All India NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand NewsRanchi News

عبد الرزاق انصاری اور ان کے بیٹوں کی سماجی خدمات (ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی 7004951343)

Share the post

عام طور پر ہم مسلمان کسی بھی شخص کی تعلیمی ،سیاسی ،سماجی اور مذہبی خدمات کا اعتراف اس کی زندگی میں نہیں بلکہ ان کے مرنے کے بعد کرتے ہیں جبکہ وہ سننے کے لئے اس دنیا میں موجود نہیں ہوتے اور اگر کوئی اس کا اعتراف تقریری یا تحریری شکل میں کردے تو ہم اسے حاشیہ بردار اور چاپلوس تصور کرتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ میری اس تحریر کے ساتھ بھی کچھ متعصب اور حاسد قسم کے لوگوں کا یہی تصور ہو، بہر حال رانچی کا مشہور و معروف قصبہ اربا رانچی سے تقریبآ پندرہ بیس کیلو میٹر کی دوری پر واقع ہے جس کے تعارف کے لئے کسی تمہید کی ضرورت نہیں ہے ، کوئی علاقہ قدرتی مناظر اور اپنی حسین وادیوں کی وجہ سے مشہور و معروف ہوتا ہے تو کوئی علاقہ کسی تاریخی عمارت یا سیر و تفریح کے لوازمات کی وجہ سے مشہور و معروف ہوتا ہے لیکن اربا مذکورہ بالا وجوہات میں سے کسی بھی وجہ سے مشہور و معروف نہیں ہے بلکہ اربا کی شہرت و مقبولیت جھارکھنڈ کے مشہور و معروف مجاھد آزادی اور بنکروں کے سیاسی و سماجی رہنما اور مسیحا حاجی عبد الرزاق انصاری مرحوم کی سیاسی و سماجی خدمات اور اربا پھیلے ہوئے مختلف عصری و مذہبی تعلیمی اور تکنیکی اداروں اور معیاری ہاسپیٹل کی وجہ سے ہے، جس کے بنیاد کی پہلی اینٹ حاجی عبد الرزاق انصاری مرحوم کو قرار دیا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا ،جناب حاجی عبد الرزاق انصاری مرحوم کی سیاسی سماجی خدمات کو آگے بڑھانے اور اس کو وسعت دینے میں ان کے بیٹوں جناب منظور احمد انصاری ، سعید احمد انصاری اور انوار احمد انصاری نے اہم کردار ادا کیا ہے اور ہنوز کر رہے ہیں، حاجی عبد الرزاق انصاری مرحوم صاحب کے بیٹے اپنے والد کی سیاسی و سماجی خدمات کی وراثت کو بہت ہی بہتر طریقے سے اب تک نبھاتے چلے آ رہے ہیں، کسی بھی سماج کی سب سے بڑی ضرورت ہوتی ہے تعلیم اور صحت ، ہمارے سیاسی اور سماجی رہنما اکثر و بیشتر اپنی تقریروں میں قوم و ملت کو تعلیم اور صحت کے میدان میں اگے آنے کی ترغیب و تلقین کرتے رہتے ہیں لیکں عملی میدان میں وہ زیرو نظر آتے ہیں ،پورے جھارکھنڈ کو چھوڑ دیجئے صرف جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں آپ کو کوئی سیاسی رہنما نہیں ملے گا جس نے تعلیم اور صحت کے میدان میں عوامی چندہ کے بغیر مختلف اداروں کا جال بچھا دیا ہو اور اسے بحسن وخوبی چلا رہا ہو اور اس سے بہار جھاڑکھنڈ کے لوگ مستفید ہو رہے ہوں، آج اربا الحمداللہ عصری علوم اور تکنیکی اداروں کا مرکز بن گیا ہے ،جناب حاجی عبد الرزاق انصاری مرحوم نے سیاست میں رہتے ہوئے اربا میں اپنی زندگی میں ہی اربا مڈل اسکول قائم کیا جو آج بھی قائم ہے اور پہلے سے بہتر طریقے پر قائم ہے،جہان سے علم کا چراغ روشن ہوا تو کئی اور چراغ روشن ہوتے چلے گئے ،اپنے والد کی اس تعلیمی وراثت کو ان کے بڑے لڑکے جناب منظور احمد انصاری نے قائم اور باقی ہی نہیں رکھا بلکہ اس کو اگے بڑھانے میں اپنی پوری زندگی لگادی، اربا میں مڈل اسکول کے ساتھ کئی عصری تعلیمی ادارے قائم کئے ، ٹیچر ٹریننگ کالج قائم کر کے روزگار کے مواقع فراہم کرائے اور یہ سب عوامی چندے اور کسی کے مالی تعاون سے نہیں بلکہ اپنی محنت ،لگن اور کوشش سے قائم کیا جس سے آج سماج کا ہر طبقہ فائدہ اٹھا رہا ہے ،حاجی عبد الرزاق انصاری مرحوم کا خواب تھا کہ اربا میں ایک معیاری ہاسپیٹل قائم کیا جائے ،والد کے اس خواب کو ان کے بیٹوں خاص کر منظور احمد انصاری اور سعید احمد انصاری نے اربا میں پہلی بار اپولو ہاسپیٹل قائم کر کے پورا کردیا جو آج بھی میدانتا ہاسپیٹل کی شکل میں بہتر خدمات انجام دے رہا ہے اس کے علاوہ اربا سے متصل اوینا میں الگ سے ایک دوسرا ہاسپیٹل جناب منظور احمد انصاری صاحب نے قائم کیا ، بعد میں رانچی میں جو بڑے بڑے ہاسپیٹل قائم ہوئے وہ اربا کے اپولو ہاسپیٹل کی تقلید میں قائم ہوئے، بیماریوں میں سب سے بڑی اور خطرناک بیماری کینسر کے مریضوں کے علاج کے لئے اربا میں ہی جناب سعید احمد انصاری صاحب نے اپنے والد عبد الرزاق انصاری مرحوم کے نام سے کینسر کا ایک معیاری پرائیویٹ ہوسپیٹل قائم کرکے ایک مثال قائم کردیا جو بہت ہی بہتر طریقے سے چل رہا ہے جہاں دور دور سے لوگ علاج کے لئے آ رہے ہیں اور مستفید ہو رہے ہیں ، جناب سعید احمد انصاری صاحب نے بھی کینسر کا یہ ہاسپیٹل عوامی چندے یا کسی کے مالی تعاون سے قائم نہیں کیا ہے بلکہ اپنی محنت ،لگن اور کوشش سے قائم کیا ہے ،رانچی میں اللہ نے کئی لوگوں کو دولت اور حیثیت سے نوازا ہے اگر وہ چاہتے تو مسلمانوں کو کئی معیاری اسکول ، کالج ،ٹریننگ کالج ،نرسنگ کالج اور ہاسپیٹل دے سکتے تھے ،ان اداروں کی آمدنی سے ان کا بھی فائدہ ہوتا اور قوم و ملت کا بھی فائدہ ہوتا اور ان سے انہیں عوامی شہرت و مقبولیت بھی حاصل ہوتی مگر کہتے ہیں نا کہ مال و دولت اور حیثیت تو اللہ بہتوں کو دیتے ہیں مگر توفیق الٰہی جس کو مل گئ وہی خوش نصیب ہے ,اسی طرح کانگریس کے نوجوان لیڈر جناب انوار احمد انصاری بھی اپنے دونوں بھائیوں سے سیاسی و سماجی خدمت میں پیچھے نہیں ہیں ،انہوں نے بنکروں کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے ہی ریجنل ہینڈلوم کا چیئرمین بننا منظور کیا اور ریجنل ہینڈلوم کو ترقی دینے اور آگے بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں ، سیاست میں رہتے ہوئے ان کی بھی سیاسی و سماجی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ،ابھی حال میں جب وقف ترمیمی بل کے خلاف پورے ملک میں مسلمانوں نے احتجاج کیا تو رانچی کے اربا میں پہلی بار ایک عظیم الشان احتجاجی کانفرنس جناب انوار احمد انصاری صاحب نے عوامی چندے کے بغیر اپنی محنت، لگن اور کوشش سے کرایا جو بہت ہی کامیاب رہا اس کے علاوہ مختلف مواقع پر سیاسی و سماجی اور مذہبی اجلاس اور کانفرنس کراتے رہتے ہیں جس کی وجہ کر اربا میں قد آور سیاسی ، سماجی اور مذہبی رہنماؤں کی تشریف آوری ہوتی رہتی ہے ،اربا میں ہی انہیں کے گھرانے کے ایک بیحد مخلص اور قوم و ملت کے ہمدرد جناب احسان انصاری مرحوم کی قائم کردہ نرسنگ کالج کی خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ،اللہ تعالیٰ جناب احسان انصاری مرحوم کی مغفرت فرمائے آمین ، اربا اور آس پاس کے پورے علاقے کی دینی و مذھبی قیادت و رہنمائی اور علاقے میں دینی و دعوتی ماحول قائم کرنے میں اربا میں ہی واقع حضرت مولانا ضمیر الدین علیہ الرحمہ کا قائم کردہ مدرسہ مظہر العلوم کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہے جہاں مولانا مفتی عمران ندوی صاحب ناظم مدرسہ و خطیب بڑی مسجد ہند پیڑھی رانچی ، مجودہ دور کی جزئیات پر گہری نظر رکھنے والے مفتی ابو عبیدہ قاسمی ،مفتی وصی احمد اور سماجی خدمت گار مولانا سمیع الحق مظاہری اور ان جیسے نوجوان اور باصلاحیت علماء اپنا علمی فیض مدرسہ اور پورے علاقے کو پہنچا رہے ہیں اور مدرسہ کی کارکردگی کو وسعت دینے میں لگے رہتے ہیں ،حالیہ دنوں میں مدرسہ مظہر العلوم کا جلسہ دستار بندی جس میں تقریبآ 70 حفاظ کرام کے سروں میں دستار فضیلت باندھی گئی اپنے آپ میں ایک بڑا کارنامہ ہے ، مدرسہ مظہر العلوم اربا کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعاون و نگرانی کرنے میں بھی جناب منظور احمد انصاری ،جناب سعید احمد انصاری اور جناب انوار احمد انصاری صاحبان پیچھے نہیں رہتے ہیں، دعا گو ہوں کہ اللہ اربا اور اربا کے دینی و عصری تعلیمی اداروں کو دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے آمین ،

Leave a Response