انجمن فروغ اردو کے زیر اہتمام راشدانور راشد کو خراج عقیدت
رانچی :انجمن فروغ اردو (جھارکھنڈ)کی جانب سے21؍اپریل2024ء کو دو پہر2؍ بجے دن مسجد جعفریہ ، رانچی میں ڈاکٹر راشد انور راشد کے رحلت کے حوالے سے تعزیتی نشست کااہتمام کیا گیا جس میں شہر کے کئی اہم قلمکاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔راشد انور راشد گزشتہ دو سالوں سے ایک مرض میں مبتلا تھے اور ۷؍ اپریل ۲۰۲۴ء کی صبح انھوں نے ممبئی کے ٹاٹا کینسر ہاسپیٹل میں آخری سانس لی۔وہ ۲۷؍ مئی ۱۹۷۰ء کو رانچی میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام انوار الغنی تھا۔انھوں نے ۱۹۸۵ء، ۱۹۸۷ء،۱۹۹۰ء میں بالترتیب میٹرک،انٹر اور بی اے (اردو) کاامتخانات پاس کیا۔اس کے بعد اعلا تعلیم حاصل کرنے کے لیے دہلی چلے گئے اور جواہر لال نہرو یونی ورسٹی،نئی دہلی سے ایم اے،ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔زمانۂ طالب علمی سے ہی انھیں لکھنے پڑھنے کا شوق تھا اور اُن کے مضامین ملک کے معتبر رسائل میں شائع ہوتے رہے۔۱۹۹۹ء میں انھوں نے عارضی طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ایک سال کے بعد انھوں نے کریم سٹی کالج،جمشید پور میں ایک سال تدریس کی خدمات انجام دیں۔۲۰۰۳ء میں اُن کی مستقل تقرری علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی،علی گڑھ میں ہوئی۔ان کے ادبی فتوحات کا سلسلہ کافی طویل ہے۔ادب کے تعلق سے[۱۹۹۹ء]فنون لطیفہ[۲۰۰۰ء]نئے افسانے کا معنوی استعارہ[۲۰۰۱ء]شعور نقد [۲۰۰۱ء]پرورش لوح و قلم[۲۰۰۸ء]فکشن مکالمہ [۲۰۰۹ء]منتخب نظموں کا تجزیاتی مطالعہ [۲۰۱۰ء]اردو غزل:فن،اختصاص اور ارتقائی مراحل[۲۰۱۶ء]آثار لفظ[۲۰۱۶ء] اردو ڈراما [۲۰۱۷ء]طنزو مزاح:فن ،اختصاص اور ارتقائی مراحل[۲۰۲۱ء]اُن کی تنقیدی کتابیں ہیں۔ انھوں نے شاعری کے حوالے سے بھی اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔شام ہوتے ہی [۲۰۰۷ء]کہرے میں ابھرتی پرچھائیں[۲۰۱۲ء اور گیت سناتی ہے ہوا [۲۰۱۵ء] جیسی کتابوں سے انھوں نے اپنی پہچان بنائی ہے۔پروگرام کا آغازمحمد دانش ایاز کے تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اس کے بعد ڈاکٹر محمد غالب نشتر نے راشد انور راشد کا تفصیلی تعارف کرایا۔اس کے علاوہ راشد انور راشد کے رانچی کے بچپن کے دوستوں میں غیاث الدین اور محفوظ جاوید نے اسکولی دور کے یادوں کوشیئرکیا اور آبدیدہ ہو گئے ۔حضرت مولانا سید تہذیب الحسن رضوی نےان کی ادبی کارناموں کو یاد کیےاور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے لئے دعائے مغفرت کی۔
نشست میں ڈاکٹر محمد مکمل حسین نے اپنے خیالات کااظہار کیا اور اپنے بیان میں کہا کہ راشد انور راشد ایک اسکالر تھے ، ہیںاور رہیںگے ۔ اس کا اندازہ ان کی شعری اور نثری مجموعوں سے ہوتاہے۔ ڈاکٹر شگفتہ بانو نے راشد انور راشد کو یاد کرتے ہوئے ان کی مغفرت کی دعائیں کی ۔ طبیب احسن تابش نے بہت ہی تفصیلی سے گفتگو کا آغاز کیااور اپنے انداز میں خراج عقیدت پیش کیا۔ دلشاد نظمی نے اپنے انداز میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اُن کے کارہائے نمایاں کو اجاگر کیا اور اُن کے بارے میں تفصیل سے باتیں کی۔اس موقع پر پروگرام کی صدارت ڈاکٹر وکیل احمد رضوی سابق صدر شعبۂ اردو رام گڑھ کالج رام گڑھ نے اپنے اظہار خیال میں راشد انور راشد کے ادبی اور غیر ادبی کاموں کو ذکر کیا اور دعائے مغفرت کی ۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر عبد الباسط نے کیااور نظامت کے دوران انھوں نے راشد انور راشد کی نظم کے حوالے سے گفتگو کی اور اُن کی غزل پڑھ کر خراج عقیدت پیش کیا۔
چل دیا چھوڑ کے وادی کو کہا آب رواں
کیسے ڈھونڈھے گا کوئی ترا نشاں آبِ رواں
تیرے مخصوص ترانے کا اثر ہے شاید
گنگناتاہے کوئی نغمہ جاں ، آب رواں
سب کے چہروں پہ ابھرآئی ہے دہشت کی لکیر
بدلا بدلا نظر آتاہے سماں ، آب رواں
اس کے علاوہ انجمن فروغ اردو کے صدر ڈاکٹر محمداقبال نے نشست کے اختتام پر مہمانوں کا شکریہ اداکیا۔اس موقع پر شاذیہ پروین ،محمد امان ، مکرم حیات ، سرفراز عالم ،نشاط انجم، معصومہ پروین، انجم آرا،محمد عالم خان، محمد علیم خان، قاری محمد منصور عالم وغیرہ موجود تھے۔