Balumath News

آنکھ حیران ھے کیا شخص زمانے سے اٹھا

Share the post

 

آنکھ حیران ھے کیا شخص زمانے سے اٹھا
مولانا عبدالواجد رحمانی چترویدی
جنرل سیکرٹری جمعیۃ علماء لاتیہار
امت مسلمہ میں قیادت کا مسئلہ زیر بحث ھے قائدین کی کمی کا رونا ہم ہر روز روتے رہتے ہیں ایسےمیں یہ خبر امت مسلمہ کے وجود کو ہلا دینے والی ھے کہ امت مسلمہ کا متفقہ قائد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر محترم اور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنوکے ناظم اعلیٰ سینکڑوں مدارس ومکاتب اور تعلیمی اداروں کے سرپرست ولی کامل یادگار اسلاف مرشدالامت حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی جنھیں رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہوۓ قلم لرز رہا ھے  مگر فیصلہ خداوندی ھے کہ  
آج مرشدالامت کا انتقال ہو گیا انا للہ وانا الیہ راجعون 
مولانا رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا وجود مسعودامت مسلمہ کیلیے نعمت غیر مترقبہ سےکم نہیں تھا حضرت مولانا علی میاں ندوی علیہ الرحمہ  کے بعد حضرت مولانا نے امت مسلمہ کو سنبھالا دیا اور ہر محاذپر  امت کے کامیاب قائد کا فریضہ انجام دیا ھے 
آپکی شخصیت میں جمالیات کا عنصر غالب تھا آپکو دیکھ کر یقینا خدا یاد آتا تھا آپکی ذات عالی صفات میں شخص نہیں شخصیت جلوہ فرما تھی آپ فرد نہیں انجمن تھے آپ کی ذات سے علم وعمل کا وہ دریارواں تھا جس سے تشنگان علم وعمل سیراب ہورہے تھے اس وقت جب کہ ہر طرف سے امت مسلمہ مایوس اور پس مردہ  ہورہی ھے آپ کاوجود مسعود عالم اسلام کیلے حوصلہ افزا تھا 
ابھی چند سال قبل عزم وجرأت کے پیکر مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمہ اللہ علیہ سابق جنرل سیکرٹری آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈکی اچانک سانحہ وفات سے امت مسلمہ ہندیہ سکتے میں آگئ تھی مگر حضرت مرشد الامت کی موجودگی نے انھیں ڈھارس بندھائ تھی مگر آج وہ سہارا بھی چھن گیا رحمۃاللہ رحمۃ واسعہ
ھمارا ایمان یہی ھے کہ دنیا میں جو آیا ھے اسے دنیا سے ایک نہ ایک دن ضرور جانا ھے موت اپنے وقت پر آتی ھے دنیا میں رہنے والا وہ کسی درجے کا انسان یا مخلوق ہو اسے موت کا مزہ چکھنا ھے مگر ظاہری سہاروں کے چھننے پر انسان کو فطری غم ہوتا ھے جو تقدیر کے منافی نہیں آج ہم سب اسی غم سے دوچار ہوۓ ہیں
رب کارسازامت مسلمہ کو صبر جمیل کی توفیق عطا کرے  مولانا کی بال بال مغفرت فرمائے حسنات کو قبول فرماۓ امت کو نعم البدل نصیب فرما ۓ
آمین یا رب العالمین
 ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ھے کیا شخص زمانے سے اٹھا

Leave a Response