پہلی اینٹ فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی علیہ الرحمہ اور دوسری اینٹ حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ العالیٰ نے رکھی ، مدنی منزل کی اس عمارت میں دو کمرے فی سبیل اللہ ہارون عمر کچھی نے اپنی جانب سے بنوائے جس پر ان کے نام کا کتبہ کمرے کی دیوار پر آج بھی چسپاں ہے ، مدرسہ حسینیہ کے احاطہ میں ایک خوبصورت ” مدنی مسجد” بھی ہے جس کی تعمیر 1974 میں ہوئی ، مدنی مسجد کا سنگ بنیاد بھی فدائے ملت حضرت علامہ مولانا سید اسعد مدنی علیہ الرحمہ نے رکھا ، اس طرح مدرسہ حسینیہ کو ایک مکتب سے جھارکھنڈ کا سب سے بڑا اور معیاری مدرسہ حسینیہ بنانے میں حضرت مولانا ازھر صاحب کے سر اور داڑھی کے بال کالے سے سفید ہوگئے ، جس طرح ایک چھوٹا سا اور ننھا سا پودا جب ایک تناور اور پھل دار درخت بن جاتا ہے تو اس کے پیچھے تھکا دینے والی محنت و مشقت اور
مستقل دیکھ بھال کی دشوار گزار راہوں سے گزرنا پڑتا ہے تبھی میٹھے اور ذائقہ دار پھل دستیاب ہوتے ہیں ، ٹھیک اسی طرح مدرسہ حسینیہ کو یہاں تک پہنچانے میں حضرت مولانا ازھر صاحب کو جن دشوار گزار راہوں سے گزرنا پڑا اس کا اندازہ اسی کو ہوگا جو اس راہ سے گذرا ہو ، اس سلسلے کا ایک واقعہ جو ان کے لڑکے اور موجودہ مہتمم مولانا محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا ہے ، وہ بتاتے ہیں کہ والد محترم مدرسہ حسینیہ کے چندہ کے لئے اگھن( کھیتوں سے دھان کٹنے)کے موقعے پر گاؤں گاؤں عشرہ کی شکل میں دھان کی وصولیابی کے لئے نکلتے تھے تو کئی مرتبہ انھوں نے چاول اپنے رومال میں باندھ کر اور ندی میں بھگو کر اس کے پھولنے کے بعد اسے کھایا ہے اور بھوک کی شدت کو مٹایا ہے ،

مولانا ازھر صاحب ایک عالم باعمل اور صوفئ باصفا عالم دین تھے ، نماز با جماعت کے اہتمام کا عالم تو یہ تھا کہ اذان ہوتے ہی مدنی مسجد میں چلے جاتے اور ہمیشہ پہلی صف میں نماز ادا کرتے ، نماز کے بعد ذکر و اذکار میں لگ جاتے تھے ، وقت کی پابندی کا آپ بہت خیال رکھتے تھے ، اگر کوئی شخص دئے ہوئے وقت کے بعد آپ سے ملنے جاتا تو یہ کہہ کر اس ملنے سے انکار کردیتے کہ ” صاحب آپ وقت ختم ہو گیا ” آپ ایسا اس لئے کرتے تھے تاکہ وقت کی پابندی کا احساس پیدا ہو ، مدرسہ کے انتظام و انصرام اور اہتمام کی مصروفیات کے باوجود آپ نے پریشان حال لوگوں کی دعاء اور تعویذ کے لئے بغیر کوئی فیس اور آج کل کے کاروباری نقلی عاملوں کی طرح کوئی موٹی رقم وصول کئے بغیر ظہر نماز کے بعد کا وقت طئے کر رکھا تھا ، دعاء اور تعویذ کے لئے ہر آنے والے شخص کو آپ پابندی سے نماز پڑھنے ، داڑھی رکھنے ،حرام سے بجنے اور اسلامی وضع قطع اختیار کرنے کی تلقین ضرور کرتے تھے ، مولانا ازھر صاحب علیہ الرحمہ ایک ایسی شخصیت تھی جن کا ادب و احترام ہر طبقے کے لوگ کرتے تھے ، آپ کی زندگی شروع سے آخر تک سادگی کا نمونہ تھی ، مدرسہ حسینیہ کے ابتدائی زمانے میں آپ نے سائیکل پھر اس کے بعد رکشہ سے گھوم گھوم کر چندہ کیا ہے ، جب مدرسہ کی مالی حالت کچھ بہتر ہوئی تو آپ نے مدرسہ کے ہی مفاد میں ایک جیپ خرید لیا تھا جس کے ذریعے آپ مدرسہ کے مالی تعاون کی خاطر مختلف علاقوں کا دورہ کیا کرتے تھے ، مدرسہ حسینیہ کے موجودہ مہتمم مولانا محمد صاحب نے بتایا ہے کہ مدرسہ حسینیہ کے تمام اخراجات عوامی چندے سے پورے ہوتے ہیں ، یہ اصول حضرت مولانا ازھر صاحب علیہ الرحمہ کے وقت سے آج تک قائم ہے اور آئندہ ںھی مدرسہ اسی اصول پر قائم رہے گا ان شاءاللہ تعالٰی

مولانا محمد صاحب نے یہ بھی بتایا کہ مدرسہ حسینیہ کی ایک مجلس شوری ہوتی ہے جس کے گائیڈ لائن پر مدرسہ چلتا ہے ، ضابطہ کے مطابق مجلس شوری کا صدر یا سرپرست مدنی خاندان کا صاحب علم و عمل عالم دین ہی ہوگا جس پر اب تک عمل درآمد ہوتا آیا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا ان شاءاللہ تعالٰی ، مولانا محمد صاحب مہتمم مدرسہ حسینیہ نے بتایا کہ مولانا ازھر صاحب نے مدرسہ کا پیلا دستار بندی کا جلسہ 1961 میں کرایا تھا اس کے بعد عموما ہر تین چار سالوں کے بعد دستار بندی کا جلسہ ہوتا ہے ، انہوں نے بتایا کہ مولانا ازھر صاحب کے لگائے ہوئے اس علمی باغ سے اب تک 25 ہزار حفاظ کرام دستار فضیلت حاصل کرچکے ہیں ،عربی درجہ میں پڑھ کر دوسرے بڑے مدرسوں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء کی تعداد الگ ہے ، مولانا ازھر صاحب نے مدرسہ حسینیہ کو سینچنے میں اپنی پوری زندگی اس طرح لگادی کہ مدرسہ حسینیہ اور مولانا ازھر صاحب ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہوگئے تھے ،

آخر کار زندگی کا نوے سالہ طویل سفر طے کرنے کے بعد 14/ مئی 2017 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ، آپ کی ایک جھلک پانے اور نماز جنازہ میں شرکت کے لئے رانچی شہر و مضافات اور دوسرے ضلعوں سے عوام و خواص کا سیلاب امنڈ پڑا ، مدرسہ حسینیہ کے احاطے میں ہی آپ کی نماز جنازہ حضرت مولانا محمود مدنی صاحب نے پڑھائی اور آپ کو کڈرو قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا ، آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے اسام سے بذریعہ ہوائی جہاز جمیعۃ العلماء ہند آسام کے صدر مولانا بدر الدین اجمل صاحب بھی تشریف لائے تھے ، بعد میں آپ کی تعزیت کے لئے مولانا سید ارشد مدنی صدر جمیعۃ العلماء ہند ،مولانا سید اسجد مدنی اور مولانا سید حبیب مدنی وغیرہ جیسے علماء کرام تشریف لائے تھے ، اس کے علاوہ غیر مسلموں میں بندھو ترکی ،سبودھ کانت سہائے ، بابو لال مرانڈی ، اجئے ناتھ شاھدیو وغیرہ جیسے درجنوں سیاسی و سماجی رہنماؤں کی بھی شرکت رہی آپ کی وفات کے بعد مجلس شوری نے مولانا ازھر صاحب کی زندگی میں 1996 سے نائب مہتمم رہے ان کے لڑکے مولانا محمد صاحب کو مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی کا مہتمم بنا دیا جن کی نگرانی میں مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی کا 12/ فروری 2025 کو عظیم الشان جلسہ دستار بندی ہونے ہونے جارہا ہے جس میں تقریباً آٹھ سو حفاظ کرام کے سروں پر اکابر علماء دیوبند کے ہاتھوں دستار فضیلت باندھی جائے گی ان شاءاللہ تعالٰی ،

مولانا ازھر صاحب آج ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکں ان کے ذریعے قائم کیا گیا مدرسہ حسینیہ کڈرو ان کی خدمات کی عملی تصویر اور پھل دار درخت کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے ، جب بھی کوئی مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی کے احاطے میں داخل ہوگا تو اسے ہر طرف مولانا ازھر صاحب کی جیتی جاگتی عملی تصویر نظر آئے گی، مولاںا ازھر صاحب کے تین لڑکے مولانا احمد ، مولانا محمد اور مولانا اسجد ہیں اور پانچ لڑکیاں ہیں جو سب اپنی جگہ خوشحال اور صاحب اولاد ہیں ،اللہ تعالیٰ حضرت مولانا ازھر صاحب علیہ الرحمہ کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے آمین، ان کی اولادوں خصوصاً تینوں لڑکوں کو اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلتے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین ،

Leave a Response