All India NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand NewsRanchi News

رانچی کے راتو روڈ قبرستان کو وقف کرنے والی طوائف اور چہار دیواری دلوانے والے مستان بابا کی کہانی، (ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی)

Share the post

رانچی شہر کے مختلف علاقوں میں کئی قبرستان ہیں ان میں سب سے قدیم قبرستان راتو روڈ قبرستان ہے ، جس کی تاریخ بڑی عجیب و غریب اور بہت دلچسپ ہے ، عام طور پر مسجد ، مدرسہ ، خانقاہ اور دوسرے دینی اداروں کے لئے زمین قیمتاً خریدی جاتی ہے یا اللہ کا کوئی نیک اور صاحب حیثیت بندہ زمین کا کچھ حصہ یا پوری زمین وقف کردیتا ہے ، یہ توفیق انھیں کو ملتی ہے جن کے اوپر اللہ کا فضل و کرم اور احسان ہوتا ہے ورنہ رانچی اور دوسرے شہروں میں بھی بہت سارے لوگ ایسے گزرے ہیں اور آج بھی ہیں جن کے پاس بے انتہا مال و دولت اور زمین و جائیداد ہے لیکن ایک چھوٹا سا دینی یا فلاحی ادارہ کھولنے یا اس کے لئے کٹھہ دو کٹھہ زمین وقف کرنے کی توفیق نہیں ہوئی تاکہ ان کے مرنے کے بعد ان کے لئے ثواب جاریہ کے طور پر باقی رہ سکے ، توفیق الٰہی بہت بڑی دولت ہے ، جس کو مل جائے سمجھئے اللہ کا احسان اور اس کا فضل و کرم ہے اس اس کے اوپر ، اور جو توفیق الٰہی سے محروم ہوگیا تو بلا تبصرہ ایسے نامراد اور بخیل شخص کو سجھنا بہت آسان ہے ، کیاجاتا ہے کہ مغلیہ سلطنت کے بانی اور
مغل خاندان کے پہلے بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر سے لے کر آخری مغل بادشاہ بادشاہ بہادر شاہ ظفر تک کسی نے فریضہ حج ادا نہیں کیا تھا ، سلطنت کے امور میں الجھے رہنے کی وجہ کر فریضئہ حج ادا کرنے کا موقع نہیں ملا ؟ یا توفیق الٰہی نہیں ملی؟ واللہ اعلم باالصواب ، اللہ اپنی طاقت و قدرت ، فضل و کرم اور اپنی منشاء کا عملی مظاہرہ ہر دور میں کراتا رہتا ہے ، جب مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوا تو دھیرے دھیرے دیسی راجاؤں نے اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا اور دہلی سلطنت کی مرکزیت سے باہر نکل گئے اور ایک وقت ایسا آیا کہ پورے ہندوستان میں چھوٹے بڑے دیسی راجاؤں کی الگ الگ حکومت اور سلطنت قائم ہوگئی ، چھوٹے رقبہ اور علاقہ والی چھوٹی سلطنت و حکومت کا مالک راجہ اور بڑے رقبہ و بڑے علاقے والی سلطنت و حکومت کا مالک مہاراجہ کہلاتا تھا ، ہمارے جھارکھنڈ کے رانچی ، لوہردگا ، گملا ، کھونٹی اور سمڈیگا کے بڑے علاقے پر سلطنت و حکومت کرنے والا ہر دور کا حکمراں” راتو مہاراجہ” کہلاتا تھا ، ان راجہ مہاراجاؤں کی زندگیاں بڑے عیش و عشرت کے ساتھ گزرتی تھیں ، یہ کئی چیزوں اور کئی عادتوں کے شوقین ہوا کرتے تھے انھیں میں ایک بڑا شوق داسیاں( رکھیل ) رکھنے کا ہوا کرتا تھا، بعض داسیاں اپنے حسن و جمال اور ذاتی کمال کی بنیاد پر راجاؤں کے اوپر بیویوں سے زیادہ اثر و رسوخ رکھتی تھیں اور راجاؤں نے بھی انھیں خصوصی درجہ اور مقام دے دکھا تھا ، ان کے نام یہ دیسی راجہ و مہاراجہ بڑی بڑی جاگیریں اور زمین و جائیداد ان کے نام لکھ دیتے تھے ، جس سے ان کی بقیہ زندگی کا گزر بسر راجاؤں کے انھیں عطیات سے ہوا کرتا تھا ، دوسرے راجاؤں کی طرح راتو مہاراجہ کی بھی کئی داسیاں تھیں جس میں سب سے مشہور لکھنؤ سے آئی یا لائی گئی ایک بہت ہی خوبصورت اور خوش آواز داسی تھی ، ناچنے گانے کے پیشہ اور لکھنؤ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ ” لکھی پتوریا ” کے نام سے جانی جانے لگی اور بعد میں وہ اسی نام سے مشہور ہوگئی ، کسی زمانے میں ناچنے گانے کے پیشہ کو ” پتوریا ” کہا جاتا تھا ، اسی ناچنے گانے کے پیشہ کی نسبت سے ایسے لوگوں کو “پتوریا برادری” کہا جاتا تھا ، جو بعد میں ہمارے معاشرے میں بری عورتوں کے لئے ایک گالی کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ، راتو مہاراجہ کی یہ داسی ” لکھی پتوریا ” اپنی خوبصورت و دلسوز آواز اور اپنے نغموں کے ذریعے مہا راجہ کی تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ تھی کیونکہ پرانے زمانے میں سیر و تفریح کے یہی ذرائع تھے ، عام آدمی ناچ اور گانا سننے کے لئے طوائف کے کوٹھوں پر جاتے تھے جبکہ راجہ مہاراجہ اور امراء و رؤسا کے گھروں میں مختلف تقریبات کے موقع پر ناچنے گانے والیاں بلائی جاتی تھیں ، اس پورے پس منظر کو اچھی طرح وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنھوں نے مرزا ھادی رسوا کے ناول ” امراؤ جان ادا ” کا مطالعہ کیا ہوگا یا اس پر بنی فلم ” امراؤ جان ادا ” دیکھا ہوگا ، بہر حال لکھنؤ کی ناچنے گانے والی اور لکھنؤ سے تعلق رکھنے والی ” لکھی پتوریا ” راتو مہاراجہ کو بہت محبوب تھی ، راتو مہاراجہ نے موجود راتو روڈ پر واقع زمیں کا ایک بڑا رقبہ اس کے نام کردیا جہاں آج راتو روڈ قبرستان ہے ، توفیق الٰہی دیکھئے کہ ” لکھی پتوریا ” جسے لوگ ناچنے گانے کے پیشہ سے تعلق رکھنے کی وجہ کر ” لکھی طوائف” کہتے تھے ، اس نے مرنے سے پہلے راتو روڈ کی وہ پوری زمین قبرستان کے لئے وقف کردیا جہاں آج راتو روڈ قبرستان ہے ، اس نے یہ وصیت بھی کی میرے مرنے کے بعد مجھے اسی راتو روڈ قبرستان میں دفن کیا جائے جو میں نے قبرستان کے لئے وقف کیا ہے ، اس کی وصیت کے مطابق ” لکھی پتوریا/ طوائف کو راتو روڈ قبرستان میں سب سے پہلے سپرد خاک کیا گیا اور راتو روڈ قبرستان میں دفن ہونے والی پہلی قبر اسی لکھی طوائف کی ہے ، مرور زمانہ کے بعد آج بھی راتو روڈ والی سڑک کی جانب راتو روڈ قبرستان میں اس کی قبر موجود ہے ، کہنے کو تو ایک گانے بجانے کے پیشہ سے منسلک ایک طوائف تھی لیکن اس کے دل میں نہ جانے کیا داعیہ پیدا ہوا ہوگا کہ اس نے اپنی وفات سے پہلے اپنی پوری زمین قبرستان کے لئے وقف کردی ، اس کے اس عمل سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے گانے بجانے کے پیشہ کو غلط سمجھتی تھی اور مرنے کے بعد قبر سے لے کر حشر تک کے برے انجام کا ڈر اور خوف اسے ستاتا ہوگا اس لئے ہوسکتا ہے کہ اس نے اپنے گانے بجانے کے عمل سے سچی پکی توبہ کرنے کے بعد اپنی آخرت کی بہتری کیلئے راتو روڈ کی اپنی زمین قبرستان کے لئے وقف کردی ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے کہ جس نے موت کے غرغرہ سے پہلے توبہ کر لیا تو یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اسے معاف کردیتا ہے ، رانچی کے موجودہ راتو روڈ قبرستان کی زمین کا بہت بڑا رقبہ اسی ” لکھی پتوریا / طوائف ” کا وقف کیا ہوا ہے ، بقیہ زمین بعد میں انجمن اسلامیہ رانچی نے خریدا ہے ، کسی زمانے میں انجمن اسلامیہ رانچی کی جانب سے” لکھی پتوریا/ طوائف ” اس جذبہ کے احترام میں اس کی قبر پر ایصال ثواب اور دعاء مغفرت کا اہتمام کیا جاتا تھا ، معلوم نہیں وہ سلسلہ اب تک جاری ہے یا بند ہو گیا ، اگر بند کر دیا گیا تو کیوں اور کب ؟ یہ ایک الگ سوال ہے ،
انجمن اسلامیہ رانچی کے ذمداروں کو چاہئے کہ جس خاتون نے راتو روڈ قبرستان کے لئے اتنی بڑی اپنی زمین وقف کردی اس کی قبر کو مرمت کرکے علامت اور نشانی طور پر باقی رکھنا چاہئے اور اس کی قبر پر ایک کتبہ لکھوایا دینا چاہئے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اس قبرستانوں کی زمین کو وقف کرنی والی ایک ایسی عورت تھی جس کو ناچنے گانے کے پیشہ سے منسلک ہونے کی وجہ سے لوگ برا سمجھتے تھے لیکن اپنے مرنے سے پہلے اتنی بڑی زمین کو قبرستان کے لئے وقف کر کے اس نے ایک تاریخ رقم کی ہے جسے یادگار کے طور پر باقی رہنا چاہئے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو بعد میں کوئی بے ایمان یہ کہہ دے کہ اس زمین کو میرے دادا پردادا نے وقف کیا تھا ، دوسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اللہ بہت سارے برے لوگوں کو توبہ کی توفیق دے کر ان سے خیر اور بھلائی کا کوئی ایسا کام کرادیتے ہیں جو ان کی مغفرت اور ثواب جاریہ کا ذریعہ بن جاتا ہے ، اسی طرح راتو روڈ قبرستان کی چہار دیواری ایسی نہیں تھی جس سے قبرستان کی چور اچکوں ، شرابیوں ، جواڑیوں ، ناپاک جانوروں اور سڑک پر بہنے والے گندے پانی سے حفاظت ہوسکے ، اس وقت کوئی” مستان بابا” کہیں سے آگئے اور راتو روڈ قبرستان میں ڈیرہ ڈال کر بیٹھ گئے ، اس ” مستان بابا” نے قبرستان کی چہار دیواری کا بیڑہ اٹھایا اور جب تک راتو روڈ قبرستان کی اونچی اور پختہ چہار دیواری مکل نہیں ہوئی وہ بہٹھے رہے اور جب چہار دیواری مکمل ہوگئی تو وہاں سے اثھ کر کہاں چلے گئے ، کسی کو معلوم نہیں ، مستان بابا کہاں سے آئے تھے اور کہاں چلے گئے اور کہاں رہتے تھے آج تک کسی کو معلوم نہیں ہو سکا ، یہ سب توفیق الٰہی کا کرشمہ ہے کہ اللہ جس سے چاہے دین کا کام لے لے اور خیر و بھلائی کے اس کام کو اس کی نجات کا ذریعہ بنادے ، شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے صحیح کہا ہےکہ
“رحمت حق بہانہ می جوید”
اللہ تعالیٰ بخشنے کے بہانے تلاش کرتے ہیں ،

Leave a Response