شفقت کا ایک سایہ نہ رہا:از -آفتاب ندوی
میرے منجھلے بھائی عبد الجلیل صاحب (بیاسی /تراسی سال ) کا 31/مئی 2024 کو جمعہ کے وقت ایک بجے انتقال ہوگیا ، جاندار ہی کیا تمام مخلوقات کیلئے فنا مقدر ہے ، اس فانی دنیا کیلئے جو شخص جتنی سانسیں لیکر آتا ہے اتنی سانسیں پوری کرتا ھے اور اس دنیا کیلئے روانہ ہوجاتا ھے جو ہمیشہ رہنے والی ھے ، کچھ عرصہ پہلے یاد داشت متأثر ھونا شروع ھوئی یہانتککہ مکمل طور پر جاتی رہی ، لیکن جسمانی طور پر صحت مند تھے ، پھر دو ڈھائی ماہ سے جسم بھی بھی کمزور ہونا شروع ھوگیا ، گھر پر ایک دن بیڈ سے باتھ روم کی طرف جارہے تھے کہ چکر آگیا ، اگرچہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی بچوں نے تھام لیا ، پر کمر کے نیچے جوڑ کے پاس پیر کی ہڈی فریکچر ھوگئ ، علاج ومعالجہ کے باوجود کمزوری بڑھتی گئ ، ہاسپٹل میں بھرتی کئے گئے ، آئی سی یو میں رکھ کر ڈاکٹر اپنی سی کوششیں کرتے رہے ، لیکن تدبیر پر اللہ کا فیصلہ غالب آیا اور جمعہ کے وقت روح پرواز کر گئ ، اللہ مرحوم کو انکی نیکیوں کو قبول اور خطاؤں سے درگزر کرتے ھوئے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء کرے ، ھم دس بھائی بہنوں میں وہ دوسرے نمبر پر تھے ،اور راقم سب سے چھوٹا ھے ، سب سے بڑے الحاج منیر الدین صاحب ہیں جو گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر تھے ، 2000 میں ریٹائر ھوئے ،اللہ صحت وتندرستی کے ساتھ انکی عمر میں برکت دے ،تیسرے نمبر پر ماسٹر نصیر الدین صاحب تھے ، یہ بھی سرکاری ٹیچر تھے , ریٹائرمنٹ سے قبل 2004 میں انہوں نے دنیائے فانی کو الوداع کہا ، پانچ بہنوں میں سے بڑی اور چھوٹی بہن بھی دنیا سے جاچکی ہیں ،، اللہ سب کے ساتھ عفو ودرگز اور رحم وکرم کا معاملہ کرے ، والد صاحب رح ریلوے میں ملازم تھے ،اسلئے زیادہ وقت انکا گھر سے باہر ہی گزرتا تھا ، بھائیوں کی مددسے والدہ مرحومہ ہی گھر کی ساری ذمہ داریاں نبھاتی تھیں ، جبتک سب لوگ ساتھ رھے بڑے بھائی صاحب کی بھی تنخواہ امی ہی کے پاس جمع ہوتی تھی ، میرے خاندان ، رشتہ داروں ،گاؤں بلکہ آس پاس کے علاقہ میں تعلیمی پسماندگی چھائی ھوئی ہوئی تھی ، عصری تعلیم بھی گنے چنے گھرانوں ہی میں تھی ، اور دینی تعلیم تو بالکل نہیں تھی ، میرے چاروں بھائیوں نے اسکول اور کالج میں تعلیم حاصل کی ، اسی بنیاد پر بڑے اور سنجھلے بھائی سرکاری اسکول میں ٹیچر ہوئے جبکہ منجھلے اور بھائی بہنوں میں نویں نمبر کے بھائی محمد نظام الدین سینٹرل گورنمنٹ کے سیل اور بھارت کول لمیٹیڈ میں ملازم ھوئے ، بھائیوں کو بہت فکر تھی کہ گھر میں کوئی حافظ بنے ، گاؤں کی مسجد کے امام صاحب سے ناظرہ پڑھنے کے بعد جب میں نے حفظ شروع کیا تو بھائیوں نے میرا داخلہ خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹنہ میں کرادیا ،میرے یہ منجھلے بھائی بطور خاص میری تعلیم کیلیے شروع سے بہت فکر مند و کوشاں رہے ،میں خاندان اور قرب وجوار میں پہلا بچہ تھا جس نے حافظ بننے کیلیے گھر چھوڑا تھا ، میرے عالم بننے کیلىے اس وقت کسی نے شائد سوچا بھی نہیں تھا ، اسوقت حافظ بن جانا ہی بڑی بات تھی ، 1977میں میں نے خانقاہ مجیبیہ میں حفظ مکمل کیا ، اور حسب روایت مجیبیہ کے بزرگوں شاہ امان اللہ قادری ، شاہ عون احمد قادری ، شاہ نظام الدین قادری ، شاہ عمادالدین قادری اور استاد حافظ نذیر حیدر امانی رحمہم اللہ کے ہاتھوں میری دستار بندی ھوئی، خاندان تمام رشتہ داروں ، گاؤں بلکہ قرب وجوار کیلئے بھی یہ ایک قابل فخر واقعہ تھا ، اس مبارک تقریب میں شرکت اور دستاربندی کے منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کیلئے میرے یہ بھائی پھلواری آئے اوراستاد حافظ نذیر حیدر صاحب کو بہ اصرار ایک دکان میں لیکر گئے اور کہا آپ بتائیے کہ کونسا کپڑا آپکو پسند ہے ، پھر گھر پر میلاد کا پروگرام منعقد کیا جس میں تقریر کیلیے حافظ خبیر صاحب مرحوم بلائے گئے ،انہوں نے قرآن ، حفظ قرآن ، حافظ اور اسکے والدین کے فضائل ومناقب بہت خوبصورت انداز میں بیان کئے ،
جب سے ھم نے ہوش کی آنکھیں کھولیں بھائی صاحب کو نماز کا پابند اورمشرع پایا ، اورہمیشہ انکے ھاتھ میں کوئی نہ کوئی کتاب دیکھی ، جمعہ میں اکثر تقریر بھی یہی کرتے تھے ،مطالعہ چونکہ وسیع تھا اسلیے دیر تک بولنے میں انہیں کوئی دقت نہیں ہوتی تھی ، پہلے غیر مستند کتابوں کا بھی کافی مطالعہ کیا تھا اسلئے گفتگو اور تقریر میں کبھی کبھی اسکا بھی اثر ظاہر ہوتا تھا ، لیکن تقریر مؤثر ھوتی تھی ، ایک زمانے میں عملی سیاست سے بھی کافی دلچسپی رہی ، جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم ) کے شیبو سورین ( ہیمنت سورین کے والد ) کے ساتھ جھارکھنڈ تحریک میں سرگرمی سے حصہ لیا ، شیبو سورین انکا احترام کرتے تھے ، لیکن نیتاؤں کی بے ایمانی ، جھوٹ ، نفاق ، آپسی رسہ کشی اور اپنے مفاد کیلیے کچھ بھی کرنے کو درست سمجھنے کے رویہ سے بد دل ہوکر سیاست سے ایسے الگ ہوئے کہ ادھر پھر کبھی مڑکر نہیں دیکھا ، ہم نے ایک دو مرتبہ کوشش بھی کی کہ پھر سیاست میں لوٹیں لیکن تیار نہیں ھوئے ، نماز کے بڑے پابند تھے ، اسی طرح مطالعہ کا شوق بھی اخیر تک بر قرار رہا، مطالعہ کے بعد اہل علم سے مذاکرہ بھی کرتے تھے ، ذاتی مطالعہ سے ھومیو پیتھک میں اتنی مہارت حاصل کرلی تھی کہ لوگوں کا بہت سالوں تک مفت علاج کیا ،دوا کا بھی کبھی کسی سے پیسہ نہیں لیا ، محنت اور جفاکشی انکی فطرت تھی ، جب گھر میں کھیتی ھوتی تھی تو انہی کی محنت کے نتیجہ میں ہوتی تھی ، اور اس وقت وہ فری بھی تھے ، بھارت کوکنگ کول لمیٹڈ جوائن نہیں کیا تھا ، ملازمت کے بعد گھر کی وہ کھیتی ختم ھوگئ جو سال بھر پورے گھر کے لئے کافی ہوتی تھی ، بھائی صاحب بچوں کی تعلیم و تربیت کوھر چیز پر مقدم رکھتے تھے ، 88/87 میں جب میں ندوہ العلماء لکھنؤ میں فضیلت کا طالب علم تھا اپنی چھوٹی بیٹی کو لے کر لکھنؤ پہنچ گئے کہ اسکو عالمہ بنانا ھے ، مجھے یاد پڑتا ہیکہ آنے سے پہلے نہ مجھ سے مشورہ کیا نہ بتایا کہ انجم کو لیکر آرہے ہیں ، پہنچکر کہنے لگے کسی مدرسہ میں اسکا داخلہ کرانا ہے ، اس وقت تک لکھنؤ چڑیا گھر کے مین گیٹ سے متصل بائیں طرف لڑکیوں کا ایک اکلوتا چھوٹا سا ادارہ تھا ، وہ آج بھی ہوگا ، ندوہ کی شوری کے رکن حاجی مستنصر اللہ نے اسے قائم کیا تھا ، اسی میں اس بیٹی کا داخلہ کروایا گیا ، اسکے بعد جب ڈاکٹر اشتیاق صاحب مرحوم نے اکبری کیٹ میں اپنے ایک مکان میں نورا الاسلام نسوان کے نام سے لڑکیوں کا رہائشی مدرسہ شروع کیا تو اسکا داخلہ وہاں کروادیا گیا ، پھر جب مہبت مؤ میں اسکیلئے بلڈنگ بن گئ تو مدرسہ وہاں منتقل ہوگیا اور بیٹی انجم نے عالمہ کا نصاب مکمل کرکے سند فراغت حاصل کی ، پورے علاقہ میں یہ پہلی عالمہ تھی ، اللہ نے انہیں پانچ بیٹیوں ، تین بیٹوں شکیل اختر ، جمیل اختر، مبین اختر ، اور ڈھیر سارے پوتوں اور نواسوں سے نوازا ، ان میں عصری تعلیم کے علاوہ کئ حافظ اور عالم بنے ، منجھلے صاحبزادہ مفتی جمیل اخترجلیلی ندوی ایک ذی استعداد صاحب قلم ممتاز عالم دین ہیں ،انکے قلم سے مختلف موضوعات پر کئ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ، ملک و بیرون ملک کے اہل علم نے ان کتابوں کو دادو تحسین سے نوازا ، اہلیہ مرحومہ ڈیڑھ سال پہلے اس دنیا سے رخصت ھوگئیں ، راقم سفر میں وطنسے بہت دور ہے ، افسوس کاندھا بھی نہیں دے سکتا ، حرماں نصیبی کہ مٹی بھی نہیں ڈال سکتا ، خداوندا!تیرا بندہ تیرے حضور حاضر ہے ، تیری رحمت بڑی وسیع ہے ، تو تو بخشش کیلئے بہانہ ڈھونڈھتا ہے ، خداوندا! اسکی نیکیوں کو شرف قبولیت عطا ء کر ،اور خطاؤں سے درگزر فر ما کر اسکی قبرکو جنت کی کیاری میں بدل دے اورآخری ٹھکانہ جنت الفردوس کو بنادے ، بچوں اور متعلقین کو صبر جمیل نصیب فرما ، آمین – غم نصیب آفتاب ندوی دھنباد جھارکھنڈ
موبائل 8002300339
(کل یکم جون بروز سنیچر صبح دس بجے گاؤں کے قبرستان میں تدفین ہوگی ،)